Home » پوھوزانت » پراگریسورائٹرز ایسوسی ایشن  ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

پراگریسورائٹرز ایسوسی ایشن  ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

انقلاب کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ۔وحشت ناک رائیگانی کے بین الاقوامی ماحول کو مسلط ہوئے تیس سے زائد برس ہوچکے۔ راستہ، نشانیاں مٹ چکیں۔ ’’میرا تیرا‘‘ کا سَرابی صحرا پیاسی زبانوں کی طوالت بڑھاتا جارہا ہے ۔ کوئی سرائے ، صحبت سرائے موجود نہیں۔ حتیٰ کہ مراقبے میں بھی کوئی جبریل کوئی قاصد کوئی قطب تارا نہیں جھانکتا۔ اور اب تو برسوں سے، استقامت کی داد دینے نہ کوئی ’’ سفید سر‘‘(بزرگ خاتون) اپنے سر کو اثباتی جنبش میں نہیں ہلاتی ہے، اور نہ ہی کوئی سفید، ریش مسکراتی ہے ۔
ایسی دلدلی زمین پہ ہم نوکدار کانٹوں اور زہریلے جَور کے جنگل میں صنوبر و رحمت (صنوبر حسین اورسی آر اسلم ) تلاشنے یا کاشتنے غرب سے شرق کو چل پڑے،لاہور کو۔
وہاں مریل و لاغرو ناتواں پروگریسو رائٹر ز ایسوسی ایشن کے لیے گھسٹ گھسٹ کر یکجا ہونے کو مرکزی کنونشن کا نام دیا گیا۔ اور ملک بھر سے شکست آشنا ، پسپا ئی زدہ شناساؤں کے جمع ہونے کے واسطے ، بیٹھے ہوئے گلے والی سیٹی بجائی جارہی تھی۔
کوئٹہ سے ’’کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں ‘‘ جپتا چھ یاروں کی جابجاگانٹھی تسبیح کا کارواں یک جا ہوا۔ ایک دوسرے سے روٹھتے مناتے بالآخر جانے کا فیصلہ ہوا۔یہ وفد خود پہ احسان جتاتے سی پیکی زہریلی سڑک کے ذریعے روانہ ہوا ۔منیر رئیسانڑیں ایک روز بعد روانہ ہوا ، وحید زہیر نے اسلام آباد سے آنا تھا اور بقیہ ہم چاریعنی راقم ، جاوید اختر،ڈاکٹر بزنجو اور عابد میر۔ عابدہ رحمن حسبِ معمول اس بار بھی روٹھ گئی۔ اس لیے کہ جگہ کی تنگی کے نام نہاد بہانے پہ ہم نے اسے ساتھ نہ لیا۔
ہمیں قافلے کا سربراہ منتخب کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی اس لیے کہ ساجد بزدار کی غیر موجودگی میں تنظیم کا نائب یعنی جاوید اختر ساتھ تھا۔لہذا وہی ہمارا سفرانچارج بنا ۔ سب نے اپنی اپنی جیب سے برابر برابر پیسہ اُس کے حوالے کردیا کہ سارے خرچے کا حساب کتاب وہی کرے۔ ایک دوست نے سفر میں گھنٹوں کے حساب سے فرنٹ سیٹ بھی سواریوں میں برابر بانٹ دی اور بغیر اعلان کیے اس پر عمل کروایا۔
مگر یہاں ایک تجویز ہے کہ سنگت اکیڈمی کے پاس اگلے چھ ماہ میں کم از کم پچاس ہزار روپیہ کا ایک ہنگامی فنڈ موجود ہو۔ جس کو اس کی سنٹرل کمیٹی اسی کام کے لیے ہی مختص رکھے۔
ہمارے قافلے کی منزل تھی زنگ زدہ سورج ابھرنے کا بے ثمر خطہ ۔ حق کی ضیا پھیلاتاتاریکی کا خطہ ۔ وہاں کرنا کیا تھا؟ وہاں درد ناک دوہری کمروں کو مزید خمیدہ کرنا تھا۔ اور راہیں شاہراہیں کیا ہیں؟۔ یہ ایک لاتعلق وبے پرواہ انقلاب کی آس میں چل چل کر گلی سڑی راہیں ہیں۔ایک ہزار کلو میٹر طویل سڑاند ۔
یہ ایک ایسی راہ ہے جو اُس کے اپنوں کے لیے تو ژولیدگی اور پیچیدگی کی جہنم نما طوالت رکھتی ہے۔ مگر یہی راہ خود کو تاراج کر ڈالنے والے حملہ آوروں کے سامنے اناج بھری پستانوں سے کورنش بجا لانے بار بار شہوت میں آتی رہی ہے ۔ ایسی زمین جو قرنوں سے اپنے سب سے بڑے یار اور ہمدرد یعنی کسان کو بھوکا ننگا رکھ کر ڈائن کی طرح قہقہے بھرے مردم خور رقص کرتی رہی ہے۔ مگریہی بدبخت زمین اپنے سب سے بڑے دشمن ، جاگیردار کی وسعت شکمی کے لیے طوائفی عصیاں بھرے ننگے اشارے کرتی رہی ہے ۔
ہم ایک کرائے کی گاڑی میں لاہور کی جانب روانہ ہوئے۔
چالیس برس سے خالی ہاتھ لوٹانے والی راہ پہ کوئی باتیں کرے بھی تو کیا کرے۔ ایک جانا پہچاناموضوع جفاو دغا کی عادی سماجی تبدیلی ہے،اس سے آنکھیں چرائے بغیر کوئی راہ نہیں۔ لہذا لکڑیوں میں تبدیل شدہ درختوں ،قحطوں ،جلی وادیوں، خداناراضگیوں ہی کی باتیں اورمثالیں ہمارا موضوع ہیں۔ اسی راہ میں خون تھوکتے ساحر لدھیانوی کی شاعری ساتھ ہے جو باربار دوہرا ئے جانے سے اب ٹی بی زدہ ہوچکی ہے ۔بے فائدہ دل جلانے والی دوہرائی۔ مگر اس نشہ کے عادی ہوگئے ہم ۔
اُس کی اس شاعری کو ، نصف صدی سے لتا منگیشکراور محمد رفیع کی حسرتیں کُو کتی رہتی ہیں ۔ یہ اب نام نہاد سدا بہار گانے ہیں۔ ان نام نہاد سدا بہار گانوں سے بھری یو ایس بی کار کے ڈرائیور کوتھما دینے سے بھی اب کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایک بے لذت repetition ہی ہے۔ ملا بجلی گھر اور طارق جمیل کے قبر و قیامت کے رقت آمیز بیان و بیانیوں سے آلودہ عام ذہن پہ ساحر لدھیانوی کا زیادہ سے زیادہ یہ جادو ہوسکتا ہے کہ وہ ایک لمبی آہ بھر کر کہہ دے۔’’ جوانی یاد دلادی ظالم ۔۔ ۔۔ ‘‘۔گاڑی کے ٹائروں سے ، بجتے گانوں سے ، بے گیاہ بلوچستان کے پہاڑوں وادیوں سے ’’کچھ نہیں کچھ نہیں‘‘ کے ڈائنی ترانوں کے بیچ ہم ژوب آتے ہیں۔
وہاں بھی ہم آبادی سے دور بھاگتے ہیں۔ آبادی جو سُود کو جائز سمجھتی ہے ، بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتی ۔ چرس ، ہیروئن اور سمگلنگ پہ کچھ نہیں بولتی ۔ مگر سماجی انصاف کی بات کرنے والوں کی ضمانتیں ضبط کراتی ہے ۔ہم اِس آبادی سے دور اُس شخص کی قبر کی طرف مڑتے ہیں جس نے اپنی ساری زندگی آبادی آزادی کے نام وقف کی تھی۔ہم استاد کمال خان کی قبر کی پائنتی پہ جا کر بیٹھتے ہیں،بیٹھ کر آنکھیں بند کرتے ہیں۔گوکہ ہم اُس بے نواشخص کے برگ وپرنہ اگا سکنے والے قدموں کے نشانوں پہ چلتے رہے ہیں ۔مگر،اس کے باوجود ایک بار پھر وفا کا قول کرتے ہیں ،۔۔۔اُس سے یا پھر خود سے۔ اور وفا کا اعادہ کرنے کا قول بھی اب جانا پہچاناسا، اوربرکت سے خالی عادت کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔ اور ہم کمال خان ہی کی شکست بھری استقامت کو ایک بار پھر اوڑھ کر ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف رواں ہوجاتے ہیں۔
یہ راہیں اب محض قحط سالی کی وجہ سے ہی بھدی نہیں لگ ر ہیں۔ اب میرے ساتھ بہادر خان بنگلزئی کی جیپ میں ماما عبداللہ جان اور کمال خان ہمسفر نہیں ہیں ۔ ایک ایک منظر سسکیاں لیتا ہوا اُن کے چہروں یا تبصروں کی یادوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ ہم مالک لوگ اپنے ہی چوکیدار سے اپنی شناخت کرواتے اور اپنی ہی گزرگاہ پہ گزر نے میں اس کی اجازت کے احتیاج میں آگے بڑھتے ہیں۔ ہم وحشی انگریز کو وحشت زدہ کرنے والی سامراج دشمن جنگ کے غصیلے علاقے مغل کوٹ، درازندہ اور درابنڑ سے گزرتے ہیں۔ ہم سرمایہ کی مہیب اور ڈراؤنی مشینوں سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے نام سے منسوب پہاڑ کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھتے ہیں۔ ہم آسمان چھوتی بلند چوٹیوں کو منافع اور روکڑے کے پیروں پہ گرنے کے گواہ بناتے جاتے ہیں ۔ ہم نے بلند شملے،اکڑی گردنیں اور خود دار مونچھیں دیہاڑی والے مزدور کے بطور ایڈم سمتھ کے چرن چھوتی دیکھی ہیں۔
ہم پانچ بجے شام ڈیرہ اسماعیل خان کے دبئی ہوٹل میں رکتے ہیں۔ دن بھر کے بھوکوں کو کھانا میسر ہوتا ہے۔ ہمارا ایک ہمسفر سنگت واٹس ایپ گروپ میں کمنٹ کرتا ہے : ’’لنچ اور بریک فاسٹ کے درمیان کھانے کو برنچ کہتے ہیں۔ بھلا لنچ اور ڈنر کے درمیان یعنی 5بجے شام کے کھانے کو کیا کہتے ہیں‘‘۔ اس ہلکے پھلکے جملے پہ لغاتی ومعلوماتی اور قیاسی گھڑ دور کی ایسی یُدھ چھڑی کہ اُس کے گرد وغبار نے وٹس ایپ گروپ کو دُھند و گرد میں لپیٹ کر رکھ دیا: ایک نے کہا: ’’اردو میں تو عصرانہ کہتے ہیں ‘‘،دوسرے نے اسے lupperکہا اور ایک نے dunch۔
ہمارا ڈرائیور ایک سدھائے ہوئے جاندار کی طرح ایک پٹرول پمپ پہ جا رکا۔ خود پٹرول بھرنے لگا ، اورہمیں ایک اور جانب جانے کا کہا۔ وہاں ایک سائیڈ پہ گلاسوں سے بھرا باقاعدہ ٹوٹی لگا ایک ڈرم ایستادہ ہے جو اُن کے بقول زم زم کے پانی سے بھرا ہے۔ مسافر جتنا چاہے اور جتنی بار چاہے گلاس بھر بھر زم زم پی لے۔ کمال ہے خیرات ملّاں کی مسجد کے بجائے روکڑے کے اڈے یعنی پٹرول پمپ کے احاطے میں ہورہی تھی۔کاروباری شخص دنیا کا سب سے بڑا سا ئیکا لوجسٹ ہوتا ہے !۔
ایک دلچسپ بات یہ معلوم ہوئی کہ اسماعیل خان کا علاقہ گنے کی کاشت کا علاقہ ہے ۔ مگر دوسری دلچسپ بات یہ دیکھی کہ جس قدر موٹے تازے یہاں کے سیاست کار ہیں اُتنا ہی پتلا اور لاغر یہاں کا گنا ہے ۔ سینکڑوں ٹریکٹر ٹرالیوں میں سے ایک دانہ بھی ایسا نہ دیکھا جسے چوری میں نکال کر چوسنے کو دل کرے۔ کہاں ہمارے ہرنائی کا جوس بھرا، جت کے ڈانگ جتنا موٹا اور قدِ سرورؔ آغا جیسا سرسبز گنا، اور کہاں ڈیرہ اسماعیل خان کا بلوچ کی مویشی سالاغر ڈیل ڈول!۔
ماہرین سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہرنائی والے موٹے گنے کو صرف چوسا جاسکتا ہے ، یا اُس کی گنڈھیریاں بنائی جاسکتی ہیں۔ مگر اس سے شوگر ملوں میں چینی نہیں بنائی جاسکتی۔ اسی لیے وہ ورائٹی کاشت کی جارہی ہے جو اس قدر لاغر اورسخت ہے کہ چوسنا ناممکن ۔ یہی پتلا گنا چینی دیتا ہے ۔
ہمیں فوراً خیال آیا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر گنے کی کاشت کون کرواتا ہے ؟ ۔ ارے ہاں شوگر مل مالکان ! ۔اور پھر پاکستان کی معیشت وسیاست میں شوگر مل مالکان کے دخل واثر کا اندازہ لگایا تو ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ہمارا جاگیردار ہی زراعت پر مشتمل انڈسٹریلسٹ ہے ۔ اور ہمارا انڈسٹریلسٹ ہی زرعی جاگیردار ہے۔ یعنی زراعت ،اُس پہ مبنی صنعت اور اِن دونوں پہ مبنی اقتدار ۔ اور یہ فیوڈل کم انڈسٹریلسٹ کم حاکم کم اسٹیبلشمنٹ باہم حصے دار ہیں، آمدن میں بھی اقتدار میں بھی۔ یہ مظہر کم از کم نصف صدی سے میڈیا کی چکا چوند کے پیچھے چھپا یا گیا ہے ۔
جب ہم میانوالی کے علاقے سے گزرے تو ایک ہم سفر بول پڑا: ’’ میانوالی اب میانوالی نہ رہا، اب اس کی پلاسٹک سرجری ہوئی ہے اور اب اسے عمرانوالی بنادیا گیا ہے ‘‘۔ خوشاب کا علاقہ گزرا تو اسے تخلیقیت میں ’’خوش آب ‘‘کہا گیا اور ’’خشکا بہ‘‘ جیسی متضادات لائی گئیں۔ پھر تو گویا تربت کا ’’ہوشاب‘‘،ماوند کا ’’شیریںآب‘‘ ، کوئٹہ کا ’’سریاب‘‘ اور مشتاق یوسفی کا ’’آبِ گم‘‘ ۔۔۔ شاعروں دانشوروں کے بیچ پھنسنے کا تذکرہ ہوا تو ایک دوست نے دور دراز سے ہماری ضمانت کرادی۔ ’’خوشاب کا پتیسہ اور ڈوڈا مشہور ہے‘‘ ۔ ہم مزید لفظ بازی سے بچتے ہوئے عین مٹھائی کی دکان کے سامنے تھے۔ ڈوڈا بھی خریدا اور پتیسہ بھی۔ یہاں مٹھائیوں اور اس کی اقسام پہ مباحثہ حذف کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اس لیے کہ وہ مٹھائی لاہور پہنچنے پر کرایہ کی گاڑی میں رہ گئی۔
ہم ایئر فورس کے جہازوں اور کسانوں کے حیات بخش مالٹوں کی سرزمین سرگودھا سے گزرے ، کمر سیدھانہ ہونے والی تھکاوٹ میں ہیر وارث شاہ اور شیخو کے شہر سے ہوتے ہوئے لاہور پرانی انار کلی میں انارکلی اِن نامی ہوٹل پہنچے جہاں ہماری رہائش کا انتظام کا نفرنس کے میزبانوں نے کیا تھا۔
اگلے دن کی صبح خالی تھی۔ ہم مال روڈ بھاگے کہ جاوید اختر کا مصمم ارادہ کتابوں کی دکانیں ’’خالی ‘‘ کرنے کا تھا ۔ مگر اس کے پہنچنے سے برسوں قبل ہی وہ دکانیں اجڑ چکی تھیں۔ کتابوں کی مشہور دکان’’کلاسیک‘‘ میں بریخت کے بجائے برگر،بک رہے تھے۔ کیپٹلزم کی چکا چوند قحط زدگی کی زد میں آکرجگمگاتے مال روڈ میں موجود کتابوں کی بڑی دکان’’وین گارڈ‘‘ انتقال کرچکی تھی۔ فیروز سنز کی لاکھوں کتابیں جل کرانشورنس کے محکمے کی بدرو حیں بن چکی تھیں۔۔۔ لاہور کی ویرانی حتمی کہ وہاں کے مال روڈ کی کتاب دکانیں متروک ہوچکی تھیں۔
عادت سے مجبور ہم نے ایک دکان میں خود کو پرانی کتابوں سے لادنے کا تہیہ کر لیا۔ ارے مارکسزم کی کتابیں، پرانی کتابیں!!۔من کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انگلیاں حلال کمائی گن گن کر لُٹانے کو للچائیں۔ مگر اے فہمیدہ ریاض !یہاں لاہور میں ، مال روڈ کے اوپر ،زندگی دکاں کے نام ہوچکی تھی۔ یہاں پرانی کتابیں ،کتابیں سمجھ کر سستی نہیں بیچی جارہی تھیں۔ یہ اب گراں بہا انٹیک تھیں ۔ کوئٹہ واپسی پر گھر میں بلوچی حال حوال کرتے ہوئے ہم نے یہ حصہ ہی سکپ کردیا تاکہ بیٹوں پوتوں کو پتہ ہی نہ چلے کہ ہم پنشن کے پیسے کہاں اڑا رہے تھے۔
ایسی ماتمی شاہراہوں کو کپٹلزم کی برستی پھٹکارکی مکمل گرفت میں چھوڑ کے ہم ایک اور جگہ آگئے ،پاک ٹی ہاؤس ۔ مگر وہاں بھی تو اب کوئی حبیب جالب نہیں گاتا ، وہاں اب ثمینہ راجا شاعری نہیں سناتیں، وہاں اب فہمیدہ ریاض نہیں چہکتیں نہیں دھاڑ تیں۔ موت تیرے ہاتھ پاؤں شل ہوجائیں کہ تو ایسے افضل لوگوں کو چھین پورے سماج کو شل کر ڈالتی ہے!! ۔
انیس جنوری کے کنونشن سے قبل 18کی شام کو سنٹرل کمیٹی کا اجلاس تھا ۔ اس میں پہلے چاروں وفاقی وحدتوں کی رپورٹیں سنی گئیں۔ انتہائی بے دلی اور بد مزگی میں رپورٹیں پیش کی گئیں۔ لکھی ہوئی رپورٹ محض بلوچستان کی تھی جو جاوید اختر نے پیش کی ۔
جاوید اختر جب اپنی رپورٹ پیش کررہاتھا تو اس کا ایک فقرہ سن کر میں چونک گیا۔ اندازہ ہوا کہ ملک کی تاریخ ایک جیسی نہیں ہے ۔ حتی کہ70برس کی حالیہ تاریخ بھی ایک نہیں۔ یہ تک، باہم متصادم نوعیت کی تاریخ رہی ہے ۔ وہ کہہ گیا تھا:
’’بلوچستان کے ادب اور ادبی تنظیم کی ابتدا ہمارے عوام اور سرزمین کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ اور اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بلوچستان کی تاریخ حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی تاریخ ہے۔ پرتگیزیوں سے لے کر آج تک کوئی حملہ آور ایسا نہیں ملے گا جو بغیر کسی مزاحمت کے ہم پر قابض ہوا ہو،یا ہم سے ہوتا ہوا کسی پڑوسی سرزمین پر حملہ آور ہوا ہو۔ ہمارے ادب کی سب سے موٹی اور گہری جڑ یہی مزاحمت ہے‘‘۔
میرے ذہن میں فوراًPWA کے منشور میں درج بالکل الٹ بات آئی جو یہ ہے: ’’ انجمن اس ادبی روایت کا تسلسل ہے جو 36 – 1935 میں متحدہ ہندوستان کے ترقی پسندادیبوں اور دانشوروں نے قائم کی‘‘۔
مگر اس کے برعکس جاوید کی رپورٹ کا اگلا ٹکڑا یہ تھا:’’سنگت اکیڈمی آف سائنسز اپنے عوام کی شاندار تاریخ سے وابستہ ہے۔ جو شہہ مرید، بیورغ، مست توکلی، جام دُرک، ملا مزار، فاضل و قاسم، گدو ڈوم، رحم علی مری، اور یوسف عزیز مگسی کی سامراج دشمن و عوام دوست شاعری تک آتی ہے۔عوام دوستی کے اولمپک کا یہ مشعل ہمارے سینئر ہم عصروں گل خان نصیر، آزاد جمالدینی، عبداللہ جان جمالدینی، ڈاکٹر خدائیداد، سائیں کمال خان، نادرکمبرانڑیں کے حوالے ہوا، اور انہی کی پرورش و تربیت سے موجودہ منکسرالمزاج نوجوانوں کا ایک جتھہ تشکیل پایا جو پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن یعنی، لوز چیذغ اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی موجودہ شکل میں ادب کے میدان میں ابھرا ، اورجو اپنے بین الاقوامی اور طبقاتی فرائض سرانجام دے رہا ہے‘‘۔
چنانچہ اندازہ ہوا کہ استری لے کر اِس ہیٹروجی نس تاریخ کو اور اس تاریخ سے اٹھنے والے سماج کی ساخت کی شکنوں کو دور نہیں کیا جاسکتا ۔ لوگ اپنے علاقائی ناموں، شناختوں کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کے اپنے منشور اور آئین ہیں۔ اپنی چھوٹی موٹی تاریخ ہے اور اپنے چھوٹے موٹے افتخارات ہیں۔ ان ساری باتوں کو مد نظر رکھ کر ہی ایک ملک گیر روشن فکر ادبی علمی تنظیم مستقبل کے مشترکہ ومتفقہ نکات کو بنیاد بنا کر ایک بہت ہی ڈھیلی ڈھالی وفاقی تنظیم کی صورت آگے کی طرف بڑھنے کا سفر جاری رکھ سکتی ہے۔
وحدتوں کے بعد اب ہم وفاقی تنظیم کے سیکریٹری جنرل سے ملک گیر رپورٹ سن رہے تھے۔ گوکہ سیکریٹری جنرل کے بقول یہ رپورٹ ایرپورٹ پر لکھی گئی تھی مگر اس کے باوجود یہ نسبتاً ایک مفصل رپورٹ تھی ۔
اس میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں کی گئیں اور اسے اگلے دن مندوبینِ کانفرنس کے سامنے رکھنے کے لیے منظور کیاگیا۔ ایجنڈے میں موجود دیگر چھوٹی موٹی باتیں بھی نمٹائی گئیں۔کافی دیر بعد سنٹرل کمیٹی کا اجلاس ختم ہوگیا۔
رات ہوگئی ۔اسی اثنا میں کسانوں کے وفا شعار ساتھی اقبال ملک ،ملتان سے ملنے آیا۔ایک آدھ وقت کا بھاری کھانا اور سری پائے والا ناشتہ کھلا کر اپنی موٹر کار ہمارے لیے چھوڑ کر خود ملتان واپس ہوا۔
اگلے دن کنونشن کا افتتاح ہوا۔ عجیب کنونشن تھا یہ!۔ یہاں مندوبین ، ممبر ، مبصر ، مہمان،اور تماشبین کے بیچ کسی طرح کا امتیاز نہ تھا ۔ کوئی روک ٹوک نہ تھی جس کا جی چاہا چلاآیا ۔ایک ٹپیکل پاکستانی عام جلسے کا ماحول۔
اوہ۔ اندازہ ہوا کہ باہر تو کچھ بھی نہیں رہا۔ بازار میں کوئی احتجاج نہیں، پریس کلب میں کوئی بھوک ہڑتال نہیں ۔گلی میں کوئی ہلا گلا نہیں ، سڑک پہ کوئی جلسہ جلوس نہیں ہے ، فیکٹری میں کوئی ہڑتال نہیں ہے ۔ لہذا باشعور اور جاگے ہوئے اذہان کو جہاں کوئی اکٹھ ملے چلے جاتے ہیں۔
باہر کوئی طبقاتی سیاسی تحریک موجود نہ ہونے کا دوسرا دکھ بھی ہم ہی سہہ رہے ہیں: مسلسل تنظیمی ٹوٹ پھوٹ ۔کچھ جینوئن اسباب بھی ہوں گے مگر جب باہر کچھ نہ ہورہا ہو تو کاما اور فل سٹاپ کا اختلاف بھی بہت بڑا بن جاتا ہے ۔
اور جب باہر کچھ نہ ہورہا ہو تو عوام کی طرفداری کرنے والی سیاسی پارٹیاں خزاں زدہ ہوتی جاتی ہیں۔ اُن پر سے افرادی قوت کے پتے جھڑنے لگ جاتے ہیں اور پھر وہ اپنی فراغت ترقی پسند ادبی تنظیموں پر ’’قبضہ‘‘ کرنے کی اٹھکیلیوں سے دور کرتی ہیں۔
سرکار کی مداخلت الگ ہے ۔
سو ہم دیکھتے ہیں کہ پراگریسورائٹر ایسوسی ایشن چار چھ لخت ہوئی پڑی ہے ۔ سندھی ادبی سنگت ایک نہیں رہی ہے ۔ طلبا تنظیمیں ایک ہی نام اور جھنڈوں کو لیے ٹوٹے ٹوٹے ہوئے پڑی ہیں۔ ٹریڈ یونینوں کی تباہ حالی کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصہ یہ کہ سماجی ، سیاسی، سماجی اور ادبی تنظیموں کے اتحاد کے لیے بھی سیاسی سرگرمیاں ضروری ہوتی ہیں۔
بہر حال سیکریٹری جنرل کی رپورٹ منظور کی گئی (جو رسالے کے اگلے صفحوں میں موجود ہے )۔
کابینہ اور مرکزی کمیٹی کا ٹینیور پورا ہوچکا تھا۔ لہذا سیکریٹری جنرل نے ان کے تحلیل ہونے کا اعلان کیا۔
نئے الیکشنوں کے بارے میں کنونشن نے بھاری اکثریت سے ہاتھ کھڑا کر کے مندرجہ ذیل تنظیمی فیصلے کیے:
۔1۔ مرکزی مجلس عاملہ کے انتخابات 4ماہ کے لیے ملتوی کیے گئے ۔
۔2۔ ایک 5رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو اِن ارکان پر مشتمل ہے ۔
۔1۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری
۔2۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد
۔3۔ عابد حسین عابد
۔4۔ ثناء اللہ شمیم گنڈاپور
۔5۔ ممتاز آرزو
کمیٹی مزید کسی کو رکن کے طور پر Co-optبھی کرسکتی ہے ۔
۔3۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری، کمیٹی کے سربراہ اور کو آرڈی نیٹر ہوں گے۔
۔4۔ کمیٹی مندرجہ ذیل فرائض سر انجام دے گی۔
(i) ملک بھر کے ارکان سے آئین میں ترامیم کے لیے تجاویز لی جائیں گی۔
(ii) ترامیم کی تجاویز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
(iii) متفقہ مسودے کو ارکان کو بھیجاجائے گا ( اگر کوئی ترمیم نہ لائی گئی تو آئین کو اُسی شکل میں منظور تسلیم کیا جائے گا جس شکل میں نیا کمپوز شدہ مسودہ ارکان کو بھیجا جائے گا)
۔5۔ یہ کمیٹی اپنی نگرانی میں مرکزی الیکشن کروانے سے پیشتر صوبوں کے الیکشن کے عمل کو مکمل کروائے گی ۔
۔6۔ اس سارے عمل کی تکمیل پر یہ کمیٹی اگلے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کو طلب کر کے اور تمام معاملات کو نئی عاملہ کے سپرد کرنے کے بعد تحلیل ہوجائے گی‘‘۔
یوں پہلا گرما گرم سیشن ختم ہوا ۔اور کھانے کا وقفہ ہوا۔ پھر توتصویر بازیاں تھیں ۔ پرانے دوست باہم بغلگیر ہوتے رہے ۔ نئی شناسائیاں تولید ہوتی رہیں۔۔ ۔کھانا بھی چلتا رہا اور سٹال پہ کتابوں کی خریداری بھی جاری رہی ۔
اور پھر دوسرا سیشن شروع ہوا۔یہ ظاہر ہے کہ مقالہ جات سے بھرا سیشن تھا ۔ عنوان تھا: ترقی پسند ادب کے نئے افق اور امکانات۔ بلوچستان کے دونوں مقالہ نگاروں یعنی وحید زہیر اور عابد میر نے اسی سیشن میں اپنے مقالے پڑھے۔ شاعر ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں نے اپنی شاعری بھی اسی سیشن میں سنائی۔ یوں مغزوں کو خالی کر دینے والے پُر مغز مقالوں سے بھرے طویل دن کا اختتام ہوا۔
سیشن ختم ہوا تو ہم نے اپنے پہلے عشق کو وزٹ کرنے کا قصد کر لیا۔ وہ تہہ خانہ جو میرا قبلہ نما تھا ۔ جسے میں لاہور موجودگی میں، آباد کرتا چلا آیا تھا۔ یہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا دفتر تھا۔ وفا کا مسکن تھا۔ پاک لوگوں کا سمولنی تھا۔ میکلوڈ روڈ، لاہور کے کمیونسٹوں کے لیے بحران بھری تاریخ میں ہمیشہ سے پناہ گاہ رہا۔ 114میکلوڈ جب نہ رہا تو5میکلوڈ آزادی پرستوں کا ہیڈ کوارٹر بنا ۔سید فرید آبادی ، سی آر اسلم ، میاں محمود ، ملک اسلم ، خواجہ رفیق، اسلم ریڈیو، ہیرا پہلوان، خوشی محمد ، انور خُشکا۔۔ میں کس کس کا نام لوں۔ یہاں صبح کے ستاروں کا جھرمٹ رہتا تھا۔ میں نے سیاست وسماجیات کا ایک ایک لفظ وہیں سے چُنا تھا۔میرا سورج طلوع وہیں ہوتا تھا اور دفتر کو آخری تالا لگانے بھی میں موجود رہتا تھا۔ لاہور میرا ناسٹلجیا ہے ، 5میکلوڈ میری روحانی ولادت گاہ ہے ۔اور دفتر پاکستان سوشلسٹ پارٹی میری شعوری تربیت کی گرم گود رہا ہے ۔
دو کمروں اور ایک نسبتاً بڑے کمرے (ہال ) پر مشتمل یہ عمارت میرے مرحوم ساتھی ، میاں محمودنے خرید کر پارٹی کو دی تھی۔ اب جب وہ اور اُس کی ساری ہم عصر پود زمین کے نیچے چلی گئی تھی ۔ تو اُن لوگوں کے ایک بہادر اور وفاپرست ساتھی راجہ ولایت کی کوششوں سے یہ عمارت ’’میاں محمود احمد میموریل لائبریری‘‘بن گئی ۔ میں اس گہوارے کے پنگھوڑے میں ایک بار پھر جھولنے اور راجہ ولایت سے ملنے ساتھیوں سمیت وہاں پہنچ گیا۔ ۔۔اوروہاں موجود ایک ایک چیز کے ایک ایک مالیکیول کو آنکھوں سے چومتا رہا۔
وہاں میں خود ہی ناظر خود ہی منظر تھا، محب ومحبوب میں ہی تھا، نطق وگوش میں خود تھا۔ یادوں کی موجیں تھیں ۔ میں نوجوان دوستوں کو یہ دیکھے بغیر ساری یادیں سنا رہا تھا کہ کون سی بات اُن کی دلچسپی کی تھی اور کونسی غیر اہم ۔ میں اپنے سارے مشاہدات انہیں لوٹانا چاہتا تھا، میں سارے تجربات ومعلومات اُن کے اذہان میں انڈیل دینا چاہتا تھا۔ مگر یہ سب کہاں ممکن تھا، یہ سب کہاں ممکن ہوتا ہے ۔
میں مورچے کے اپنے بچھڑے یاروں کی تصویروں کے نیچے کھڑا کر دیاگیا اور ہماری تصویریں بنتی گئیں۔ دل سہانی یادوں، نامکمل عزائم اور اسی بے مہر منزل میں تنہا شدہ روح کے ساتھ ذمہ داریوں کے احساس کا مجموعہ بنا رہا ۔
ہم بولتے سنتے رہے ۔ لوگوں کے بارے میں، تحریک کے بارے میں ، تنظیم کے بارے میں۔۔۔ کتنے لوگ دوبارہ یادداشت کی سکرین پر نمودار ہوئے ، کتنی مدہم شدہ باتیں دوبارہ تازہ ہوئیں اور مرحوم یاروں کی کتنی حسرتیں عزم میں ڈھلتی گئیں۔ میری ایک ایک سانس گہری ٹھنڈی آہ اور واہ میں بدل چکی تھی۔ میں اُس وقت وہاں اُس زمانے کی ساری سنٹرل کمیٹی کاواحد موجود ،شخص تھا۔ عشاق کے قافلے کی ایک منزل کا شاہد و گواہ۔
میرے ساتھ موجود بلوچ عوام کے طرفداروں کے نئے قافلے کی ٹولی اپنے اندر موجود رومانس کو خوراک و انرجی دیتی رہی ۔اُن کے چہروں کی رنگت مزید دلکش ہوتی گئی۔ مستقبل کا پرچم ماضی کی ہماری باتوں کی کھاد سے مزید بلند ہوتا گیا۔
ہم بلوچوں نے باہم بلند آواز میں مشورہ کرکے اگلے ایک سال میں اس لائبریری کو بلوچستان سے دوہزار کتابیں مہیا کرنے کا قول کیا۔
ہم یاد گاہ سے اپنے دل کو پھاڑ کر ہی باہر نکل پائے ۔
***
ایک اچھا خاندان وسیم اشرف ، عثمان اور بہن رضوانہ کا تھا۔ ان کے ہاں رات کا کھانا کھایا۔ اُن کی بزرگ والدہ سے دعائیں لیں، بچوں سے گپیں لڑا ئیں اور ایک برطانیہ معیار کے شاپنگ مال کا چکرلگایا ۔ لاہور ہمارے تصور سے بھی زیادہ’’ترقی‘‘ کر گیا تھا۔ لاہور ہمارے تصور سے زیادہ ’’ استحصال گاہ‘‘ بن چکا تھا۔
رات ڈیڑھ دو بجے وسیم نے ہمیں ہوٹل پہنچایا ، ایسی حالت میں کہ ہسپتال میں داخل اُس کا سسر اور رضوانہ بہن کا والد انتقال کر چکا ۔ وسیم نے یہ بات ہمارے کوئٹہ پہنچنے کے بعد ہمیں بتائی۔ اس خاندان کو غم کی گرم ہوا تک نہ لگے شالا!۔
ہم نے بیس جنوری کے دن کے آخری سیشن میں شمولیت سے پہلے ہی انکار کردیا تھا۔
بلوچستان سے باہر ہمارے دوست ابھی تک اپنی فکری مجلسوں کی صدارتیں اپنے سکالر کے بجائے غیر تنظیمی ’’بڑے ‘‘ اور ’’مشہور ‘‘ اور ’’ سلیبرٹی‘‘لوگوں سے کروانے سے باز نہیں آئے ۔ اُن کی’’ مجبوریاں‘‘ اپنی جگہ مگر ہم سنگت اکیڈمی میں ایک عرصے سے اپنی صدارتیں خود اپنے تنظیمی سربراہوں سے کرواتے ہیں۔ چنانچہ اُن ’’بڑوں‘‘ میں شامل نہ ہونے کے عزم نے ہمیں سیشن ہی سے غیر حاضر ہونے کا کہا اور ہم نے تعمیل کی ۔
بہت برس قبل پراگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن نے مجھے ’’لائیف اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ دیا تھا۔ مگر لاہور کا چکر نہ لگنے کے سبب وہ ایوارڈ وہیں امانتاً مقصود خالق نے اپنے ساتھ سنبھالے رکھا۔ اُن کا پروگرام تھا کہ کنونشن کے دوسرے دن یعنی بیس تاریخ کے سیشن میں یہ میرے حوالے کردیں گے مگر اب وہاں ہمارے نہ جانے کی وجہ سے یہ تقریب انیس اور بیس جنوری کی درمیانی رات گیارہ بجے میرے ہوٹل کمرے سے باہر تنگ کا ریڈور میں منعقد ہوئی۔
واقعتا یہ میری زندگی بھر کا حاصل تھا۔ شیلڈ وصول کرتے وقت ایوارڈ دینے والی کمیٹی کے ایک دوست کے کان میں کہا کہ سرکاری ایوارڈ کا حشر نہ کرنا اِس پاک و مقدس ایوارڈ کا!۔
۔(2018کا ایوارڈ بلوچستان کے معمر لکھاری پروفیسر گل بنگلزئی کو دیا گیا۔ جو ڈاکٹر منیر رئیسانی نے وصول کیا)۔
اُسی رات پندرہ بیس مندوبین ہمارے کمرے میں جمع ہوئے ۔ اور یوں ایک غیر رسمی توسیعی میٹنگ ہوئی۔ نئے تنظیمی چیلنج تھے اور نئی ذمہ داریاں تھیں۔ہم نے عقل کے گھوڑے دوڑائے اور ایک تصوراتی روشن مستقبل وہیں گھڑ لیا۔ قارئین کو بھی شامل کرتا ہوں:
طبقاتی سماج کی ترازو کے دوپلڑے ہیں۔ ایک پلڑے کا نام عوام الناس ہے تو دوسرے پلڑے کی تشکیل حکمران طبقات کرتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو سماج میں اپنی محنت سے حصہ نہیں ڈالتا اور دوسرے کی محنت پر زندہ رہتا ہے وہ حکمران طبقات میں سے ہے اور عوام کا دشمن ہے ۔
بالادست حکمران طبقہ نے خود کو برجاہ رکھنے کے لیے بے شمار ڈھال بنا رکھے ہیں ۔ میڈیا اور تصنیف اُن ڈھالوں میں سے اہم ترین ہیں ، اس لیے کہ ان سے وہ بہت خاموشی سے لوگوں کو اپنی اطاعت اور غلامی کے لیے قائل کر ڈالتے ہیں۔ حکمران طبقات نے روز اول سے اس شعبے کو منظم بنانا اور ترقی دیتے رہناشروع کیا تھا۔
اسی طرح طبقاتی تاریخ کی ابتدائی ساعتوں سے ہی جبر وظلم کے خلاف آوازیں اٹھیں ۔ یہ آوازیں ادب کی زبان میں بھی اٹھیں ۔ شاعری اُس کی پہلی شکل تھی۔ اور محفل ودیوان اس شاعری کے میڈیم تھے ۔ یہ آواز اور اس کا میڈیم دونوں کبھی خود روتھے اور کبھی منظم ۔
ایک طبقاتی معاشرے میں ہر فقرہ یا توظالم طبقہ کو تقویت دیتا ہے یاپھر مظلوم کو۔ تیسرا ادب ہوتا ہی نہیں۔ دو متصادم فریقین والے سماج میں ادب طبقاتی اور جانبدار ہی ہوتا ہے ۔
آئی ایم ایف کا مقروض پاکستان داخلی طور پر فیوڈل طبقات اور اس کے اتحادیوں کی گرفت میں ہے اور خارجی طور پر یہ عالمی سرمایہ داری نظام کا حصہ ہے ۔ اُس صورت نے گذشتہ تیس برس سے پوری دنیا کی طرح یہاں بھی کوئی منظم ومتحد مخالف رہنے ہی نہیں دیا۔ یہاں کوئی ملک گیر منظم ومتحد سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے ۔ کوئی ایک ٹریڈ یونین نہیں۔ گلا گھونٹ کر نیم ہوش اور ٹکڑے ٹکڑے کردہ اپوزیشن نزاع کی صورت میں ہے ۔
ایسے میں کسی بھی طرح کے اکٹھ اور اشتراک کو خوش آمدید کہنا فطری بات ہے ۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ کسی فوری بڑے اتحاد اور بڑی تنظیم کے حالات سے ابھی ہم بہت دور ہیں۔ ابھی بھی مقامی تنظیمیں اہم ہیں۔ اُن کا وجود قائم رہنا ہی کمال بات ہے ۔ ساری بات ایک ساتھ چلتی رہے گی۔ اتحاد کی کوششیں بھی کرتے رہنا چاہیے اور مقامی، علاقائی اور وفاقی وحدتوں کی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ جب ون یونیفارم ، اورون یونٹ تو ایک انقلابی پارٹی کے لیے ممکن نہیں ، ادیبوں ، دانشوروں اور شاعروں لکھاریوں محققوں کی تنظیم تو اس کا متحمل ہی نہیں ہوسکتی۔
ہمیں اس سلسلے میں اپنے عوام کی رہنمائی اور سنگتی کے لیے متبادل عوامی تعلیمی پالیسی، متبادل عوامی صحت پالیسی، متبادل عوامی کلچر پالیسی، اور متبادل عوامی لیبر پالیسی مرتب کرنے چاہییں۔چنانچہ باید ہے کہ اب ہماری تنظیم محض ادبی تنظیم نہیں رہے بلکہ اپنے عوام کی رہنمائی اور رفاقت کے لیے مختلف شعبوں سے متعلق دانش وروں، اور مفکروں پر مشتمل ایک پالیسی ساز ادارے کی تنظیم بن جائے۔ ہماری تنظیم کے مستقبل کی قیادت انہی شعبوں سے ابھر کر آئے ۔
ہماری تنظیم کواپنی کابینہ میں خواتین کی خصوصی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ اسی طرح کوشش کرنی ہے کہ نوجوان نسل شعوری و تربیتی طور پر مستقبل میں تنظیم کی قیادت سنبھالے۔
نشرو اشاعت کے سلسلے میں ہمیں پانچ کام کرنے ہیں:
ایک: بین الاقوامی کلاسیک ادب کااپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے چھاپنا اور عوام تک پہنچانا۔
دو: اپنے وطن کی تاریخ، اس کی طبقاتی و معاشی ساخت، اس کے معدنی و ساحلی وسائل اور زراعت پر مشتمل تحقیقی کتابیں لکھنا، چھاپنا اور عوام تک پہنچانا ہیں۔
تین: روشن فکری سے متعلق بین الاقوامی، ریجنل اوروطنی ہیروز کی زندگی اور کارناموں پر مشتمل کتابی سلسلہ جاری ہو۔
چار:تنظیم کاایک رسالہ ہو۔
پانچ:کتاب کلچر کو فروغ دینے کی غرض سے ملک بھر میں، بالخصوص دوردراز علاقوں اور شہروں میں لائبریریوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ ہمیں تنظیم کی اپنی کتابوں کے علاوہ تنظیم کے اراکین کی طرف سے کتابیں جمع کرنی ہیں اور ان لائبریریوں کو عطیہ کرنے ہیں۔
ہمیں ملک بھر میں موجود چھوٹی بڑی ادبی علمی تنظیموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر جمہوری اور دوستانہ معاہدے کرنے ہیں اور ان کے اقتدارِ اعلیٰ کا احترام کرتے ہوئے ان سے ہر طرح کا تعاون کرنا ہے ۔
ہمیں اپنے عالمی اور قومی ہیروز کا باقاعدگی سے دن منانے ہیں، سیمینار کرنے ہیں ۔ یومِ مئی، یومِ خواتین اور اکتوبر انقلاب کی تقریبات کرنی ہیں۔
ہر صوبے کی تنظیم دوسرے صوبوں کی ہم فکر تنظیموں اور ان کی قیادت سے ہمہ وقت رہنمائی اور ہم کاری کی توقع کررکھے۔
***
ہم باجماعت اتوار کو انارکلی میں زمین پہ بچھی کتاب مارکیٹ گئے ۔گو کہ یہ مارکیٹ بھی اب سکڑ چکی تھی مگر بہرحال کتاب بھوکوں کی شکموں کا ایک آدھ کونا بھرنے کو کافی تھی۔ ہم نے کتابیں دیکھیں ، خریدیں۔
***
اب ہمیں لاہور کو الوداع کہنا تھا۔ گل خان نصیر کی درسگاہ لاہور کو۔ خود اپنے میڈیکل کے پوسٹ گریجویشن کے اڈے لاہور کو، سماجی علوم سے مستفید کرنے والے لاہور کو ۔
مگرابھی ایک کام باقی تھا ۔ وفا کی ایک اور شق کی تعمیل کرنی تھی ۔ اس پورے منطقے کے انقلابی استاد سی آر اسلم اور اس کے ساتھ مدفون اس کی بیگم سعیدہ اسلم کی قبروں پہ فاتحہ پڑھنی تھی۔ اور ہم دعا مانگنے میانی قبرستان گئے ۔ یار کو عربی ، اردو اور بلوچی میں بہت سارا شکریہ اور بہت ساری نیک تمنائیں پیش کیں۔
اس فرض کی تکمیل کے بعد ہم اقبال ملک کی کار موٹر پہ لاہور سے روانہ ہوگئے ۔
ہم اب اُس شہر کی جانب جا رہے تھے۔جہاں وفا کا ایک اور مرکز ،غریبوں کے دو apostles یعنی میاں محمود احمد اور سلیم بھٹہ نے قائم کر رکھا تھا۔ ہم اُن کے مقبروں کے شہر فیصل آباد گئے ۔ بارش کے لیے ترستے لائلپور میں ہم موسلادھار بارش کی رفاقت میں داخل ہوئے ۔ اور اسی برستی بارش اور ناواقفیت میں ایک گھنٹہ تک بے شمار کتبے پڑھ پڑھ کر بالآخر اجتماعی فاتحہ پڑھی ۔
وہاں سے نکلے تو ساتھی ثبینہ رفعت کے گھرانے کا درچوما۔ جس کا گھر بقول ڈاکٹر بزنجو ’’پیار کا مندر ہے ‘‘۔وہاں ثبینہ کی والدہ رہتی ہے جو ایک عرصہ سے میرے لیے دعاؤں کی ذمہ دار ہے۔ ہم نے اُس کی شفقتیں سمیٹیں اور اس کے وسیع خاندان بالخصوص نوجوانوں سے خوب محفل جمائی۔ اللہ ان اچھے لوگوں کو سلامت رکھے۔
ہم پھر ملتان روانہ ہوئے کہ ابھی اولین کمیون کے لاسٹ سپر کا ایک گواہ ممبر ملک محمد علی بھارا زندہ تھا ، اور یوں اپنی قدم بوسی کروانے موجود تھا ۔ مگر پیچھے لائلپور بول رہا تھا ، عارف ایاز شکوہ بھرا گیت گا رہا تھا: ’’ اگر سنگت اور ساتھی ہمیں خدمت کا موقع دیتے تو ہم انہیں لائلپور میں بھگت سنگھ کے گاؤں تک لے جاتے ، ہمارے ہمسائے میں بابا جی گرونانک کا ننکانہ صاحب ہے جو سی آر اسلم کی بھی جنم بھومی ہے ‘‘۔ مگر ہم نہ رکے ۔ ہمارے محبت سے زخمی شدہ دلوں روحوں کو اِس محبت زدہ عارف ایاز کی صدائیں گھائل کر رہی تھیں۔ مسافروں کو جانا ہی ہوتا ہے ۔
ساحر کی شاعری اور محمد رفیع کی آواز کب درد کی دوا بنتی ہیں۔ یہ تو عارف ایاز سے ہاتھ چھڑانے کے احساسِ پشیمانی کو دو آتشہ کر رہی تھیں۔ ہم مجسم دو آتشہ ، تیسرے نشے یعنی بارش کی صحبت میں سارا راستہ طے کرتے کرتے ملتان پہنچے ۔تھکے ہوئے تھے، سوگئے۔
اگلی صبح دیکھا تو تقدیر ،سرائیکی زبان کے ایک بہت بڑے شاعر رفعت عباس (پیدائش 1957،شجاع آباد)کے ساتھ ہماری ملاقات کا فیصلہ لیے بیٹھی تھی۔وسیلہ اُس نے مدثربھارا کو بنایا تھا۔مدثر انجینئر ہے ۔ نوجوان ذہن لیے بہت متحرک وفعال انقلابی ہے ۔ اُس کے اندر رومانس کی زیادتی کبھی کبھی مجھے تشویش میں ڈالتی ہے ۔ مگر تحریک کا گرم وسرد اُسے سیدھا کرہی دے گا ۔ میرا یہ ماننا ہے ۔
نظر کی عینکیں لگائے درمیانے قد کا گورا آدمی رفعت عباس ہم سے سننا چاہتا ہے ،اور ہم اُس کو گفتگو پر لگانا چاہتے ہیں۔
بتاتا چلوں کہ اس کی شاعری کے اب تک نو (9) مجموعے آچکے ہیں۔پہلی کتاب کا نام ’’پڑچھیاں اُتے پھل‘‘ ہے (1985)۔ دوسری ’’جھو مری جھم ٹرے‘‘ (1997)۔اس کی تیسری کتاب’’ سنگت وید کے نام سے1995میں چھپی، اور ٹھیک دوسال بعد1997 میں’’بھوندی بھوئیں تے‘‘ کے نام سے چوتھا مجموعہ آیا۔ پانچویں کتاب ’’پروبھرے ہک شہر اِچوں‘‘ تھی جو2002 میں نمودار ہوئی، 2005 میں’’ عشق اللہ سائیں جاگیا‘‘ مکھ آدم دا2009 میں’’ ماء بولی داباغ‘‘2014 میں اور9۔’’ ایں نارنگی اندر‘‘(2016)۔(1) ۔
اس نے اپنی اردو ترجمہ کردہ ایک کتاب ’’دورافتادہ شہر سے ‘‘ ہمیں عنایت کردی ۔ دراصل یہ منور آکاش کی ترجمہ کردہ اس کی ایک طویل نظم ہے۔
رفعت عباس عوام الناس کی طرف سے بولنے والا شاعر ہے ۔وہ ذات کی صلیب اٹھائے رکھنے کا حقیر کام نہیں کرتا۔ کمال بات یہ ہے کہ بہت سارے گھنٹے گزارنے کے باوجود اس نے اپنا ایک شعربھی نہیں سنایا۔ کتنا بڑا ، اور اچھا شاعر ہے وہ۔
روشن فکری کی ادبی تحریک کے مقامی معتبر ،ڈاکٹر انوار احمد کو فون پہ اپنی حاضری رپورٹ درج کرادی تو اس نے اُسی وقت چلے آنے کا کہا۔ مگر ہم نے دو وجوہات پہ شام 3بجے کا وقت لے لیا ۔ ایک تو اِس وجہ سے کہ ہم کمٹ منٹ کی ایک زندہ مثال یعنی ملک محمد علی بھارا سے اپنے دوستوں (جن میں میرا دل بھی شامل تھا ) کو ملوانا چاہتا تھا۔ دوسرا یہ کہ میں کسی طرح سے ملتان میں روشن فکر ادبیوں کی تنظیم دوبارہ بنوانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس سے کچھ ادیب دوستوں سے ملانے کا بھی وعدہ لیا۔ جو وہ اُس وقت تک بلاسکتا تھا۔
ملک محمد علی بھارا آیا ۔ اب کے وہ اتنا نڈھال ہوچکا تھاکہ بیٹا اور پوتا دونوں بغلوں کے نیچے جُتے ہوئے بیل بن کراُسے اٹھا لائے۔ کان ، آنکھ ، دانت ، کمر ، پیر سب مضمحل تھے۔ بالوں کو تو وہ پہلے بھی رنگ دیتا تھا، مگر اب جبکہ اس نے خضاب بازی چھوڑدی تو ایک بھی بال سفید پرچم برداری سے مبرانہ تھا۔ یادداشت ہی ٹھیک تھی۔ مگر اُن یادداشتوں کو بیان کرتے وقت گمراہ ہوجاتا اور کہیں سے شروع کردہ بات کہیں کھو جاتی تھی اور بالکل ہی ایک نئے دشت کی نوردی شروع ہوجاتی ۔
ہمیں سب سے بڑی خوشی یہ ہوئی کہ بیٹا اُس کی خدمت خوب کررہا تھا۔ ایسے بیٹے زندہ باد ہوں۔
باہر بارش ہورہی تھی اندر محبت برس رہی تھی۔ ہم دو انوار سے منور ہو رہے تھے ۔ تیسرا انوار ہمارے لیے دیدو شنید کابندوبست کر رہا تھا جو تین بجے شام برپا ہونی تھی ۔بھارا صاحب کوجب احساس ہوا کہ ہم موبائل فون پہ اسے ریکارڈ کر رہے ہیں تو اچھے کمیونسٹوں کی طرح وہ اپنی ذات پہ بولنے سے کترانے لگا اور عوام کی عمومی تحریک کی داستان سنانے لگا ۔
میرے ساتھی تاریخ سے مل کر بہت خوش ہوئے ۔ایک کہہ رہا تھا: ’’دوستو ! ہم نے آدمی کمائے ، ہم نے دوست کمائے‘ ہم نے ساتھی کمائے ‘‘۔
انوار احمدکے گھر کا گیٹ اب محض ہم چار آدمیوں کے لیے ہی کھلا نہ تھا بلکہ اب ہم ملتان کے کچھ شاعر وادیب بھی ساتھ لے گئے ۔دس بارہ افراد کا مجمع وہاں داخل ہوا ۔میزبان اپنے مقامی ادیبوں کے ساتھ منتظر تھا۔ انوار شگفتہ فقروں کو اپنی شناخت بنا چکا ہے ۔وہ ہر طرح کے بحران سے ایک آدھ مسکان آور جملے سے نمٹتا ہے ۔ حتیٰ کہ قریب ترین ساتھیوں پیروکاروں کے دغا کو بھی مزاح میں دفن کر لیتا ہے۔
دلکش خدوخال اور شائستہ لباس والا خاور نوازش اپنی پروفیسری کو دھکیل دھکیل کر ہمیں ڈرائی فروٹ ، مالٹے اور چائے بنا بنا کر پیش کرتا رہا۔پھر ایک نوجوان وہاں آئی۔ عقیدت واحترام سے بھیگے الفاظ میں انوار احمد سے کہنے لگی: ’’پہلے فیس بک پہ لکھا، آدھ گھنٹے تک جواب نہ ملا تو فون ملایا پر کال اٹنڈ نہیں ہوئی ، دس منٹ تک سوچا کیا کروں اور پھر چلی آئی۔ دروازے پر دستک دی مگر جواب ندارد۔ بچپن کا پڑھایا ہوا سبق تو یہی تھا تیسری بار پہ پلٹ جاتی لیکن وہ سب باتیں بھلا کر ہی یہاں تک پہنچنا نصیب ہوا‘‘۔
علم کا اپناایک سولر سسٹم ہوتاہے ۔ اس کی اپنی ہی ایک کششِ ثقل ہے ۔ کتاب ایٹم بم سے بھی بڑی قوت رکھتی ہے ۔ ۔۔ رامش فاطمہ اسی کتاب سولر سسٹم کی ایک الیکٹران ہے ۔ ملتان کا چیدہ چیدہ سیارہ یہاں جمع تھا۔ ایک باقاعدہ گیلکسی بن جانے کی ترغیب و ترکیب پہ باتیں ہوئی کہ کاسموس رِدھم سے خالی اجسام کو شہابِ ثاقب بناتے دیر نہیں لگاتا۔
باہمی مشترک اور دلچسپی کے امور پر بحث کے بعد اُن سب نے دو تین دن بعد وہاں کی تنظیم کھڑی کرنے کے لیے میٹنگ بلانے کا اعلان کیا ۔ انوار احمد کے فیس بکی دعوت ناموں نے اِس تحریک کے مقاصد کو عزیز جاننے والوں، چھوٹی چھوٹی شخصی آزرد گیوں اور رنجشوں کو خاطر میں نہیں لانے والوں اور روشن خیالی کو نسلی تصور کرنے والوں کو بالآخر24تاریخ کو اکٹھا کر ہی لیا اور یوں ہمیں ایک تنظیم عطا کردی ۔اور بہت موزوں دوستوں پر مشتمل ہر لحاظ سے مناسب ایک کا بینہ تشکیل پائی۔ رفعت عباس صدرنہ ہوں تو بھلا کون ہو؟۔ خاور نوازش ہمارے جنرل سیکریٹری ہیں وہاں۔ ڈاکٹر شگفتہ حسین اور ڈاکٹر رامش فاطمہ نائب صدور ہیں اور جناب الیاس کبیر فنانس سیکریٹری ہیں۔ہم نے یہ لسٹ پڑھی اور کہا:’’بہ چشم !‘‘۔
ہمیں امید ہے کہ ایک گھنٹہ کے فاصلے پر موجود ڈیرہ غازی خان میں بھی ایسا ہی ایک یونٹ کھل جائے گا۔
ارواح اُس کا آستانہ چومتے باہر نکلتی ہیں۔ ہم سب بغلگیر یوں کی بارش میں باہر آئے ۔
وہاں سے ہم جھوک پبلشرز اور جھوک اخبار کے دفتر چلے گئے۔ وہاں ایک طرف ایک کمرے میں چار چھ آدمی بڑی میز کے گرد بیٹھے کام کر رہے تھے ۔ ہم سامنے کے کمرے گئے جہاں ایک ہی صاحب بیٹھے تھے ۔ ادھیڑعمر، چہرے پر سنجیدگی اور کمٹ منٹ کا وقار اور طور اطوار میں ملتان کی انکساری ۔ ہم نے جب اپنا تعارف کیا تو وہ سپرنگ کی طرح اٹھ کھڑا ہوا ۔ بہت ہی تکریم سے بغلگیر ہوا اور جو کچھ تعریفی جملے اس کی وکا بلری میں تھے ، سب خلوص اور بلا تصنع ہمیں عطا کردیے ۔ قسمیں دے دلا کرمہمان نوازی کے تکلفات سے باز رکھا۔ پھر بھی چائے اور فروٹ تو لازمی ہے۔ مجھے مگر سب سے اچھی بات یہ لگی کہ سخت سردی میں ٹھٹھرتے اس معمر شخص نے اپنے پاس رکھا گیس ہیٹر اپنے سامنے سے سرکا کرمہمان کے پاس رکھ دیا۔اس ’’خالصتاً ‘‘اور ’’کمٹڈ‘‘سرائیکی قوم پرست سے دیر تک اُس کی زندگی کے بارے میں سنتے رہے ۔ ہم ظہور دھریجہ کے پیار ناپنے میں ناکام، اجرک اور کتابوں سے لدے لوٹے۔ ہمیں انتہائیں چھوتی اس کی قوم پرستی سے خوف آیا اور ہم اِس اچھی فطرت کے انسان کو نسل پرستی سے بچ جانے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ شاید اُس کی ساری مہمان نوازی کا یہی ایک اجر ہم دے سکتے ہیں اُسے !۔
اپنے اچھے ساتھی اقبال ملک، اس کے چھوٹے بھائی ریاض، دوستین، شہروز ، اور مانی کی پرخلوص بغلگیریاں لے کر ہم قبلہ رُخ ہوئے ۔۔۔ جی ہاں بلوچستان ۔
یہاں پھر کوہِ سلیمان کے دوسرے سرے کو مشینوں کی زد میں دیکھا۔ یہ فورٹ منرو کہلاتا ہے ۔ لیغاریوں کا علاقہ ۔ ٹکنالوجی کے سامنے یہ دیوہیکل پہاڑ تو سمجھو کھیت کی معمولی ناہمواریاں تھیں۔ حیرانگی ہوئی کہ سڑک کی چوڑائی کے لیے اب پہاڑ کی منتیں نہیں کی جارہی تھیں۔ اب نیچے سے کنکریٹ اورسریوں کے چھ کمروں جتنے موٹے ستون کھڑے کیے جارہے تھے۔اور اُن ستونوں کے اوپر اپنی مرضی کی چوڑائی والی سڑک بنائی جارہی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح دریاؤں میں پلر، اور ستون کھڑی کر کے اُن کے اوپر پُل بنایا جاتا ہے ۔
ہم حیران کہ اتنی مضبوط اور چوڑی سڑک کس لیے؟ ۔
ارے؟ یہ سڑک تو نہیں ہے ، یہ تو عالمی سرمایہ داری کا مضبوط ہاتھ ہے جس کے بھیڑیے جیسے ناخنوں والے ہاتھوں نے ہر چھوٹی موٹی رکاوٹ کا گلہ دبوچ رکھا ہے اور اپنے استحصال کی راہیں دیوہیکل مشینوں سے روند کر برابر کر رکھی ہیں۔
اب سب کچھ صاف نظر آتا ہے ۔ یہ کہ ہم اب جزیرہ نہ تھے۔ ہم مقامی نہیں رہنے دیے گئے ۔ ہم بین الاقوامی سرمایہ داری نظام کا حصہ بنا دیے گئے ہیں۔ اس لیے اب تبدیلی اور اب مقامی انقلاب مقامی رہتے ہوئے بھی مقامی نہیں ایک بین الاقوامی نوعیت کا ہوگا ۔ اب ہمیں اسمعیل خان کے ٹریکٹر ٹرالیوں پہ لدے گنے کے ڈنٹھل ہی گننے نہ ہوں گے بلکہ کانوں سے بل گیٹ کے ڈالروں کی پردہ پہاڑ جھنکار بھی سننی ہوگی۔ اب صرف جنگ اور جیو ہی نہیں ہمیں وال سٹریٹ جنرل اور اکانومسٹ بھی پڑھنا ہوں گے بی بی سی اور سی این این اور الجزیرہ بھی ملاحظہ کرنے ہوں گے۔ اس لیے کہ آئی ایم ایف دنیا بھر کے لیے بجٹ بناتا ہے۔ اسحاق ڈار ، اور اسد عمرتو اُس کے دم ہلاتے منشی ہیں۔
اور آرگنائزیشن ؟۔ اُس نے بھی اب اپنے ورکرز کی شعوری سطح بلند کر کے اسے انٹلکچو ئلز کی حد تک لے جانا ہوگا۔ وہ ، جو سرمایہ داری کے اندر کے بحران کی نباضی کر سکے۔ماپ سکے کہ سرمایہ داری کا بحران جو شدید سے شدید ہوتا جارہا ہے ۔ اور یہ کروفر کی عمارت اب گری کہ اب گری۔ اسے آخری دھکا دینے والی بین الاقوامی ورکنگ کلاس کی تحریک کا حصہ ہیں ہم۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ ممبر شپ اور افرادی قوت کی ضرورت ہے ، ہمیں مزید کمٹمنٹ اور کافی ساری تنظیم کاری کی ضرورت ہے ۔

حوالہ جات
1۔رانا ، محبوب اختر مونجھ سے مزاہمت تک۔ جھوک پبلشرز ملتان 2018صفحہ 292

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *