Home » پوھوزانت » لاہور کنونشن میں سنگت اکیڈمی کی رپورٹ ۔۔۔ جاوید اختر

لاہور کنونشن میں سنگت اکیڈمی کی رپورٹ ۔۔۔ جاوید اختر

بلوچستان کے ادب اور ادبی تنظیم کی ابتدا ہمارے عوام اور سرزمین کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ اور اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ کارل مارکس کے بقول ’’ہندوستان کی ساری تاریخ حملہ آوروں کی تاریخ ہے۔‘‘ جب کہ اس کے برعکس بلوچستان کی تاریخ حملہ آروں کے خلاف مزاحمت کی تاریخ ہے۔ پرتگیزیوں سے لے کر آج تک کوئی حملہ آور ایسا بتائیے جو بغیر کسی مزاحمت کے ہم پر قابض ہوا ہویا ہم سے ہوتا ہوا کسی پڑوسی سرزمین پر حملہ آور ہوا ہو۔ ہمارے ادب کی سب سے موٹی اور گہری جڑ یہی مزاحمت ہے۔ البتہ ہمارے حکمرانوں نے یہ کامیاب سازش ضرور کی کہ ہماری ساری جدوجہد کو حملہ آوروں کے خلاف جتائے رکھا اور خود اپنے خلاف نچلے طبقات کی جدوجہد کو تعلیمی نصاب اور ادب میں نہیں آنے دیا۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دوردراز کے عارضی طور پر آئے ہوئے لوگوں سے تو لڑا جائے اور اپنے بادشاہ یعنی خان قلات اور قبائلی سرداروں و جاگیرداروں کے معاشی، سیاسی اور صنفی جبر و استحصال کے خلاف کچھ نہ کہا جائے جو کہ مستقل اور ہمہ وقت نظر آنے والی حقیقت ہے۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز اپنے عوام کی شاندار تاریخ سے وابستہ ہے۔ جو شہہ مرید، بیورغ، مست توکلی، جام دُرک، ملا مزار، فاضل و قاسم، گدو ڈوم، رحم علی مری، اور یوسف عزیز مگسی کی سامراج دشمن و عوام دوست شاعری تک آتی ہے۔عوام دوستی کے اولمپک کا یہ مشعل ہمارے سینئر ہم عصروں گل خان نصیر، آزاد جمالدینی، عبداللہ جان جمالدینی، ڈاکٹر خدائیداد، سائیں کمال خان، نادر قمبرانڑیں کے حوالے ہوا، اور انہی کی پرورش و تربیت سے موجودہ منکسرالمزاج نوجوانوں کا ایک جتھہ تشکیل پایا جو پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن یعنی ، لوز چیذغ اورسنگت اکیڈمی آف سائنسز کی موجودہ شکل میں ادب کے میدان میں ابھرا جو اپنے بین الاقوامی اور طبقاتی فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
چند ماہ قبل ڈاکٹر جعفر احمد اور احمد سلیم کوئٹہ میں ہماری ادبی کانفرنس میں تشریف لائے تھے اور وہاں انہوں نے ہماری پیش کردہ مفصل تنظیمی رپورٹ ملاحظہ کی تھی۔
ہم حسبِ معمول ہر ماہ دو پروگرام گزشتہ 27سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک فکر و فہم کے بلوچی نام ’پوہ و زانت‘ کے عنوان سے ہوتا ہے، جس کا باقاعدہ ایجنڈا مرتب ہوتا ہے اور فالو کیا جاتا ہے۔ اس کے عنوانات میں بلوچستان کی طبقاتی ساخت، صنفی صورت حال اور عوام کی تنظیمی شکل کے بارے میں مقالات پڑھے جاتے ہیں۔ سوال و جواب پر مشتمل یہ سیشن ایک روشن فکر معاشرے کی تشکیل میں حائل معروضی و موضوعی مشکلات پر تجاویز اور لائحہ عمل متعین کرنے میں بہت معاون ہے۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے تحت ملنے والے وسیع تر صوبائی اختیارات کو سلب کرنے کے خطرات کو مستقل و مسلسل مہم کی صورت میں ان اختیارات کی برقراری کے لیے کام کیا۔ اب اس حوالے سے بلوچستان میں ایک نیا تضاد پیدا ہو رہا ہے۔ وہ تضاد اب عوام اور وفاقی حکومت سے زیادہ بلوچستان کی حکومت کے خلاف ڈویلپ ہو رہا ہے۔ بلوچستان کی حکومت ہمیشہ سے مرکزی جاسوسی اداروں، سول بیوروکریسی اور بین الاقوامی قوتوں کی پروردہ حکومت رہی ہے، اور اب بھی ہے۔ یوں اٹھارویں ترمیم کے بعد عوام کی لڑائی میں ہمارا مقامی استحصالی طبقہ مزید چھپ نہیں سکتا، جو اپنے پشت پناہوں سمیت اب عوام کے غیض و غضب کا نشانہ ہے۔
