Home » پوھوزانت » رؤف وارثی ۔۔۔ شاہ محمد مری

رؤف وارثی ۔۔۔ شاہ محمد مری

رؤف وارثی روشن فکر تحریک کے نہایت کمٹڈلوگوں میں سے ایک تھا۔ اس کی جدوجہد بہت طولانی ہے اور اس کی زندگی مصائب اور کٹھنائیوں سے بھری رہی۔ جیل،جلاوطنی اور انڈر گراؤنڈ رہنے کا دورانیہ اس کی زندگی کا بڑا حصہ رہا ہے۔

مگروہ اُن لوگوں میں شامل ہے جنہیں فراموش کردیا گیا۔ گدا گرانِ سخن تو وزیروں گزیروں کی مدح سرائی سے فارغ ہی نہ ہوئے۔ چنانچہ روؤف وارثی کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ جن لوگوں نے اُس پہ لکھا بھی تو وہ عموماً معلومات سے خالی فقرے سازیوں پہ مشتمل تحریریں ہیں۔۔۔اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وارثی صاحب کے ہم عصر سب اس دنیا سے چلے گئے  ہیں۔ کوئی پرائمری سورس رہا  ہی نہیں۔

وارثی صاحب 22 دسمبر1942میں انبالہ انڈیامیں پیدا ہوا۔ اس کا والد عبدالوحید وارثی ملازم پیشہ آدمی تھا۔ وہ  اپنی اسی ملازمت کے سلسلے میں تقسیم کے وقت لاہور کینٹ میں تھا۔ وحید وارثی وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر اپنے بچوں کے ساتھ کراچی شاہ فیصل کالونی میں منتقل ہوگیا۔

رؤف وارثی نے میٹرک کراچی سے پاس کیا۔ اُس کا والد چاہتا تھا کہ ذہین بچہ ڈاکٹر بنے۔ مگر میڈیکل لائن چُننے سے پہلے ہی وارثی صاحب سیاسی بن گیا۔ اُس کا رجحان صحافت کی طرف بھی تھا۔ وارثی نے اپنے ارد گرد ناانصافیوں کا جب مشاہدہ کیا تو اسے لگا کہ اسے ڈاکٹر بننے کی بجائے اس ملک میں محنت کش طبقات کے لیے تبدیلی لانے کی جدوجہد کر نی چاہیے۔

چنانچہ وہ کم عمری ہی میں ٹریڈ یونینسٹ بن گیا ۔ سیاست میں وہ کمیونسٹ پارٹی اور لہذا نیپ میں تھا۔سیاست کی اُس کی یہ شروعات 1956 کے آس پاس کی تھی جب وہ ابھی صرف 14سال کا تھا۔ ایوب کا دور تھا۔ ظلم بربریت چھائی ہوئی تھی۔

۔1962-63میں اُسے حیدر آباد سے گرفتار کیا گیا۔ الزام تھا کہ اس نے بطور ٹریڈ یونین لیڈر مزدوروں کی ہڑتال منظم کی تھی اور مزدورں کے سامنے اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ اس جیل نے اس کے نظریات کو مزید پختہ کیا اور اُسے اپنے برحق ہونے پر پہلے سے بھی زیادہ یقین ہوگیا۔

ایوب ، یحیٰ، بھٹو، اور ضیاادوار میں اس کی جدوجہد جاری رہی۔ اس نے انگلش پہ کمان حاصل کی۔وہ  انقلابی اور فکری تحریروں کے تراجم کرنے لگا۔ یہ تراجم اس کے اپنے نام سے نہ چھپے اور مقامی طور پر چھپ کر تقسیم ہوتے تھے۔

اس میں تنظیمی صلاحیتیں بہت تھیں۔ اس نے 1969میں کراچی سے ”ترقی“اور 1971میں ”صبا“ نامی رسالے نکالے۔ وہ بنگال پہ ظلم کے خلاف خوب لکھتا تھا۔

۔1966-1972 کے زمانے میں وارثی صاحب سوویت سفارت خانے کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں  ملازمت کرتا تھا۔ وہ وہاں رسالہ ”طلوع“میں کام کرتا تھا۔وہاں اور بھی بہت سے اچھے لوگ کام کرتے تھے۔ ماما جمالدینی بھی وہیں طلوع میں کام کرتا تھا۔ لہذا وارثی اور جمالدینی کو لیگ اور دوست بن گئے۔ ماما نے لکھا: ”ماہنامہ طلوع“ جو سوویت انفارمیشن ادارے کا پرچہ تھا، اس ادارے میں رؤف وارثی صاحب سے دوستی ہوئی۔ کیا ہی اچھے دن تھے اور کیا ہی اچھے انسان تھے“۔ (1)

بھٹو کی حکومت کے اوائل ہی میں لانڈھی اور کورنگی کے صنعتی علاقے اور سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ میں صنعتی مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ وارثی نے مشہور ٹریڈ یونین لیڈر واحد بشیر کے ساتھ مل کر اُس کی زبردست مخالفت کی۔ اسی وجہ سے بھٹو نے اُن لوگوں کے لیے مصیبتیں کھڑی کردیں۔وارثی اس قدر مجبور ہوا کہ اس کو نوکری چھورنی پڑی اور وہ فرار ہو کر کوئٹہ پہنچا۔ کوئٹہ جہاں بابا بزنجو گورنر تھا۔ وہ تو سارے قہر زدگان کے لیے ایک چھتری تھا۔ بھٹو کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سارے ستائے ہوئے لوگ وہاں سے نکل کر بلوچستان بزنجو کے باوقار چوغے کے چلے آتے۔ وہ سب کے سب روشن فکر لوگ نیچے امن اور چین سے تھے۔

کوئٹہ آکر وارثی صاحب کو ایک اچھا کام مل گیا۔ وہ 1972میں  ہفت روزہ سنگت کا ایڈیٹر بنا۔ یہ رسالہ بی ایس او کا ترجمان رسالہ تھا، بیزن بزنجو کا۔ ماما عبداللہ جان جمالدینی کے بقول وارثی یہ رسالہ غوث بخش بزنجو صاحب کی گورنری اور زیر سرپرستی کوئٹہ سے نکالا کرتا تھا(2)۔یہ ترقی پسند رسالہ تھا اور اُس میں روشن فکر لوگ لکھتے تھے۔ رسالہ سنگت دس ماہ تک چلتا رہا۔

جب بھٹو نے ترنگ میں آکر نیپ کے منہ زور لوگوں سے جھکڑا کر کے بالآخر نیپ کی حکومت توڑ دی تو جو بلوچستان جائے پناہ تھا اچانک قیدو بند کے گڑھے میں بدل گیا۔ سب لوگ پھر روپوش ہوگئے۔ وارثی کے لیے بھی مگر اب وہ سایہ چھن گیا تھا۔جگہ تنگ ہوگئی۔پولیس اسے گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ پہلے تو اسے گرفتاری سے بزنجو صاحب نے بچا کر رکھا تھا۔ گورنر جو تھا۔

یوں وارثی صاحب واپس سندھ چلا گیا اور انڈر گراؤنڈ رہا۔

پھر اس کے ایک دوست نے اسے خلیج بھیج دیا۔ مگر باہر اُس کا دل نہ لگا اور وہ سیاست کرنے واپس وطن چلا آیا۔ اس نے ضیا دور میں بھی انڈر گراؤنڈ سیاست کی۔ وہ 1977 میں  دو بارہ روسی سفارتخانے میں ملازم ہوگیا۔ اور وہ وہاں 1979تک رہا، انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں۔ 1979میں روسی سفارخانہ اسلام آباد شفٹ ہوگیا تو وارثی صاحب کی نوکری بھی ختم ہوگئی۔

۔1980میں اُسے ضیائی مارشل لاحکومت نے گرفتار کرلیا اور شاہی قلعہ پھینک دیا۔ اس پہ تشدد کیا گیا۔ اس کی بیگم ضمانت کے سلسلے میں دربہ در ہوتی رہی۔ اور بالآخر اس کی ضمانت ہوگئی۔

افغانستان میں انقلابی حکومت قائم تھی۔ وہاں کئی ممالک کے مارشل لا زدگان اور انقلابی پناہ لیے بیٹھے تھے۔ چنانچہ رؤف صاحب بھی ضیاء الحق کی کرگسی پنجوں سے بچ بچا کر 1980 کے اواخر میں پاکستان چھوڑ کر کابل پہنچا۔ جہاں اس کے دوسرے کئی ساتھی پناہ لیے ہوئے تھے۔رؤف وارثی وہاں 1981 سے 1985 تک رہا۔اور پھر افغانستان کے اپنے حالات خراب ہونے لگے۔ پھرتو وہ پھر سویڈن شفٹ ہوا اور وہیں کا ہوا۔

۔1989میں وہ بیمار ہوا۔ اس کی یادداشت خراب ہوگئی۔وہ جسمانی طور پر بھی مفلوج ہوا اور ویل چیئر کے سپرد ہو گیا۔میری اس سچے انقلابی اور اصول پرست شخص سے فون پہ بات ہوتی رہتی تھی۔ وہ ایک دفعہ اُس سے ملا بھی تھا۔

ماما عبداللہ جان جمالدینی روؤف وارثی کا ہمیشہ اچھے لفظوں سے ذکر کیا کرتا تھا۔ وہ وارثی کے سوویت سفارتخانے کے وقت کا دوست تھا۔ چنانچہ وہ جب یورپ گیا تو وارثی کو ڈھونڈنکالا اور اسے اپسالا یونیورسٹی کسی بلوچ کا نفرنس میں ساتھ لے گیا تھا۔ ماما نے اس سلسلے میں لکھا: ”میری خوش قسمتی کہ میں سٹاک ہوم پہنچا اور  دوسرے ہی روز وہ بے قراری میں مجھے اپنے گھر منتقل کرنے کے لیے میرے دوست کے گھر پہنچے اور مجھے لے گئے۔ کچھ دن جو میری زندگی کے اچھے دنوں میں سے ہیں، میں نے رؤف صاحب، اُن کی مہربان بیوی اور پیارے بچوں کے ساتھ گزارے۔ سدا زندہ ہوں ایسے انسان دوست قلندر“۔(3)

طویل بیماری میں 5دسمبر2014کو ماما عبداللہ جان کے دوست روؤف وارثی کا انتقال ہوا۔

 

 

ریفرنسز

 

۔1۔جمالدینی، عبداللہ جان۔شمع فروزاں۔ صفحہ 25

۔2۔ ایضاً۔ صفحہ 25

۔3۔ ایضاً۔ صفحہ 25

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *