Home » پوھوزانت » امریکہ، جنگ اور نظام تعلیم۔۔۔ ڈاکٹر سارہ علی

امریکہ، جنگ اور نظام تعلیم۔۔۔ ڈاکٹر سارہ علی

امریکہ تیسری دنیا کی بنیادی سہولیات کو ترسی ہوئی عوام میں خدا کی حثیت رکھتا ہے جہاں لوگ صحت، تعلیم ترستے ہوں اور آذادی اظہار رائے اور آذادی جیسے بنیادی حق کے لیے آواز بلند کرنے پر جبری طور پر اٹھا لیے جاتے ہوں اور پورے صوبے اور وادیاں محبوس کر دی جائیں کہ ان کے ذخائر وہاں بسنے والے انسانوں سے زیادہ اہم ہیں۔ وہاں ہالی ووڈ کی فلموں کے ذریعہ سرمایہ درانہ ملکوں کے ان داتا امریکہ کی گلیمرائذڈ زندگی کا پیغام جلدی اپنا اثر چھوڑتا ہے۔امریکہ نے کپٹلسٹ ممالک کی ترقی کا جو منظر پیش کیا ہے اس کے مطابق صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات ہر کسی کی دسترس میں ہونی چاہیں تھیں لیکن اصل میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔کپٹلسٹ نظام کی بدولت دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے وہاں پر بھی 20 فیصد امیروں کو امریکہ کی 86 فیصد دولت کا قابض بنا دیا ہے اور باقی 80 فیصد مڈل کلاس اور غریب عوام کے پاس صرف 14 فیصد دولت کا حصہ آیا۔ اس غیر منصفانہ دولت کی تقسیم نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا اور ہمارے فلموں ڈراموں کی طرح امریکہ کے فلموں اور ڈراموں میں خاص کر اسی اور نوے میں، دکھائی گئی زندگی اصل حالات سے مختلف ہے۔امریکہ میں ”مفت صحت کی سہولت سب کے لیے“کا نعرہ عام ہوتا جا رہا ہے  خاص کر کرونا کی وبا نے امریکہ کے نظام صحت کا پول کھول دیا ہے جب لوگوں نے کرونا کی وبا کے باعث سانس میں دشواری کے باوجود ونٹیلیٹر پر شفٹ ہونے سے اس لیے انکار کر دیا کہ وہ اس کے پیسے ادا نہیں کر سکتے تھے اور ان کو خدشہ تھا کہ اگر وہ مر گیا تو ہسپتال کا بل چکاتے چکاتے ان کے بچوں کے جوتے گھس جائیں گے۔اسی طرح سے نظام تعلیم میں ہائی اسکول تک تو تعلیم مفت ہے سرکاری سکولوں میں لیکن کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے طالبعلموں کو حکومت سے لون لیکر عموماً اپنی تعلیم پوری کرتے ہیں۔ اس لون کا کچھ حصہ حکومت اچھی کارگردگی دکھانے والے طلبا کو معاف کردیتی ہے لیکن بیشتر لون تعلیم ختم ہونے کے بعد آپ کو واپس کرنا ہوتا ہے اور یہ ہوشربا مہنگائی میں ناممکن بنا دیتا ہے اس لیے امریکہ میں کچھ لوگ اس بات کے لیے مہم چلا رہے ہیں کہ کم آمدنی والے طبقات کا سٹوڈنٹ لون معاف ہونا چاہیے۔ متوسط طبقے کے بچوں کے لیے کالج یورنیورسٹیوں کی فیس دینا ممکن نہیں ہوتا اس کے لیے وہ سٹوڈنٹ لون لیتے ہیں اور پھر جب وہ نوکری کرنا شروع کرتے ہیں تو ان کو وہ لون اتارنا ہوتا ہے۔ یہ ان کم تنخواہ دار طبقات کے لیے اتنا عذاب ہوتا ہے کہ وہ اخراجات ِزندگی اور اس لون کی ادائیگی کے درمیان بری طرح پھنس جاتے ہیں۔اس مطالبے کو صحت سب کے لیے اور  یونیینز کے قیام اور بحالی کے مطالبے کے ساتھ عوام میں بھرپور پذیرائی ملی لیکن بورژوا نظام جمہوریت میں اقتدار کا ہما اس کے سر پر بیٹھتا ہے جس کو ملٹی نشینل کارپوریشنز کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن صدر کے لیے نامزد ہوا لیکن برنی سینڈرز اور ان کے گروپ نے ہمت ہارے بغیر جو بائیڈن کی حمایت کا اعلان کیا اور اس کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے مطالبات مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کے سٹوڈنٹ لون کی معافی، صحت سب کے لیے اور لیبر یونیز کے قیام اور کم از کم اجرت کو بڑھانے کے مطالبات کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔اس ساری جدوجہد میں انہیں رپیبلیکن پارٹی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور 24 اگست 2022 کو جب صدر جو بائیڈن کی طرف سے ان لوگوں کے لیے جن کی سالانہ آمدنی ایک  لاکھ پچیس ہزار ڈالر سے کم ہے ان کے بیس ہزار ڈالر تک کے لون معاف کرنے کا اعلان کیا تو سوشلسٹ ڈیموکریٹ گروپ نے اس کو صحیح سمت میں اٹھایا گیا پہلا قدم قرار دیا۔برنی سینڈرز نے اس موقع پر ایک بار پھر واضح کیا کہ تعلیم پرائمری سے لے کر گریجویشن تک مفت اور سب کا حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے یہ کوئی عیاشی نہیں لیکن اس کی مخالفت میں  رپیبلیکن سینڑرز کے  بیانات نہ صرف کپٹلسٹ نظام کے تعصب کا پردہ چاک کرتے ہیں بلکہ امیروں کے نہ صرف غریبوں کی طرف تعصب اور نفرت کو ظاہر کیا بلکہ بہت سے رہیبلیکن سینڑرز نے بالکل ہماری طرح محب وطنی کا کارڈ یہ کہہ کر کھیلا کہ اس سے ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کو آرمی کی اشد ضرورت ہے آرمی میں نوجوانوں کی بھرتی میں شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ امریکہ میں زیادہ تر نوجوان اپنے خاندانوں کے قرضے اپنی پڑھائی کے قرضے، مفت صحت کی سہولیات اور دیگر مراعات کے حصول کے لیے آرمی کا رخ کرتے ہیں اور پھر ان کو باقی دنیا کو تہس نہس کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی غربت کو ہتھیار بنا کر ان نوجوانوں کی زندگی خریدی جاتی ہے تاکہ وہ امیروں کی تیل کے کنواں کی جنگ لڑیں اور ان لوگوں کے لیے موت کو گلے لگائیں جو ان کو غربت میں صرف اس لیے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خزانے بھرتے رہیں اور دنیا برباد ہوتی رہے۔

سٹوڈنٹ لون کی معافی اور امریکہ کے امیر طبقے کا ردعمل تیسری دنیا کی حقیقت سے مماثلت رکھتا ہے۔ جنگ آج بھی عوام کی توجہ ان کے مسائل سے توجہ ہٹانے اور تجوریاں بھرنے کا ذریعہ ہے اور صحت تعلیم اور زمین  کے حصول کا ذریعہ ہیں۔یہ اوپن مارکیٹ اور سرمایہ درانہ  نظام کے تاجدار امریکہ کے نظام تعلیم کی اصل حقیقت ہے اور غربت غلامی کی نئی شکل ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *