کبھی جب اک یقیں کا ہاتھ تھامے
وقت کے جنگل میں
جا کر اْس سے ملتی ہوں
اْسے اپنا سمجھتی ہوں
مری سانسوں سے اجلے ہنس کی
آواز آتی ہے
مرا ساقی
سنہری جام کو بھر کے لبالب
سامنے رکھتا ہے میرے
عجب عالم میں برہا کی بھڑکتی آگ
چھن سے بجھنے لگتی ہے
مجھے اْس دوست خاموشی کے
موسم اچھے لگتے ہیں
مگر یہ وقت کی گردش
کسی خونخوار کی مانند
اس کو کھینچ لیتی ہے
رگوں میں درد کی لہروں کا
اک سیلاب آتا ہے
مری سانسوں میں بیٹھا ہنس
آنکھوں کی ندی سے
مرے رخساروں کے رستے
کسی کی کینہ پرور، حاسد آنکھوں کے
بھنور میں جا نکلتا ہے
مگر میں سانس کو روکوں تو…۔
تو، میری جان جاتی ہے!!!۔