ہم اس سلسلے میں اپنے عوام کی رہنمائی اور سنگتی کے لیے متبادل عوامی تعلیمی پالیسی، متبادل عوامی صحت پالیسی، متبادل عوامی کلچر پالیسی، متبادل عوامی لیبر پالیسی مرتب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں SASکی تحریر کردہ اور منظور کردہ ایجوکیشنل پالیسی کتابی شکل میں چھپ چکی ہے۔ نیز وسیع پیمانے پر بلوچستان کے صاحب الرائے افراد اور اداروں تک پہنچا دی گئی ہے۔ چنانچہ اب ہماری تنظیم محض ادبی تنظیم نہیں رہی بلکہ اپنے عوام کی رہنمائی اور رفاقت کے لیے مختلف شعبوں سے متعلق دانش وروں، مفکروں اور پالیسی ساز ادارے کی تنظیم بن گئی ہے۔ ہماری تنظیم کی مستقبل کی قیادت انہی شعبوں سے ابھر کر آئے گی۔
ہماری ماہانہ دوسری نشست بلوچستان سنڈے پارٹی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ نشست بھی پوہ و زانت کی طرح گزشتہ 27سال سے مسلسل جاری ہے۔ یہ نشست باضابطہ ایجنڈے کے مطابق نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی شکل کانفرنس یا سیمینار جیسی ہوتی ہے۔ گو کہ اس کی انتظام کاری ہماری تنظیم کرتی ہے مگر اس کے شرکا ضروری نہیں کہ سب ہماری تنظیم سے ہوں بلکہ یہ مختلف طبقہ فکر کے افراد ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی سماجی بیٹھک ہے جہاں سماجی و عمومی دلچسپی کے موضوعات زیربحث آتے ہیں۔
ہماری تنظیم اپنی کابینہ میں خواتین کی خصوصی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اسی طرح کوشش کرتی ہے کہ نوجوان نسل شعوری و تربیتی طور پر مستقبل میں تنظیم کی قیادت سنبھالے۔
ہم دو سالہ مدت پر مبنی چھ جمہوری انتخاب کر چکے ہیں۔ ہمارا سربراہ ایک ہی ٹینور گزارنے کے بعد کم از کم بارہ سال عام ورکر کی حیثیت سے کام کر کے ہی دوبارہ اس عہدے کا اہل ہو سکتا ہے۔
نشرو اشاعت کے سلسلے میں ہم چار کام کرتے ہیں:
ایک، بین الاقوامی کلاسیک ادب کااپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے چھاپتے اور عوام تک پہنچاتے ہیں۔
دو، بلوچستان کی تاریخ، اس کی طبقاتی و معاشی ساخت، اس کے معدنی و ساحلی وسائل اور زراعت پر مشتمل تحقیقی کتابیں لکھتے، چھاپتے اور عوام تک پہنچاتے ہیں۔
تین، روشن فکری سے متعلق بین الاقوامی، ریجنل، ملکی اور بلوچ ہیروز پر مشتمل ’عشاق کا قافلہ‘ نامی کتابی سلسلہ بھی جاری ہے۔
چار،ہماری تنظیم گزشتہ تین دہائیوں سے ایک ماہوار رسالہ چھاپتی ہے جو پہلے دس سال ’نوکیں دور‘ اور اب 22سال سے ’سنگت‘ کے نام سے چھپ رہا ہے۔ جو روشن فکری اور ترقی پسندی کی ترویج کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس کے علاوہ سنگت اکیڈمی شعوری طور پر کتاب کلچر کو فروغ دینے کی غرض سے صوبہ بھر میں بالخصوص دوردراز علاقے اور شہروں میں لائبریریوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ہم تنظیم کی کتابوں کے علاوہ تنظیم کے اراکین کی طرف سے کتابیں جمع کرتے ہیں اور ان لائبریریوں کو عطیہ کرتے ہیں۔
ہم صوبہ بھر میں موجود چھوٹی بڑی ادبی تنظیموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر جمہوری دوستانہ معاہدے کرتے ہیں اور ان کے اقتدارِ اعلیٰ کا احترام کرتے ہوئے ان سے ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں۔
ہم اپنے عالمی اور قومی ہیروز کا باقاعدگی سے دن مناتے ہیں، سیمینار کرتے ہیں اور پھر اس سے متعلق ’سنگت‘ کی خصوصی اشاعت کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں فیض احمد فیضؔ اور گل خان نصیرؔ کے صد سالہ جشن کو سال بھر منایا گیا۔ ہر سال مئی میں کارل مارکس، گل خان نصیرؔ ، غوث بخش بزنجو، یوسف عزیز مگسی، عبداللہ جان جمالدینی ، سوبھو گیانچندانی کا دن منایا جاتا ہے۔ یومِ مئی، یومِ خواتین اور اکتوبر انقلاب کی تقریبات ہوتی ہیں۔ ’سنگت‘ ان پر بھی خصوصی ایڈیشن تسلسل سے شائع کرتا آ رہاہے۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز، پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ہم دوسرے صوبوں کی ہم فکر تنظیموں اور ان کی قیادت سے ہمہ وقت رہنمائی اور ہم کاری کی توقع کرتے ہیں۔اور یہ محض فقرہ نہیں بلکہ ہماری شعوری، سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *