Home » پوھوزانت » لینن کی شخصیت ۔۔۔ شاہ محمد مری

لینن کی شخصیت ۔۔۔ شاہ محمد مری

لینن اور کروپسکایا کو اکٹھے روس میں جم کے رہنے کے لیے صرف آخری سات سال نصیب ہوئے۔ 1917سے 1924تک۔ باقی ساری عمر وہ جلاوطنیوں میں بھٹکتے، رُلتے رہے۔ اور اُن سات برسوں کے بعد لینن کا انتقال ہوگیا اور کروپسکایا کی زندگی کے بقیہ پندرہ سال بیوگی کے تھے۔

یونیورسٹی کے بعد ملک کے اندر والی یعنی سائبیریا جلاوطنی تو گویا جہنم کی جلاوطنی تھی۔ وہاں جلاوطنی کے تین برس تک وہ دنیا سے کٹے رہے، پارٹی اور اُس کے یونٹوں سے کٹے رہے۔ اپنے خاندانوں عزیزوں سے کٹے رہے۔

سائبیریاجلاوطنی کے مقررہ برس بھگتنے کے بعد وہ مغربی یورپ میں جلاوطن رہے۔لینن1900میں سائبیریا سے چھوٹ کر یورپ جلاوطن ہوا۔ اور 1917تک سوشلزم کے قیام کی جدوجہد میں دربہ در رہا۔ یوں اُس کی بیرون ملک جلاوطنی 17برس پر مشتمل تھی۔(کل جلاوطنی  17، جمع سائبیریا کے 3 20=برس)۔کروپسکایا سائبیریا جلاوطنی سے 1901میں رہا ہوئی اور پھر یورپ جلاوطن ہوئی۔ 1917میں روس واپسی تک وہ 16 سال بیرون ملک جلاوطن رہی۔(کل جلاوطنی 16جمع سائبیریاکے 19=3برس)۔

پوری زندگی جب کسی نے پردیس میں محدود پیسوں کے ساتھ زندگی گزاردی ہو، غریب ترین ہوٹلوں میں پیٹ کا جہنم بھرنے  اور موسموں کی شدت سے بچنے والا لباس نصیب رہا ہو، سستے علاقوں میں سستا ترین کمرہ رہائش گاہ بنا ہو۔تو عجزو انکساری تو عادت بن جاتی ہے۔۔۔ اسی لیے کروپسکایا اور لینن نے اپنی نظریاتی کمٹ منٹ کی وجہ سے بھی، اور اِن مصیبت زدہ ماہ و سال کے سبب بھی کوئی پیٹی بورژوا عادتیں نہیں پالیں۔

جو تھوڑی  بہت ”عیاشی“انہیں نصیب ہوئی تھی، وہ دوزخی سائبیریا جلاوطنی کے ماہ وسال تھے۔سائبیریا دنیا جہاں سے دھتکارا ہوا علاقہ تھا۔وہاں برف کی حتمی بادشاہی تھی۔اس لیے وہاں ایک کوٹھڑی میں بند کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جہنم کی دیواریں نہیں ہوئیں۔صحرا میں پولیس مین نہیں ہوتے۔ ایک غیر آباد برف کے صحرا میں جلا وطنی کے تین تین برس ہر قیدی کو۔ چنانچہ وہاں لینن کبھی کبھی خرگوش کا شکار کرلیتا۔  وہ وہاں جنگلی کھمبیاں ڈھونڈتے۔ کروپسکایا نے سائبیریا جلاوطنی میں لینن کو ”پرجوش کھمبی  تلاش کرنے والا “ کا خطاب دیا تھا(1)۔اس کے علاوہ اِس برف شاہی منطقہ میں کچھ ماہ ایسے ضرور ملتے جب جلاوطن کروپسکایا، اپنی والدہ، اور شوہر لینن کے ساتھ زمین کھودتی اور سبزیوں کا ایک باغیچہ تیار کرتی۔ مولی، گاجر، ساگ، ٹماٹر، کدو اور چقندر کی ”فصل“ تیار ہوتی۔

اس جوڑی کے بارے میں بات کیجیے تو خود بخود اخلاقی پاکیزگی کا تاثر ابھرتاہے:۔اُن میاں بیوی کی بایو گرافیوں میں کوئی ٹوٹی سابقہ شادی کا وجود نہیں تھا، آپس میں بھی کوئی طوفانی محبت کی داستان نہیں تھی۔ ان کے پاس ایک دوسرے سے پہلی نظر میں محبت والا قصہ بھی نہیں تھا، کوئی بے مسرت لوافیئر نہ تھا۔ وہ جذباتی محبت سے بہت دور تھے۔یہ تو ایک نہ مرنے والی لازوال محبت تھی۔

دونوں ایک دوسرے کے بارے میں اپنے جذبات کم لکھتے تھے۔اُن کے بیچ شادی سے قبل بھی، اور شادی کے بعد بھی انقلابی کاز کے لئے کام میں اشتراک ہی سب سے بڑا رشتہ تھا۔ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور بہت باوقار محبت کرتے تھے۔

کروپسکایا توبہت منکسر مزاج اور عاجز طبیعت انسان تھی۔وہ لینن سے ایک برس بڑی تھی۔ لباس میں بہت  محتاط تھی۔ اس کے بال بہت باوقار انداز میں کنگھی شدہ ہوتے۔

لینن کے بارے میں ایک سینئر بالشویک ماریا ابسین نے لکھا تھا کہ ”وہ  ایک ترکِ دنیا والا پارسا نہ تھا۔ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے پیار کرتا تھا۔ ارد گرد، خوراک، اور لباس کی چوائس کا اس کی زندگی میں کوئی رول نہیں تھا۔ یہ دستبرداری والا اور خود کو محروم رکھنے کا معاملہ نہ تھا؛ اُسے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ مجھے لینن کے گھر میں یاد نہیں کہ حتی کہ عام لاپرواہی والی گفتگو میں بھی کبھی کسی لذیذ خوراک کے بارے میں بات ہوئی ہو۔۔وہ لوگ کھانا ضرور کھاتے تھے۔۔۔۔ مگر زندگی کا یہ پہلو کسی کی بھی دلچسپی کا نہ تھا“۔ (2)

روس میں انقلاب کے بعد لینن وہاں ملک کا سربراہ بنا۔ اور کروپسکایا نائب وزیر بنی۔ مارچ 1918میں جب دارالحکومت پیٹرز برگ سے ماسکو منتقل ہوگیا توکروپسکایا اور لینن کا خاندان عارضی طور پر ہوٹل نیشنل میں رہائش کے بعد کریملن شفٹ ہوگیا۔ وہ ایک اپارٹمنٹ تھا جسے لینن کے نام پر الاٹ کیا گیا۔ یہ ان کی پوری زندگی میں واقعتا ایک مستقل گھر بنا۔ چار منکسر کمروں والا”گھر“۔ایک کمرہ لینن کا تھا، ایک لینن کی بہن ماریا کا، اور ایک کروپسکایا کا۔

سربراہِ مملکت کا یہ ”عالیشان محل“ اُس گھر سے بھی چھوٹا تھا جو سائبیریا جلاوطنی کے وقت اُن کے پاس ہوتا تھا۔یہ اپارٹمنٹ تیسری منزل پہ واقع تھا۔اونچی چھتوں کے سبب سمجھو پانچویں منزل پہ۔اور لینن کو اپنی بیوی کے تھا ئراڈ مرض کے مارے دل کے بارے میں پریشانی تھی (4)۔

حکمرانی والی نئی زندگی نوکر چاکروں سے شروع ہی نہ ہوئی تھی۔ گیل نامی ڈرائیور تھا، وہی لینن کا باڈی گارڈ بھی تھااور کامریڈ وسنگت بھی۔

جان ریڈ کی بیوہ لوئیس بریانٹ کے بقول اس میاں بیوی کے پاس پالتو جانورنہ تھے ماسوائے ایک بلی کے (5)۔

کلارا زیٹکن نے انقلابی ملک کے سربراہ کے بارے میں لکھا: ”میں ایک سے زیادہ مزدوروں کے گھر گئی جو کہ ”سب سے طاقتور ماسکوئی ڈکٹیٹر، لینن“ کے گھر سے بہت زیادہ فرنشڈ (Furnished)تھے۔ میں نے لینن کی بیوی اور بہن کو رات کو کھانے پہ دیکھا۔یہ ایک سادہ کھانا تھا، جس طر ح کہ مشکل حالات تقاضا کرتے ہیں: چائے، کالی روٹی، مکھن اور پنیر۔ بعد میں بہن نے مجھ ”گیسٹ آف آنر“ کے لیے کچھ ”سوویٹ ڈش“ ڈھونڈنے کی کوشش کی، اور محفوظ کردہ خوراک کا ایک چھوٹا مرتبان دریافت کرلیا۔ یہ تو عام معلوم بات تھی کہ کسان”اپنے ایلیچ“ کو سفید آٹے، نمکین گوشت، انڈوں،اور پھلوں وغیرہ کے تحفے بھیجتے تھے۔ مگر یہ بھی عام معلوم تھا کہ لینن کے گھر میں اِن میں سے کوئی چیز نہیں رہتی تھی۔ ہر چیز ہسپتالوں اور چلڈرن ہومز کا رخ کرتی تھی۔ لینن کا خاندان محنت کش عوام کی طرح کی زندگی گزارنے کے اصول پر سختی سے کار بند تھا“(6)۔

کلارا لکھتی ہے کہ ”کروپسکایابورژوازی کے تصورکے مطابق ”عظیم روسی سلطنت کی خاتون ِ اول“تھی مگر وہ تو خود کو فراموش کرنے کی خواہش کرنے میں اول تھی، محنت کشوں اور محکوموں کے کاز کے لیے قربانیوں میں اول تھی۔کام اور آئیڈیا ز کے قریب ترین اشتراک نے اُسے لینن سے باندھ دیا تھا۔ کروپسکایا کے بارے میں سوچے بغیر لینن کے بارے میں بات کرنا ناممکن ہے۔ وہ ”لینن کی دستِ راست“تھی، اس کی اولین اور بہترین سیکریٹری، فکر میں اُس کی کامریڈ، اس کے خیالات کی سب سے تجربہ کار تشریح کرنے والی، مضبوطی اور عقلمندی کے ساتھ جی نی اس کے مالک کے لیے دوست، ورکنگ کلاس کے اندر پرو پیگنڈہ جاری رکھنے میں اولین۔ اُس کے علاوہ اُس کے پاس سرگرمی کا اپنا ذاتی دائرہ تھا جس کے لیے اس نے اپنی ساری روح کے ساتھ خود کو وقف کر رکھا تھا: یعنی پاپولرایجوکیشن سسٹم اور انسٹرکشن۔

”یہ فرض کرنا مضحکہ خیز،اور تو ہین آمیز ہے کہ کروپسکایا ”لینن کی ڈپٹی“ کے بطور کریملن میں تھی۔ اس کی گہری مادرانہ فطرت نے لینن کی رہائش گاہ کو لفظ کے نازک ترین معنوں میں ایک ”گھر“ بنادیا۔۔۔یہ گھر  روحانی  فضا سے بھر ا ہوا تھا، اور جو کہ اُن رشتوں کا نتیجہ تھی جو کہ وہاں رہنے اور حرکت کرنے والے انسانوں کو جوڑے رکھتا تھا۔ یہ بات واضح تھی کہ اُن رشتوں میں ہر چیز خلوص، سچائی، اورتفہیم سے متعین تھی۔ گوکہ اُس وقت میں شخصی طور پر سنگت کروپسکایا سے اچھی طرح واقف نہ تھی، اس کی ”سلطنت“ میں اور اس کی دوستانہ خیالداری کے تحت میں نے یکدم خود کو مانوس محسوس کیا۔۔۔۔۔“(7)۔

یہ میاں بیوی اپنا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔لینن ہر روز ورزش کرتا تھا۔ یہ عادت اس نے سائبیریا جلاوطن کیے جانے سے قبل پیٹرسبرگ جیل میں شروع کی تھی۔ وہ لمبی سیر کو چلا جاتا (8)۔

لینن شراب کے معاملے میں کوئی ”بالکل بھی نہ پینے والا“ نہ تو تھا۔ مگر وہ اِس کا کچھ زیادہ شوقین بھی نہ تھا۔  کبھی کبھار بیئر کا ایک گلاس۔ہاں،البتہ وہ چائے خوب پیتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے کئی یاد گار دنوں میں یاد گار چائے پی لی تھی: سینٹ پیٹرسبرگ میں اپنی پہلی گرفتاری پہ، سائبیریا میں اپنی شادی کی تقریب میں،سیلڈ ٹرین میں، فن لینڈ سٹیشن پہ پہنچنے کے فوراً بعد، اور 1918میں گولیوں سے زخمی ہونے پہ۔

سیلڈ ٹرین میں کروپسکایا نے گھاسلیٹ کا ایک سٹوو ساتھ رکھا تا کہ جرمنی میں سے گزرتے ہوئے وہ اپنے محبوب اور سنگت کو چائے کی سپلائی جاری رکھ سکے (9)۔

ان بہت بڑے انسانوں کو خود کو عام انسان بنا کر رکھنے میں بہت زیادہ ریاضت کرنی پڑی ہوگی۔عظیم انسان خود کو عام انسان بناتا ہی تب ہے جب یہ اُس کی عادت، اُس کی فطرت میں شامل ہو جائے۔بے شک ایسا کرنے میں بہت محنت چاہیے ہوتی ہے،بہت بڑی نفس کشی چاہیے ہوتی ہے۔ مگر کتنا سکون ملتا ہوگا خود اپنے بارے میں ایک منکسر رائے رکھنے میں۔ اس سلسلے میں لینن دنیا کا پرسکون ترین آدمی تھا۔

لونا چرسکی نے ایک جگہ لکھا کہ جس وقت لینن پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ تندرست ہورہا تھا تو اُس نے برونچ، اور کچھ دیگر حکام کو بلایا اور انہیں کھردرے انداز میں کہا:”میں  یہ دیکھ کر سخت ناخوش ہوا کہ لوگ میری شخصیت کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے لگے ہیں۔ یہ ناراض کرنے اور نقصان  دینے والی بات ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شخصیت اہمیت نہیں رکھتی۔ مجھے ذاتی طور پر اس طرح کے مظہر کو منع کرنے پر شرم آتی ہے۔۔۔۔ مگر آپ لوگوں کو اس سارے معاملے  پر عاقلانہ طور پربریکیں لگانی چاہئیں“۔

ایک اصول ہے: بڑے لوگوں کو خود ستائش سے سخت نفرت ہوتی ہے۔ جتنا بڑا انسان ہوگا، اتنا ہی نام و ناموس سے دور بھاگتا ہوگا۔مارکسزم کے ساتھ لفظ ”لینن ازم“ لینن اور کروپسکایا کی زندگیوں میں استعمال ہونا شروع ہوا تھا۔لیکن لینن اور کروپسکایا”لینن ازم“ کی اِس اصطلاح کے خلاف اپنی سخت ناپسندید گی ظاہر کرتے تھے۔ اس لیے کہ لینن کے بقول یہ لفظ ”سیاست میں شخصی فیکٹر کی حد سے زیادہ دلالت کرتا ہے“(10)۔

لینن کی آخری بیماری میں بلائے گئے برلن کے ڈاکٹر کلیمپرر نے لکھا: ”میں نے اُسے پہلے اُس کے بیڈروم میں دیکھا۔ وہ ایک وسیع سپاٹ اپارٹمنٹ تھا جس میں صرف لوہے کا ایک پرانا نوکروں والا بیڈ رکھا تھا، ایک سپاٹ ڈیسک، بہت سی لکڑی کی کرسیاں اور ایک میز رکھی تھی جو کتابوں سے بھری ہوتی تھی۔ دیواروں پر کوئی سجاوٹ اور آرائش نہ تھی، نہ ہی کوئی تصویر یا قالین کا ٹکڑا ٹنگا تھا۔۔ جب میں نے دوبارہ اُسے اُسی سال جون 1922میں دیکھا تو وہ ماسکو کے سابقہ میئر کے عظیم الشان دیہی محل میں تھا۔ جہاں امید تھی کہ وہ آرام اور تفریح کرسکے گا۔ مگر وہ اُس عمدہ گھر کے اندر نہیں رہتا تھا بلکہ اُس کے برعکس قریب ہی ایک چھوٹے گھر کے ایک غریب کمرے میں رہتا تھا جسے ماضی میں نوکر استعمال کیاکرتے تھے۔ مجھے اُ سے سخت دلائل دینے پڑے تب کہیں جاکر وہ اُس بڑے گھر میں  جانے کے لیے تیار ہو گیا“۔ (11)۔

کروپسکایا اور لینن لگژری والی زندگی سے بے پرواہ تھے۔ جو نہی وقت گزرتا گیا وہ پارٹی کی جانب سے تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے لگے۔ وہ تنخواہ کبھی کبھار تو ان کے گزارے کے لیے بھی ناکافی ہوتی۔

اپنی انہی اچھی خصلتوں کے سبب لینن عام لوگوں میں کوئی بہت زیادہ شناسا چہرہ نہ تھا۔ ایک بار نوجوان کمیونسٹوں کی ایک گشت پارٹی نے جولائی 1918میں اُسے گرفتار کرلیا۔ جب اس نے اپنا شناختی کارڈ دکھایا جس پہ اس کانام لکھا تھا، اور ساتھ ”چیرمین کونسل آف پیپلز کمیسارز ”لکھا تھا، تو گشت والی پارٹی نے یقین نہیں کیا۔ وہ لوگ اُسے پولیس سٹیشن لے گئے۔ وہاں لینن کو پہچان  لیا گیا اور رہا کیا گیا (12)۔

کروپسکایا کے مطابق ملک کے اندر اس سربراہِ مملکت لینن کو جنوری 1919تک کسی حد تک زیادہ پہچانا جانے لگا۔6،7 جنوری 1918کو وہ کروپسکایا کے ساتھ روسی کرسمس منانے جارہا تھا۔ اس کی تو عادت تھی کہ وہ گاڑیوں کا کاروان ساتھ نہیں رکھتا تھا۔روڈ پہ موجود اُس کی تنہا کار کو ڈاکوؤں نے روک دیا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ کار میں کون ہے تو وہ ذرا سے حیران ہوئے۔ مگر وہ پھر بھی گاڑی اور سامان چھین کر لے گئے۔یہ احسان البتہ اُن ڈاکوؤں نے یہ کیا کہ انہوں نے لینن، اس کی بہن ماریا، ڈرائیور اور باڈی گارڈ کو زندہ چھوڑ دیا (13)۔

دنیا بھر میں انقلابیوں کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ ”میں میں“ کبھی نہیں ممیاتے۔لینن اور کروپسکایا بھی اپنے بارے میں بہت کم بولتے تھے،بہت کم سنتے تھے اور بہت کم لکھتے تھے۔ وہ دونوں عام انسانوں کے بیچ عوام انسان بن کر رہتے تھے۔ گورکی نے ٹھیک کہا تھا کہ: ”وہ کسی بھی طرح زیادہ ہی،عام آدمی تھا۔ ایک لیڈر ہونے کا تاثر نہیں دیتا تھا“(14)۔

وہ دونوں،بہت بے نفس لوگ اپنا نام پرنٹ میں چھپنے نہ چھپنے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ انہیں عقیدت کی حد تک احترام دیں۔

جیسے کہ دنیا کا دستور ہے، وہاں سوویت اخبارات میں بھی لینن کی تعریفیں ہوتی تھیں۔ یہ ”تسلسل سے انبار بنتی جاتیں ناگوار تعریفیں“اُسے پریشان کرتی جاتیں۔ اُس نے بونچ بروئے وچ کو کچھ سر خیاں دکھاتے ہوئے پوچھا: ”یہ کس لیے ہے؟۔ مجھے اخبارات پڑھتے ہوئے تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ جہاں بھی دیکھو وہ میرے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں ایسا ہوں، میں ویسا ہوں۔ وہ ہر چیز میں مبالغہ کرتے ہیں۔ وہ مجھے ایک جی نی یئس کہتے ہیں۔ ایک طرح کا غیر معمولی آدمی۔۔۔۔ ہم اپنی ساری زندگیاں اپنی ذات کی وقعت بڑھانے کے خلاف لڑتے رہے ہیں، ایک فردِ واحد کو ارفع بنانے کے خلاف۔۔۔ اور یہاں بار بار ایسا ہورہا ہے: ایک شخصیت کی تعریف و توصیف۔یہ بالکل اچھا نہیں ہے۔ میں دوسروں کی طرح کا ہوں۔۔میں مکمل طور پر ایک فرد پر زور دینے والے اِس غیر مارکسی رویے کو سخت نقصان دِہ سمجھتا ہوں۔ یہ برا ہے،مکمل طور پر ناقابل ِ قبول اور غیر ضروری ہے۔ اور میری یہ تصویریں؟ ہر جگہ پر!۔ اس سب کا مقصد کیا ہے“؟۔۔۔ یہ سب فالتو اور نقصان دہ ہے، اور ہمارے نظریہ کے خلاف ہے اور فرد کے رول کے بارے میں ہمارے نقطہِ نظر کے خلاف ہے“۔(15)۔

آئیے،لینن کی حکمرانی میں حکومت کے ایک عہدے دار بونچ بروئے وچ کے نام روس کے سربراہِ مملکت لینن کا ایک نوٹ پڑھتے ہیں:

”جناب بونچ بروئی وچ،بزنس منیجر،کونسل آف پیپلز کمیسارز۔

”میرے اِس مسلسل مطالبے کی عدم تعمیل پہ، کہ یکم مارچ1918 سے میری تنخواہ500سے800 روبل ماہوار کس بنیاد پر بڑھائی گئی، اور اس بات پہ کہ سیکرٹری آف کونسل گوربونوف کے ساتھ مل کر آپ نے  من مانے طور پر جو یہ غیر قانونی اضافہ کیا، وہ23 نومبر1917  کو عوامی کمیساروں کی کونسل کے جاری کردہ فرمان کی صریحاً خلاف ورزی ہے، میں آپ کو سختی سے وارننگ دیتا ہوں۔

چیئرمین،عوامی کمیساروں کی کونسل“۔

(تاریخ میں یہ شاید انوکھا ترین واقعہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو اپنی تنخواہ بڑھانے پر وارننگ لیٹر جاری کررہاہو)۔

ٹراٹسکی نے لینن پہ لکھی اپنی کتاب کے صفحہ340پر لکھا:

”میں ایک دلچسپ واقعہ یاد کیے بنا نہیں رہ سکتا۔لینن اور ہم لوگوں نے ایک ”اصول“ متعارف کیا کہ جو بھی کسی اجلاس میں دس منٹ سے زیادہ دیر سے آئے،اُسے جرمانہ دینا ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک میٹنگ سے نکلتے ہی ہمیں کریملن کے دُور کے دوسرے سرے پہ ایک دوسری میٹنگ پہ جانا تھا جس کے لیے ہمیں ایک بہت طویل میدان کو عبور کرنا تھا۔ لینن نے ذرا دیر کے لیے گھر ہو آنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اُسے فون کیا: ولادیمیر ایلیچ، تم جرمانہ ہونے کا رسک لے رہے ہو۔ میٹنگ سٹارٹ ہونے میں تمہارے پاس محض دو سے تین منٹ ہیں“۔

”ٹھیک ہے“ اس نے دبی دبی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ جس کا راز مجھے بعد میں سمجھ آگیا۔ میں سیڑھیاں اترا اور اُس میدان پہنچ کر میں پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا  رہا کہ لینن کہیں نظر آرہا ہے؟۔ اچانک، بہت دور دوسرے سرے پر، میرے سامنے تقریباً ایک سو قدم پہ، ایک جانے پہچانے وضع قطع کا شخص شوں کر کے گزر گیا اور کیولری بلڈنگ کے کونے کے گرد گم ہوگیا۔ کیا یہ لینن تھا؟ ناممکن۔ وہ ہو ہی نہیں سکتا۔

”دو منٹ بعد میں کانفرنس روم پہنچ گیا۔پتہ ہے میں نے کس کو دیکھا تھا؟۔لینن کو۔ ابھی تک اس کا سانس ذرا ساپھولا ہوا تھا۔ وہ خوشی سے مجھ سے یہ کہتا ہوا ملا”ہیلو، یہ تم ہو جو ایک منٹ لیٹ ہو!“ اور اس نے فاتحانہ قہقہہ لگایا۔

”مجھے تسلیم کرنا ہوگا“ میں نے دوسرے کامریڈز سے وضاحت کی ”مجھے توقع نہ تھی۔۔۔ سچ۔ مجھے لگا تھا کہ کیولری بلڈنگ کی طرف لینن سے ملتا جلتا کوئی لپک کراڑتا گیا، مگر میں یہ تصور تک نہ کرسکا کہ ملک کا سربراہ سب لوگوں کے سامنے کریملن کے میدان کے آرپار طوفان کی طرح دوڑلگائے  گا“۔

1919 کی ابتداء میں ایک کسان ایوانوف، لینن سے ملنے آیا۔ گھر واپس ہو کر اُس نے مقامی سوویت کی انتظامیہ کمیٹی میں اپنی رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ لینن کے کمرے کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے اور وہ ٹھنڈے کمرے میں کام کرتا ہے۔ چنانچہ ولا دیمیر صوبے سودو گودسکی ضلع کی ملینووا تحصیل کی انتظامیہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا  کہ ”کامریڈ لینن کو انتظامیہ کمیٹی کے خرچ سے ایک ویگن لکڑی بھیجی جائے اور اگر ضرورت ہو تو اُن کا لوہار خود جا کر لوہے کا ایک آتش دان لگا دے“۔

اسی طرح  انٹرنیشنل کمیونسٹ  پارٹیوں کی ایک میٹنگ میں اٹلی کے وفد میں ایک موچی اور ایک حجام شامل تھے۔ بارہ دن کے لمبے سفر میں موچی اپنے چھوٹے سے ٹرنک کی بڑی حفاظت کرتا رہا جس میں اس نے اپنے ہاتھ سے بنائے دو جوڑے جوتے رکھے تھے۔ ایک جوڑا مردانہ، ایک زنانہ۔ وہ مردانہ جوڑا  لینن کو پیش کرنا چاہتا تھا اور زنانہ جوڑا کروپسکایا کو۔ حجام کاارادہ تھا کہ  وہ لینن کو اس کی داڑھی کے سٹائل کے بارے میں ماہرانہ مشورے دے گا۔

ٍ             لینن ایک عام انسان کی طرح خوشی اور غم سے متاثر ہوتا تھا۔ اس کی کامریڈ اور دوست اِنیسا آرمند 24ستمبر1920میں ہیضہ سے فوت ہوگئی تھی۔ اینجلیکا بلابانوف 12اکتوبر کو اِنیسا کی ماسکو میں تدفین کے موقع پر لینن کو یوں بیان کرتی ہے: ”صرف چہرہ نہیں اس کا پورا بدن غم میں اس قدر غرق تھا کہ مجھے سے معمولی اشارے سے بھی سلام کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ واضح تھا کہ وہ اپنے غم کے ساتھ تنہا رہنا چاہتا تھا۔۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبتی لگتی تھیں جنہیں وہ کوشش سے روکے ہوئے تھا۔“۔۔۔

لینن کے ڈرائیور نے ایک بار لینن کی ایک کسان کے ساتھ ملاقات کا قصہ سنایا جو کہ ماسکو کے گردونواح میں کھمبیاں ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ دونوں جلد ہی دوستوں کی طرح باتیں کرنے لگے۔ اٹھتے وقت کسان کی یہ بات ڈرائیور نے سنی:”لوگ کہتے ہیں کہ آج کل لینن نامی شخص روس کا حاکم ہے۔ اگر وہ لینن تمہاری طرح کا ہوتا تو معاملات واقعی ٹھیک ہوجاتے“۔

بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے کہ یہ فطری لوگ،جینوئن لوگ کبھی بھی نہ خود اپنی ستائش میں مبتلا ہوئے اور نہ دوسروں کو اس کی اجازت دی۔ ان بڑے انسانوں نے کبھی اپنی خصوصی خدمات پر زور نہ دیا۔بلکہ اس کے برعکس لینن انقلاب جتنی بڑی کامیابی پہ رینک اینڈ فائل کے اندر تکبر اور غرور کو یوں کچلتا رہا:

”کمیونسٹوں کی  ایک سب سے بڑی اور انتہائی خطرناک غلطی یہ  خیال ہے کہ انقلاب صرف انقلابی ہی کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس کامیاب ہونے کے لیے سنجیدہ انقلابی کام تقاضہ کرتا ہے کہ انقلابی لوگ سچے،توانا اور ترقی یافتہ طبقے کے صرف ہر اول کا رول ادا کریں۔ اس خیال کو سمجھنا چاہیے اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ہر اول صرف اس وقت ہی ہر اول کے فرائض پورے کرتا ہے جب وہ عوام الناس سے علحدہ نہ ہو بلکہ تمام عوام الناس کو آگے بڑھانے میں واقعی رہنمائی کرے“۔(16)

لینن یورپ کے ایک بہت بڑے ملک کا حکمران تھا۔ اُس کا ایشیائی رسم و رواج سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہاں کی بورژوا اخلاقیات ہمارے ہاں کی فیوڈل اخلاقیات سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ مگر یہ دلچسپ ہے کہ جونہی ملاقاتی کمرے میں داخل ہوتے تو لینن سب کے لئے ’اپنی میز کے پیچھے سے پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوتا اور اُن سے ملنے آگے آتا۔ اس کا چہرہ مخلص مسرت سے دمک اٹھتا۔

لینن کے انتقال کے موقع پر پیٹرو گراڈ کے مزدوروں کی درخواست پر کانگریس نے پیٹرو گراڈ شہر کا نام بدل کر لینن گراڈرکھنے کا فیصلہ کیا۔ایک دوسرا عجب اقدام یہ بھی ہوا کہ لینن کی میت کو دفن نہیں کیا گیا بلکہ ریڈ سکوائر پر ایک خاص طور سے بنے ہوئے مقبرے میں اس کے جسم کو محفوظ کر دیا گیا۔

اور یہیں پر اِس سب کے خلاف چیخنے والی چیخ اٹھی۔ سوشلزم چیخ اٹھا۔ لینن کی روح چیخ اٹھی۔ چنانچہ جب کروپسکایا کو اس بات کا پتہ چلا کہ لینن کو دفن کرنے کے  بجائے نمائش کے لیے رکھا جائے گا تو اگلے دن ”پراودا“ اخبار میں وہ کھنک اٹھی:“ میں آپ سب مزدوروں انسانوں سے عظیم درخواست کرتی ہوں کہ لینن کے لیے اپنے غم کو اُس کی ذات کے لیے بیرونی احترام کی صورت اختیار کرنے نہ دیں۔ اس کے لیے یادگاریں کھڑی نہ کریں، اس کا نام محلات پہ نہ رکھیں، اس کی یادمیں جاہ وجلال بھری تقریبات نہ رکھیں۔۔۔ ان سب چیزوں کو وہ اپنی زندگی میں معمولی اہمیت بھی نہیں دیتا تھا، ایسی ساری چیزیں اُسے تکلیف دیتی تھیں“(17)۔

صرف کروپسکایا ہی ایسی نہ تھی۔ دنیا بھر میں کمیونسٹ ایسے ہوتے ہیں۔میں ابھی تک کیوبا کے کمیونسٹ فیڈل کاسٹرو کی اِس بات کو تحسین سے دیکھتا تھا کہ اُس نے اپنے ملک میں ”زندہ“ لیڈروں کی تصویر لگانے، اُن کے نام پہ مقامات کے نام رکھنے پر پابندی لگادی تھی۔۔۔ اور میں اسے زبردست سمجھتا رہا تھا، اس لیے کہ وہ خود زندہ تھا۔ اور اس نے اپنی زندگی میں اپنی تعریف کرنے پہ پابندی لگا دی تھی۔ مگر یہاں تو کروپسکایا مرنے کے بعد بھی لینن جیسے انسان کے ساتھ یہ سب کچھ کرنے نہیں دے رہی تھی۔

یہ الگ بات ہے کہ اپنی اِس جنگ میں کروپسکایا ہار گئی، لینن ہار گیا، لینن ازم ہار گیا۔ لینن کی میت کو دفن نہیں کیا گیا بلکہ شیشے میں لٹا کر رکھا گیا۔ اور پوری دنیا سے لاکھوں کروڑوں لوگ سوبرس سے اسے دیکھنے جاتے ہیں۔ اور آج تک دیکھنے والوں کی قطار کبھی بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

اسی طرح کروپسکایا کے احتجاج کے باوجود شہر کا نام بھی لینن گراڈ ہی رکھا گیا۔

مگر بھلا عاجزی بھی کبھی ہاری؟، انکسار کو بھی کبھی شکست ہوئی؟۔ لینن کے لیے وقف محبوبہ نے اپنے ساتھی کے کارناموں کی تعریفوں میں تو جلدوں کی جلدیں لکھ دیں مگر اُس نے ایک بار بھی اِس ”مقبرے“اور اس کے اندر کا ذکر نہ کیا۔ وہ کبھی بھی پارٹی تقریبات کے دوران وہاں نہ گئی۔ اور اسی سپرٹ کے ساتھ اُس نے کبھی بھی پیٹرسبرگ کو ”لینن گراڈ“ نہ کہا (18)۔

وہ خواہ جیل میں ہوتے، جلا وطنی میں،یا اقتدار میں،کبھی بھی اپنی حیثیت اور پوزیشن کے بارے میں بات نہیں کرتے تھے۔ نہ مصیبت میں مایوسی اور نہ اقتدار میں غرور!۔ ایک انقلاب مخالف عورت، ویلنٹینا پر شیکووا لینن کے ایک نسبتاً نادر پورٹریٹ کو بگاڑ دینے کے جرم میں  جیل میں تھی۔ لینن نے یہ کہہ کر اس کی رہائی کا حکم دیا:”کسی کو ایک تصویر بگاڑ دینے پر گرفتار نہ کیا جائے“(19)۔

31جولائی 1920کو ایک موقع پر لینن نے گورکی جیسے بڑے ادیب کو کو پولٹ بیورو کی بھری میٹنگ میں اس لیے  ڈانٹ دیا کہ وہ لینن کی تعریف میں زیادہ ہی پر جوش ہورہا تھا۔(20)۔

یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ کروپسکایا اور لینن نے اپنی کوئی آٹو بایوگرافی نہیں لکھی۔وہ شخصی دکھاوے کے لیے  پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ کمال بات ہے کہ دنیا کے اب تک کے سب سے بڑے فلاسفر کارل مارکس نے اپنی سوانح عمری نہیں لکھی۔ اینگلز نے نہیں لکھی۔ ہوچی منہ، نور محمد ترہ کی،ہرکشن سنگھ سرجیت، سی آر اسلم۔۔۔۔کسی نے اپنی سوانح عمری، سرگزشت اور اپنی یادداشت“ نہ دیکھی کیوں کہ آٹو بایوگرافی کا ہیرو تو خود لکھنے والا ہی ہوتا ہے۔ لہذا آٹو بائیوگرافی پرسنیلٹی کلٹ اور ہیرو پرستی کی بنیاد ہے۔

لینن اور کروپسکایا اپنی شان میں پارٹیاں انجوائے نہیں کرتے تھے۔ اپنی پچاسویں سالگرہ پر لینن نے مبارکباد کے کئی خطوط وصول کیے اور اگلے دن 23اپریل 1920کو ایک تقریب میں اس نے سالگرہ مبارکبادی تقریرسے بچانے پر منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے اپنی شان میں ایک میوزیم کھولنے کی تجویز سے انکار کیا اور اپنے ایک ہمکار ایس او لمنسکی سے رازداری میں کہا:”تمہیں اندازہ نہیں کہ میں مسلسل اپنی شخصیت ابھارنے کو دیکھ کر کس قدر ناخوشگوار محسوس کرتا ہوں“(21)۔

لینن نے اپنی تصانیف کو جمع کرنے اور دوبارہ شائع کرنے کی کامینیف کی تجویز کو ”مکمل طور پر حد سے زیادہ“ کہا۔اور صرف اُس وقت اپنا ذہن تبدیل کیا جب اس سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ پھر یہ چاہے گا کہ نوجوان اُس کے بجائے منشویک مصنفین کوپڑھیں؟۔

انسان کی ایک اور معصومیت دیکھیے، اور لیڈر کاریسپانس بھی!۔کلینتسی کی استودول کپڑا مل کے مزدوروں نے لینن کو پیغامِ خیر سگالی اور سوٹ کا کپڑا بھیجا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ انہوں نے اپنی مل کا نام لینن رکھا ہے اور اس سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کپڑے کا سوٹ پہنے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔

اور اصلی لیڈر پھر یہ جواب دیتا ہے:”پیارے رفیقو! آپ کے پیغامِ خیر سگالی اور تحفے کے لیے دلی شکریہ۔ میں آپ سے ایک راز کی بات کہوں کہ مجھے تحفہ بھیجنا مناسب نہیں لگتا۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ یہ راز بڑے پیمانے پر سارے مزدوروں سے کہیے۔ انتہائی دلی شکریہ۔ سلام اور نیک تمنائیں۔ آپ کا اولیانوف (لینن)“۔

”لیننسکی ہلز“ماسکو سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت محل ہے۔ یہ محل ایک پہاڑی پہ بنا ہواہے ۔ یہ انقلاب سے پہلے ایک جاگیردار کا محل ہوا کرتا تھا۔انقلاب کے بعد وہ سرکاری تحویل میں آگیا۔ اور وہ اس لیے مشہور جگہ تھی کہ ڈاکٹر لینن کو اس کی بیماری کے دنوں میں وہاں رکھتے تھے ۔ وہاں کی گائیڈ نے مجھے ایک بھدی،اورکم قیمت جست کی معمولی پلیٹ دکھائی۔ اورکہا کہ لینن ہمیشہ اسی پلیٹ میں کھانا کھاتا تھا۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ لینن تو دکھاوا نہیں کرتا تھا۔ تو اتنے بڑے ملک کا سربراہ،بھلا اس فضول پلیٹ میں کیوں کھاتا ہوگا؟۔ جواب ملا کہ ”یہ اس کی راہبری میں لائے ہوئے مزدور انقلاب کے بعد قائم ہونے والے پہلے کارخانے میں بنی ہوئی سب سے پہلی پلیٹ تھی۔ اسی لئے لینن اُسے عزیزرکھتا تھا……“۔

ایسا تھا روسی انقلاب اور انقلابی لیڈر شپ۔ یہ انقلاب دنیا بھر میں ہر شعبہ کے اندر ایک امتیازی مثال تھا۔ مثلاً اِس میں ”خاتون اِول“ نام کا کوئی عہدہ نہ تھا۔ کروپسکایا،یوں تو سربراہِ مملکت کی بیوی تھی۔ مگر وہ استقبالیہ قطاروں میں مہما نوں سے ہاتھ ملانے  کبھی کھڑی نہ ہوئی۔ وہ عوامی، انقلابی تقریبات میں لینن کی بیوی کے بجائے انقلابی کروپسکایا کے بطور جاتی تھی۔

 

ریفرنسز

۔کارٹر،  ایل وُڈ۔ دی نان جیومیٹرک لینن۔2011۔ اینتھم پریس، لندن۔ صفحہ131۔

کارٹر،ایل وڈ۔ دی نان جیومیٹرک لینن۔ صفحہ133۔

مِک نیل۔ برائیڈ آف دی ریولیوشن۔صفحہ184

۔ ۔ ایضاً۔صفحہ185

۔ ۔ ایضاً۔صفحہ186

۔کلارا زیٹکن ۔Reminiscences of lenin۔انٹرنیشنل پبلشرز، نیویارک۔1934۔ صفحہ10۔

۔کلارا زیٹکن  Reminiscences of lenin۔انٹرنیشنل پبلشرز۔نیویارک۔1934 صفحہ11۔

۔ پیٹرسن، میخائل۔ دَہ سیلڈ ٹرین۔ 1975۔ Putnam، نیویارک۔ صفحہ20۔

۔  کار ٹر، ایل وڈ۔ دی نان جیومیٹرک لینن۔ صفحہ134۔

۔لینن: اے پولٹیکل لائف جلد3۔ صفحہ185

۔ولسن۔ ٹو دِی فن لینڈ سٹیشن۔ صفحہ450

۔کروپسکایا۔ memoirs۔صفحہ533

۔کروپسکایا۔ memoirs۔صفحہ533

۔گورکی۔ ڈیز ودِھ لینن۔ صفحہ5

۔ ڈیوڈ شَپ۔لینن، اے بایوگرافی۔ 1966پنگوئن۔ صفحہ416

۔ لینن۔ اشتراکی نظریات اور ثقافت۔ 1978دار الاشاعت ترقی، ماسکو۔صفحہ 196

۔،لینن۔ لائف اینڈ لی گے سی۔ صفحہ 440

۔مِک نیل۔ برائیڈ آف دی ریولیوشن۔ صفحہ184

۔ریولیوشنری وار۔ صفحہ260

۔weber۔صفحہ172

۔Weber۔ صفحہ  169

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *