Home » شونگال » اوپری طبقات پھر لڑے پڑے

اوپری طبقات پھر لڑے پڑے

پاکستان ایک طبقاتی سماج والا ملک ہے۔ یہاں جاگیردار (بمع اپنے فکری و طبعی باڈی گارڈ ز کے)اور فیوڈل سرمایہ دار، حاکم طبقہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ جبکہ کسان، چرواہے، ماہی گیر اور صنعتی و معدنی مزدور نچلا محکوم طبقہ ہیں۔
حاکم طبقہ ریاست پر قابض ہے اس لےے عدلیہ، فوج، مقننہ، پولیس، پریس ،سب اُس کے ساتھ ہیں۔
نچلا طبقہ غیر منظم اور بے شعور ہے، اور تمام سیاسی پارٹیاں اِس نچلے طبقے کی دشمن ہیں۔
اور یہاں کا حکمران طبقہ ایک بارپھرآپس میں لڑپڑا ہے۔اصل لڑائی اِس طبقے کے پنجاب والے حصے میں ابھری تھی ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ دائیں بازو کی اس لڑائی میں طرفین پنجاب میں بھی لاہورسے تعلق رکھتے ہیں۔ یابلکہ مزید درست بات یہ ہوگی کہ لاہور کے ایک محلہ ” ماڈل ٹاﺅن “ کا رائٹ رائٹ سے الجھ پڑا۔
رائٹسٹ عمران اور قادری نے ،رائٹسٹ نواز شریف کی حاکمی کو اُلٹانے کا فیصلہ کیا۔ بہانہ کے لےے وہی سطحی سی باتیں……..الیکشن، دھاندلی ۔ اور چنانچہ ، اقتدار کے لےے کورٹ ، کمیشن، جلسہ جلوس اور بالآخر ”دھرنا“ ۔ نوجوانوں کا رقص، ترانے، گانے ، مطالبے، نعرے……..اسلام آبا د اُس جدوجہد کا مرکز بنا جو پہلے کبھی کراچی میں ،یا پھرکبھی موچی گیٹ لاہور کا مقدر ہوا کرتا تھا۔بلوچستان تو خیر مستقل طور پر تحریکوں کا گڑھ رہا ( گو کہ بلوچستان ذرا زیادہ گہرا ، زیادہ جامع اور زیادہ سنجیدہ تحریکیں چلاتا رہا ہے)۔
مگر ظاہر ہے کہ لاہوری رائٹسٹوں کی اِس مدبھیڑ میں ،بوجوہ کسی کو غدار اور علیحدگی پسند نہ کہا گیا، کسی کی لاش مسخ شدہ نہ بنی اور کسی لیڈر کو تراتانی کے پہاڑ بھی نہیں کھا گئے۔ نہ زبان کے اختلافات کی بات ہوئی نہ صوبائی خوداختیاری کے معاملات چھڑے۔ بس ” بادشاہی تم نہ کرو گے، میں کروں گا“ کا معاملہ تھا۔مگر اقتدار اِس قدر نا روا چیز ہے کہ اُس کے لےے ایک ہی طبقہ سے متعلق حریفوں نے باقاعدہ جنگی مورچے سنبھال لےے ۔ظاہر ہے اوپری طبقے کی اِس لڑائی کے میر چاکر کے پیچھے کہیں کے ارغون کھڑے ہیں اور گوئہرام کو کسی جام نندہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ غیر بنیادی اور غیر متصادم تضادات پہ بھی کُشتوں کے پشتے لگادینا اوپری طبقات کا من بھاتا شغل ہوتا ہے، ازل سے۔چنانچہ لاہور اور اسلام آباد میں دودرجن سے زائد انسان قتل ہوئے، آنسو گیس اور لاٹھیاں گولیاں برسیں۔ رجعتی اور فیوڈل لوگوں کی آپسی لڑائی میں اسلام آباد اور لاہور شہروں میں دو درجن سے زائد انسان قتل ہوئے۔ بلوچستان ، خیبر پختونخوا ہ، سندھ اور پنجاب کے جاگیردار،ملاّ، پیر، سردار اور خان اپنے ریاستی مشینری کے ساتھ نواز زرداری کے ساتھ ہوگئے۔اور اپنے ہی طبقے کے ہیلی کاپٹر مالکوں، مخدوموں، پیروں، اورعلاماﺅںکے پیروکاروں کو بھون ڈالا۔
اس لڑائی میں عمران اور قادری اربن مڈل کلاس کے مطالبات ہی کو شامل کرتے رہے ہیں ، یا پھر مجبوری اور حکمتِ عملی کے تحت دیہات میں کسان اور بجلی، کسان اور کھاد اور کسان اور منڈی کی لفاظی والے مطالبات ڈالتے رہے ۔ مگر اُن کی تحریک کا اصل مغز یہ تھا کہ جاگیرداری نظام کو کچھ نہیں کہنا ، مخدومیت اور شوگرملوں کو تحفظ رہے،سرمایہ داری نظام کو کچھ نہیں کہنا ، سامراجیت برقرار رکھنی ہے، طبقاتی سوال نہیں چھیڑنا ، قومی سوال چھپا دینی ہے، بنیاد پرستی پہ خاموش رہنا ہے، پڑوسیوںکے خلاف سازشی کھسر پھسر برقرار رکھنا ہے، غیر ترقیاتی فضول خرچیاں جاری رہنی ہیں، سائنسی تعلیم نایاب رکھنی ہے ،اور قدامت پرستی جاری رکھنی ہے ……..
ہمیں نوازو زرداری بمقابل قادری و عمران کے جھگڑے پر کبھی بھی حیرانی نہ ہوئی۔ہم نے پہلے بھی اس ملک میں حکمران طبقات کی آپسی لڑائیاں دیکھی ہیں۔ حتیٰ کہ انہی کی باہمی لڑائی میں ملک کو دو ٹکڑے ہونے تک کوبھی دیکھاہے۔ جب نچلا طبقہ مضبوط نہ ہو، منظم نہ ہو، یا ، کچھ کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو پھر حاکم طبقات آپس میں ہی لڑ پڑتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔
ہم تو اُس وقت بہت محظوظ ہوئے جب ہم نے بقیہ پنجاب اور بیرون پنجاب کے سارے لوگوںکو پنجاب کے رائٹ کے اِس باہمی مناقشے میںنوازشریف کے حق میں کودتے دیکھا ۔بلااشتعال، بلا مقصد ( اور شاید بلا معاوضہ بھی؟)۔ دوسروں کی لڑائی میں اپنا کچھ بھی نہ ڈال کر محض جمہوریت کی سرفرازی کرنے، سکیورٹی ریاستی اداروں کی حرمت کی بحالی کے لےے، اورتدریجی ارتقائی بھول بھلیوں میں جمے رہنے کے لےے ،محمود و ایاز کا ایک صف میں کھڑا ہونا سب سے دلچسپ بات تھی۔

بالخصوص اُس وقت تو ہماری حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب نواز زرداری ٹولے کو بچانے ٹی وی پہ ایسے ایسے لوگ ” انقلاب لانے کا صحیح طریقہ“ بتانے آئے جن کے ابا، دادا انقلابیوں کو ذبح کرتے کرتے مر گئے ۔ …….. اور وہ لوگ بھی ،جو انقلاب کے پتھر کو بھاری دیکھ کر، اُسے چوم کر، اُس سے اتنی دور چلے گئے تھے جتنی دُور شہ مریذ، ہانی سے چلا گیا تھا۔وہ انقلاب دشمن ،”اصلی “انقلاب کے لےے فرانس، روس، چین حتیٰ کہ ایران کے انقلاب کی مثالیں لاتے رہے۔ …….. ہر طریقے سے عمران قادری ٹولہ کے نقلی انقلاب کونقلی انقلاب ثابت کرتے رہے۔
عمران قادری ٹولہ اپنے ” اغراض “ کی وجہ سے محنت کشوں اور نچلے طبقات کی باتیں کررہا تھا ( اور عوام اُس کی بات بھی سن رہے تھے)، اور باقی سب لوگ انقلاب کرنے کا اصلی طریقہ بتاتے ہوئے ”اپنے اصلی“ انقلابی فریضہ کی ادائیگی کے لےے دوبارہ نیند کی آغوش میںچلے گئے۔ بس ریاست کی سلامتی اور جمہوریت بچانے کا بخار118 درجے کا تھا۔انسانی حقوق والے، بار کونسلوں والے، صحافتی تنظیموں والے، این جی او والے …….. سب کے سب۔ اب نہ کسی کے بیانات میںنظریاتی سرحدوں کا معاملہ موجودتھا ،نہ جغرافیائی سرحدوں کا۔ اب کے روس چین کے ایجنٹ والی بات بھی نہ تھی ۔ را اور خاد کی تنخواہ داری کا معاملہ بھی کسی نے نہ اٹھایا۔ بس اچانک ایک کرامت ہوگئی کہ کل کے سرخپوش و سرخ بیرک والے،روسی خادی اور رائی ایجنٹ ، غدار، علیحدگی پسند اور ملحدلوگ پارلیمنٹ ، جمہوریت، اورریاست بچانے کومولویوں، مشائخ ، فیوڈلوں اور فاشسٹوں کے شانہ بشانہ سینہ سپر ہوئے۔ اُن لوگوں کے ساتھ جنہوںنے اس دھرتی کے محبوب ترین اشرف انسانوں کو شہروں گھروں سے گھسیٹ کر اُن سے شاہی قلعے، کُلی کیمپ اور ساہیوال و مچ جیل آباد کروائے تھے۔ مسٹرٹین پرسنٹ بھی وہیں تھا، سکھوں کی مخبری کرنے والا بھی اُدھر تھا، ڈیزل کی گالیاں کھانے والا بھی وہیں تھا، کرنسی نوٹ پر ” ون یونٹ توڑدو“ لکھنے پہ سات سال جیل والے کی اولاد بھی وہیں تھااور سیب کو کیلے بتانے والا رحمن بھی وہیں۔…….. گھڑی کا گھڑیال بجنا دیکھےے کہ زندگی بھر ریاستی فورس کی درندگی کا شکار ہونے والے بھی،ریاستی قوت کے استعمال کی زور دار اپیلوں مطالبوں کے ساتھ قادری عمران کا دھڑن تختہ کرنے کو د پڑے۔چنانچہ نواز زرداری کے فیوڈل طبقے کی صفیں پھولتی گئیں۔ ” شیر اور بکریاں“ ایک دوسرے کے دفاع میں ایک تالاب سے پانی پینے لگیں ۔
بلوچستان دانتوں میں حیرت کی انگلیاں دبائے، اسلام آباد میں ایک ہی طبقہ کی آپسی لڑائی کوبھی دیکھ رہا ہے، دانشوروں کی ایک یا دوسرے دھڑے کی بے ثمر طرفداری کو بھی پڑھ رہا ہے، دونوں کی لڑائی کے آخر میں رائٹ کے مزید مضبوط ہوکرابھر آنے کا تجزیہ بھی کررہا ہے،اور وحشت کی کھلی آنکھوں سے اپنی مسخ شدہ لاشوں کو بھی گن رہا ہے۔

آہ! جواں مرگ ارشاد

شفاف عینکوں کے پیچھے سے زندگی سے بھرپور آنکھیں چمکتی تھیں، باشعور آنکھیں ۔ چھوٹی قد میں ایک چہکتا دھن جو صحافیوں کی طرح نان سٹاپ بولتا جاتا تھا۔مﺅدب ، مہذب مگر موقف گوئی میں سفاک ۔ اپنے پیشے سے مخلص۔خبر کااُس کے سرچشمے تک پیچھاکرتے رہنا۔بلوچستان میں کوئی واقعہ ہوتا تو ارشاد،یا اُس کے ساتھ ہی موجود شاہد رند سمجھومورخوں، دانشوروںکے موبائل فونوںپر چڑھ جاتے اور بہت کرید کرید کر اُس واقعہ کا پس منظر اور اہمیت پوچھتے۔ اور باخبر کے پاس موجود معلومات کا آخری قطرہ تک چوس کر ،تھینک یو کہتے۔

اپنے پیشے سے بھرپور لطف لینے والا ارشاد کوئی بہت زیادہ علامہ نہ تھا، لیکن صحافت اُسے خوب آتی تھی۔ بلوچ سیاست سے اُس کی دلچسپی کسی دور اور کسی طور کبھی کم نہ ہوئی۔ ایک روشن فکر، مترقی اور مبنی بہ انصاف بلوچستان وہ بھی چاہتا تھا اور ہزاروں لاکھوں دوسرے بھی چاہتے ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک ارشاد کے مارنے سے یہ انسانی نیک خواہش کہاں مر سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ قاتل کا کام ہی ایسے لوگوں کو قتل کرتے رہنا ہے ، ابد تک۔ کبھی ایک ایک کرکے اور کبھی اجتماعی طور پر ۔ مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ نظریات و خیالات انسانی قوت و فرعونیت سے کہیں زیادہ سخت، اور سخت جان ہوتے ہیں۔ بغیر جڑ کے اگنے والا جنگل ہوتے ہیں نظریات۔ بغیرپہیے اور،پر ،کے برق رفتاری سے چلتے ہیں نظریات۔ گُل گلاب کی خوشبو کی طرح بلاتفریق معطر کرتے ہیں نظریات ۔ آبِ حیات پےے ہوتے ہیں نظریات۔
تیرے قاتلوں کی بندوقوں کے پیچھے موجودسرپرست ذہنیت ہمیشہ کے لےے لنگ ہوجائے، شالا۔…….. دنیا بھر میں۔

جی آر ملاّ

بلوچی زبانئے نامداریں زانت کار و شائر واجہ جی آر ملا یا اِے کوڑئیں جھان یل دات۔ بلوچی زبانا ٹوئیں تا وانے بوت بزانکہ استالے آزمانا سست ،یا، ماہکانیں شپ تہا ر بوتاں۔
دعا اِنت ربّ ِ پاکا ھدا مرزی آ وتی گنجیں رحمتانی ساہگاجاگاہ بدنت آئی ئے چک و وارثاںئے ہاٹی بدنت۔
غمانی شریدار:۔واحد مسافر، حفظ الرحمن دشتی ، منیر دشتی ، دوست جان دشتی ، صدیق یار جان ، حمل دشتی ، جاسم اکبر، بلال دشتی ، عبدالواحید تربت کیچ۔او ،ماہنامہ سنگت کوئٹہ

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *