Home » شونگال » دمکتا سورج، بہتے دریااورمچلتی ہوا

دمکتا سورج، بہتے دریااورمچلتی ہوا

انرجی یعنی پٹرول زندگی کے ہر شعبے کا لازمی حصہ ہے، خواہ یہ گھریلو زندگی ہو، سروسز کے محکمے ہوں یا بزنس کا شعبہ۔اور اِسی انرجی کے بحران نے پاکستانی معیشت کو ٹُند اور مُنڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے  نے کنزیومرز کا بیخ نکال دیاہے۔ پٹرول اور بجلی کی چار گنا مہنگائی دیگر ساری چیزوں کواُسی نسبت سے مہنگا کر چکی ہے۔

کم بخت کپٹلزم نے انرجی کے دوسرے ذرائع ڈویلپ ہی نہیں کیے۔ یہ منافع خور نظام جنونی انداز میں فوسل انرجی یعنی پٹرول ڈیزل اور نیچرل گیس کے ہی پیچھے پڑا رہا۔بالکل اُسی طرح جس طرح کہ ایک زمانے میں وہ سونے کے حصول کے لیے کرتا تھا۔

دنیا بھر کے انسانوں کے لیے اذیت ناک صورت پیدا ہوچکی ہے۔ انسان عالمی پیمانے پر انرجی، ایندھن، خوراک، کلائمیٹ، ہیلتھ اور پینے کے پانی کے بحران میں مبتلا ہے، اور یہ سارے بحران حیرتناک طور پر باہم  جڑے ہوئے ہیں۔

عرصے سے ہم کلائمیٹ تباہی کی راہ پر رواں ہیں۔ایک طرف قحط ہے تو دوسری طرف اس کا انتہائی مخالف سیلاب ہے اور اُن دونوں کی تباہ کاریاں ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو تقویت دیتی جارہی ہیں۔ قحط سالی کا جنگلات پہ اثر، اور پھر جنگلات کی کٹائی، جنگلات میں آگ لگ جانا انسانی المیے کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ حتی کہ پینے کے پانی کی تشویشناک کمی نے اسی سال بلوچستان میں سینکڑوں جانیں لے لیں۔نتیجہ، خوراک کا بحران، لہذا خوردنی اشیا کی قیمتوں کی فلک بوسی۔۔۔ الحفیظ والا مان!!

حکمران، پسماندہ ذہنوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہم اس قدر تیز سورج  کے مالک ہیں کہ سولر ٹکنالوجی سے پڑوسی ممالک کو بھی بجلی برآمد کرسکتے ہیں۔ہمارے وسیع جغرافیہ میں ہمہ وقت اور تیز،اور بہت،ہوا چلتی ہے۔ اس سے وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔مگر حکمران طبقات اُس طرف تکتے تک نہیں۔ اسی طرح دنیا کے بڑے دریا یہاں بہتے ہیں۔ جن پہ چھوٹے اور بڑے بند باندھ کر بہت بے خرچ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔مگر یہ بنیادی کام نہیں کیا گیا۔

اِن ساری نعمتوں کے باوجود ہم مہنگے داموں، باہر سے منگائے جانے والے تیل اور گیس کے محتاج بنا دیے گئے ہیں۔ حکمران طبقات نے نہ تو سولر انرجی پہ توجہ دی، نہ وِنڈ انرجی پہ غور ہوا اور نہ ہی ہائیڈ روانرجی کے منصوبے بنائے گئے۔ یوں ہماری ترقی بھی رک گئی اور تیل و گیس و کوئلہ کے استعمال نے کلائمیٹ کا بھی ستیا ناس کر رکے رکھ دیا ہے۔

بلوچستان کا سوئی گیس تو مالِ مفت تھا، بے دردی سے اللے تللے کیا گیا۔ اُس کے استعمال میں نہ ضروریات دیکھی گئیں اور نہ ترجیحات کا تعین ہوا۔ سوئی گیس کی ساری افسریاں، جہازوں کے سفر، کاروں کے مزے، ائیرکنڈیشنیں،فائیوسٹار ہوٹلز، بڑے کارپوریٹ ہسپتالوں کی سہولیات، وائسرائے گیریاں بڑے اور نان بلوچ بیوروکریٹ کرتے رہے۔ یہ سب لوگ اردو والے اور پنجابی افسر شاہی کے لوگ تھے۔ عوام، ماحولیات، پلاننگ،  رایلٹی۔۔۔۔ پشتو میں کہتے ہیں: ماں کا دودھ سمجھ کر پی جانا۔

اور اب بالآخر سب کچھ ختم ہوا۔ ہمارا ہی نہیں سب کا۔ سب کا سب کچھ ختم ہوگیا۔ قرضے ہی رہ گئے۔ سود والے قرضے۔ سود درسود والے قرضے۔ ہمارے ہاں ریاستی ڈھانچہ ضرورت سے زیادہ بڑی اور بھاری ہے۔ اور یہ ریاستی ڈھانچہ بڑا شاہ خرچ بھی ہے۔ریاستی شاہی اخراجات کے نتیجے میں ہماری زمینیں، ایئرپورٹ، اورموٹر ویز گروی رکھے گئے۔ عام آدمی کی معاشی گردن باقاعدہ دبوچی جا چکی ہے۔

پٹرول اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں ہر چیز کو متاثر کر رہی ہیں، پیداوار سے لے کر ٹرانسپورٹ تک اور باورچی جانے سے لے کر سٹوریج تک نرخوں میں اضافے ہوئے، پٹرول سونا جیسا ہوگیا، شرح سود چھلانگوں میں ہے اور گیس و بجلی کی قیمتیں آسمانی مخلوق بن گئی ہیں۔ گھر چلانا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔   افراط زر ہوا،قوتِ خرید میں کمی ہوئی، کنزیومر ڈیمانڈ کی کمی ہے۔ اس کا مطلب معیشت پہ ایک متضاد اثر ہے۔ اور وہ ہے اجرتوں میں کمی۔ اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں ساری دنیا  میں ہورہا ہے۔ عالمی کساد بازاری۔۔۔۔ یہ کپٹلزم کا بحران ہے۔

گلوبل ولیج کے کورونا سے متاثرہ ممالک میں وبا کی وجہ سے ہوئی اموات کے فیصد تناسب میں تو فرق رہا مگر،معیشت میں ایسا نہیں ہوا۔سب کے چراغ بجھ گئے۔ اُس وبا نے ساری کپٹلسٹ عالمی معیشت کو زمین پہ پٹخ دیا ہے۔۔۔اور اس عالمی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی پٹرول، گیس، کوئلہ اور بجلی ہیں۔ گذشتہ دو سال سے عالمی بحران نے عالمی معیشت کو نرخرے سے پکڑا ہوا ہے۔

تباہ کاری اور اموات کے لحاظ سے روس یوکرین جنگ،کووِڈوبا کے بعد دوسری بڑی تباہی ہے۔ اور یہ جنگ دنیا کے حریص ترین سیاستدانوں (نیٹوممالک) نے چھیڑی تھی۔ انہوں نے ابھی تازہ تازہ ”مشرف بہ کپٹلزم“ ہونے والے روس کا استقبال اُسے فوجی گھیرے میں لے کر کیا۔ کم بختو، وہ اپنا 70برس کا ترقی یافتہ سوشلزم چھوڑ کر تمہاری صف میں شامل ہوا۔ اور بجائے اُس کی مدد و حوصلہ افزائی کرنے کے، تم لوگوں نے اس کے گرد عملاً سینکڑوں نیٹو اڈے بنا ڈالے۔ اب رہے سہے یوکرین کو بھی نیٹو میں بھرتی کرو گے تو روس تو بالکل لنگڑا لولا رہ جائے گا۔ مگر کپٹلزم کہاں،اور اخلاقیات کہاں؟۔ چنانچہ نئے نئے کپٹلسٹ بنے روس کے سر پر کپٹلزم قبول کرتے ہی اولے پڑے۔۔۔۔اور یوں روس یوکرین طویل جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ کووِڈ کی بڑی عالمی وبا کے فوراً بعد چھڑی۔ہم اپنے اداریوں میں کہتے آئے ہیں کہ عالمی سامراجی جنگوں ہی کی طرح کورونا دنیا کو بدل کے رکھ دے گا۔ اب کورونا وبا کی تباہی یوکرین جنگ کی تباہی سے مل کر دنیا کو جہنم بنائے جارہی ہیں۔

مغربی سیاستدانوں کی اگلی احمقی دیکھیے۔انہوں نے پوری مغربی دنیا کو تیل و گیس سپلائی کرنے والے روس پہ معاشی پابندیاں لگا دیں۔ انرجی بحران تو آنا ہی تھا۔ سپلائی کم ڈیمانڈ زیادہ سے تیل و گیس کی قیمتیں تو چھت تک پہنچنی ہی تھیں۔

ہمارے حکمران طبقات کو اِس بحران سے نکلنے کی لوریاں ہی نصیب نہ ہوئی تھیں۔ سب کے سب الیکٹیبلز ہیں۔ چنانچہ اب سیاسی پارٹیاں، اُن کے منشور، اُن کی مرکزی کمیٹیاں محض خانہ پُریاں ہیں۔ الیکٹیبلز کی صورت بدل گئی ہے۔ ایک زمانے میں الیکٹیبل وہ شخص ہوتا تھا جو سردار، اورفیوڈل، ہونے کی وجہ سے عوام سے ووٹ حاصل کرتا تھا۔خواہ دھونس دھمکی سے ووٹ لیتا،یا  لالچ وخوف سے، اور یا پھر خریدو فروخت سے۔ یعنی عوام الیکٹیبل کوواقعی ووٹ ڈالتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب عوام کے بجائے حکومتی اداروں کا جو منظور ِ نظر ہوگا وہی الیکٹیبل ہوگا۔ یہ الیکٹیبلی عمران خان سے عارضی طور پر پھسل کر بارہ بورژوا پارٹیوں کے ہاتھ آئی ہے۔

یہ سارے لوگ آئی ایم ایف کے معاشی اولاد ہیں۔اُسی کی رسی کو تھامے رہیں گے۔ سر زمین کا آخری ٹکڑا رہن رکھنے تک یہ آئی ایم ایف سے وطن فروشی کرتے رہیں گے۔ اُس کے احکامات میں کاما اور فُل سٹاپ بھی نہیں بدلیں گے۔

ہمارے حکمران اس قدر چالاک ہیں کہ لفظوں کے ہیر پھیر سے اپنا الّو سیدھا کیے رکھتے ہیں۔ بھٹو نے ”سوشلزم“کے بھاری لفظ کو بے توقیر کردیاتھا، ”وطن اور حب الوطنی“کا لفظ مشرف نے رسوا کیا تھا، اور ”حقیقی آزادی“ کا لفظ عمران خان نے خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح یہ نئے لوگ مہنگائی جیسے خونخوار اور ناجائز لفظ کو ”مشکل فیصلے“ قرار دے کر اسے جائز اور پاک لفظ بنانا چاہتے ہیں۔

مگر بورژوا سرکار خواہ سر کے بل کھڑی ہوجائے تو بھی یہ بحران ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہ جتنا زیادہ قرضہ لیتے رہیں گے، ملکی ترقی اتنی ہی منفی ہوتی رہے گی۔ معیشت کے ستر ڈھانپنے والی قمیص اتنی ہی چھوٹی پڑتی جائے گی۔ ایک دو سال کے بعد ہم اُس سے بھی بری حالت میں ہوں گے جس حالت میں ہم آج ہیں۔ اِس بڑی بربادی سے بچنے کے دو ہی اقدامات رہ گئے ہیں:

۔ *             آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرنا۔

۔*             غیر پیداواری اخراجات میں زبردست کٹوتی کرنا۔

مگر کیا ہمارے حکمرانوں میں امریکہ کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت اور ایمان ہے؟۔۔۔نہیں ہے۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *