Home » پوھوزانت » میرا بلوچستان ۔۔۔ کلثوم بلوچ

میرا بلوچستان ۔۔۔ کلثوم بلوچ

؎ہم بارہ مارچ 2022 کو بلوچستان کے سیاسی سفر پر نکلے۔ نیشنل پارٹی کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ میں بلوچستان کے مکران بیلٹ کا سیاسی دورہ کروں گی جس میں وہاں کی عورتوں سے ملنا، ان کے مسائل سننا اور ان کے سیاسی حل کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا شامل تھا۔ اس سیاسی سفر میں ہم نے میسیمہ، پنجگور، تربت، گوادر  اور خضدار کا دورہ کیا۔ یہ خالص سیاسی دورہ تھا۔

سورج طلوع ہونے کو تھا،اور ہم تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھے۔ سڑک پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، شال پرسکون تھا۔

ایک وقت تھا کہ شال کے ہر گھر میں ماتم ہی ماتم اور اداسیاں چھائی ہوئی تھیں اور میں سوچتی تھی کہ ان گھروں میں خوشیاں کب لوٹیں گی۔ میرے محلے میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا کہ شادی کے موقع پر شادیانے نہیں بجتے تھے۔ رنج و الم کا یہ حال تھا کہ شادی اور غمی یکساں لگتے۔ ہر ایک گھر میں ماتم، اور اجتماعی اذیت، ایک قہر ایک قیامت ٹوٹی ہوئی تھی۔ بہ حیثیت بلوچ قوم، بڑی بڑی قربانیاں وطن کے فرزندوں نے اس دھرتی کے لیے دیں۔ میرے قبیلہ لانگو میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو کہ جو اذیت سے نہ گزرا ہو۔ جوانوں کی جبری گم شدگی اور ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ غرض ہر ظلم کا سامنا رہا۔

یہ وہ حالات تھے کہ جن میں میرا بچپن گزرا۔ ہاں، وقت زخموں کو مندمل کر دیتا ہے اور انہیں بھر دیتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے، سفر میں کئی بار اشک بار ہوئی۔ کئی بار قدرت سے پوچھا کہ قہر و ظلم کا مسکن آخر ہم کیوں؟۔ ہمارے گھر کیوں جلے؟۔ شاید اس لیے کہ ہم وہ واحد قوم تھے جس نے جھکنے اور بکنے سے انکار کیا اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کی۔

میرے پہلے سیاسی لیڈر تو میرے بابا ہیں جنہوں نے یہ سمجھا کہ سیاست اپنے ذاتی مفاد کا نہیں قومی مفاد کا نام ہے۔ انسان فانی ہے، فرد کی حیثیت نہیں، نظریے کا پرچم بلند کرنا ہے۔ اپنے قومی وجود کی بقا کا سوچنا ہے تو سیاست کرنا ہے۔ دوسری سیاسی رہنمائی کتابوں نے کی، ایک چراغ بن کر راستہ دکھایا اور میں اسی روشن راہ پر نکل پڑی۔ میں نہیں جانتی یہ سفر کتنا لمبا اور کتنا کٹھن ہے لیکن یہ کمٹ منٹ ہے کہ اپنی سر زمین کی حفاظت اور اس کی آبرو کے لیے آخری حد تک کوشش کرنی ہے۔

بلوچستان کے حکمران بدلتے رہے، وقت بدلا، لوگ بدلے، لیکن ایک چیز ویسی کی ویسی رہی اور وہ ہے اس کی محرومی، اس کی اداسی۔ بلوچستان مجموعی طور پر اداس و محروم ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست سیاست کو دیوار سے لگانے کے لیے راتوں رات پارٹیاں بنائی گئیں۔ ان کو اقتدارسونپ کر اپنی مرضی کے بجٹ بنوائے گئے اور تاثر یہ دیا گیا کہ سب کچھ جمہوری انداز میں ہو رہا ہے۔

سیاسی ورکر ہونے کے ناطے ہم مایوس نہیں اور سمجھتے ہیں کہ حالات ضرور بدلیں گے اور ہم مسلسل جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔

ساری باتیں اپنی جگہ اگر ہم بلوچستان کی عورتوں کی سیاست کی بات نہ کریں تو ظلم ہو گا۔عمومی تاثر یہ ہے کہ بلوچستان  دوسرے صوبوں کی بہ نسبت انتہائی پسماندہ اور بیک ورڈ ہے لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان میں سیاسی شعور کسی علاقے سے کم نہیں۔ یہاں کی عورتیں اپنے حقوق کے بارے میں اچھے سے جانتی ہیں اور پولیٹیکل سٹرگل پر یقین رکھتی ہیں۔ سن 2000 کے بعد سے بلوچ عورت کے شعور نے تیزی سے پروش پائی ہے۔ اس نے پڑھنا اور سائنسی انداز میں سوچنا شروع کیا۔ اپنے محدود وسائل کے اندر رہ کر پولیٹیکل آرگنائزیشنز میں حصہ لیتی رہی اور مردوں کے شانہ بشانہ اس کارواں کو آگے بڑھاتی رہی۔ میں کیوں کہ اپنے سیاسی دورے پر عورتوں سے ملتی رہی، اس لیے اس سفرنامے میں عورتوں کی موجودہ سیاسی صورت حال پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔

بابا جان گاڑی ڈائیو کرتے ہوئے سریاب سے گزرے۔ لوگ کم تعداد میں باہر دکانوں کا رخ کر رہے تھے۔ صبح کے وقت سڑک پر ٹریفک کا رش کم تھا۔ گاہے گاہے کوئی آٹو رکشا یا گاڑی دکھائی دیتی، ورنہ تو شال میں رہنے والے بہ خوبی جانتے ہیں کہ سریاب میں ٹریفک کا رش کتنا ہوتا ہے۔

ہزار گنجی کے پاس بابا جان نے گاڑی گھمائی اور قبرستان کی طرف مڑے۔ یہاں میرے بابا کے درینہ ساتھی اور بچپن کے دوست دفن ہیں۔ ان کا نام ایوب ہے۔ وہ پارٹی کے مخلص ساتھی تھے۔ وال چاکنگ سے لے کر پارٹی کا ہر پروگرام آرگنائز کرنے میں سرگرم رہتے۔ ہم ان کو پیار سے بابا پکارتے تھے اور وہ ہمیں اپنے بچوں جیسا سمجھتے تھے۔ ہائے! زندگی اچھے لوگوں کو کتنی جلدی جدا کر دیتی ہے۔ ہم نے ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور واپس گاڑی میں بیٹھ کر محو سفر ہوئے۔

ہزارگنجی کراس کر کے ہم لک پاس کے وسیع ہائی وے پر مڑ گئے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں بلوچستان کی خوبصورتی کا کوئی مٹ کوئی مثال نہیں۔ کوہ چلتن ہمیں بانہیں پھیلائے سلام کر رہا تھا۔ ہم نے بھی اس خوب صورت پربت کو ایک فلائنگ کس دے کر آگے سفر جاری رکھا۔

میری خواہش تھی کہ کسی دن جب بلوچستان میں خوش حالی لوٹے گی تو میں اکیلی ڈرائیو پر نکل کر بلوچستان گھوموں گی۔ اس کی ہر پہاڑی پر چڑھ کر اس کی فضاؤں کو محسوس کروں گی، خوب صورت بولان کے پہاڑوں کو سلام کروں گی، کوہ سلیمان کے سر سبز پہاڑوں اور وہاں کے رہنے والوں کو دیکھو گی۔ نہ جانے میرا یہ سپنا کب پورا ہو گا۔ ہاں، میں کوہلو کے پہاڑوں سے خوش حالی اور خوب صورت مستقبل کی صدائیں سن رہی ہوں۔

گاڑی جوں ہی لک پاس کے ٹنل سے گزری تو کراچی سے آنے والی کوچز نے ہمیں ایسے کراس کیا جیسے بلٹ ٹرین گز رہی ہو۔ لک پاس سے نکل کر مستونگ کی خوب صورت وادی کی طرف گاڑی چل پڑی۔ میرا آبائی گھر چوں کہ منگوچر میں ہے تو  شال سے جاتے ہوئے یا آتے ہوئے مستونگ راستے میں پڑتا ہے، اس لیے اس علاقے سے اپنائیت بھی ہے اور محبت بھی۔

مستونگ موسم کے حوالے سے سرد اور خشک ہے تاہم پانی کی فراوانی کی وجہ سے یہاں مختلف باغات موجود ہیں۔

چناں چہ میں نے بابا سے فرمائش کی کہ ہم مستونگ میں ہی ناشتہ کریں گے۔

گاڑی پارک کر کے ہم ہوٹل کے اندر چلے گئے۔ بلوچستان کے ہوٹل ملک کے بڑے بڑے ہوٹلوں جیسے ہر گز نہیں۔ یہاں ٹیبل اور کرسیاں نہیں بلکہ چٹائی اور عام دری پر بیٹھ کر کھانے کا انتظام ہوتا ہے اور مجھے بچپن سے ٹیبل اور کرسی پر بیٹھ کر کھانے سے کوفت ہوتی ہے۔

بلوچستان کے ہوٹلوں میں کام کرنے والے اکثر مقامی لوگ ہوتے ہیں۔ چاچا آئے اور ہم نے براہوی میں ان سے پوچھا، “ناشتے میں کیا ہے؟”

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *