Home » پوھوزانت » رؤف وارثی ۔۔۔ آسیہ رحمان

رؤف وارثی ۔۔۔ آسیہ رحمان

میرے والد کی پوری زندگی اوران کی جدوجہد بہت طولانی رہی اوراس کو چند لائنوں کے آرٹیکل کے ذریعے مکمل طورپر بیان کرنا ممکن نہیں۔اسی لیے یہاں پر میں سرسری طور پہ انکی زندگی کو بیان کروں گی۔

وہ 22 دسمبر 1942 کو انڈیا کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے. یوں تو ان کے والد عبدالوحید وارثی لکیھن پور سے تھے لیکن اپنی جاب کی وجہ سے پاپا کی پیدائش کے وقت کچھ عرصہ انبالہ میں رہے اور پھر اسی جاب کی وجہ سے تقسیم ہند کے وقت وہ  پاکستان میں رہے۔ ان کا بچبن  پاکستان کے کون کونسے صوبوں میں گذرا اسکے بارے میں فی الحال سوفیصد یقین کیساتھ نہیں لکھ سکتی۔ بہرحال یہ توکنفرم ہے کہ بچپن کا کچھ حصہ انکا لاہور کینٹ میں میں گذرا۔ کب تک وہ  لاہور میں رہے یہ  فی الحال کنفرم نہیں مگر اتنا ضرورپتہ ہے کے انہوں نے میٹرک کا امتحان کراچی سے ہی دیا تھا.اَرلی ریٹائرمنٹ کے بعد میرے دادا اپنے بچوں سمیت کراچی شاہ فیصل کالونی میں شفٹ ہو گئے تھے. چونکہ پاپا بہت ذہین تھے ان کے والد ان کو  ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے -شروع میں توپاپا بھی اس بات کے لیے راضی تھے اور بن بھی سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ جب میڈیکل کی لائن انتخاب کرنے کا وقت آیا انکا رجحان سیاست اورصحافت کی طرف ہو چکا تھا. پاپا نے اپنے اردگرد کے سماج میں ناانصافیوں کو جب دیکھا تو انہیں لگا کہ انہیں ڈاکٹربننے کی بجائے اس ملک میں محنت کش طبقے کے لیے تبدیلی لانی چاہیے۔ کم عمری میں ہی انہوں نے مارکس لینن اوراینگلز کی کتابیں پڑھنا شروع کردیں. پھر ظاہر ہے جس معاشرے میں وہ رہ رہے تھے انہیں نظرآ رہا تھا کہ محنت کش طبقہ کتنا پسا ہوا ہے. اس کے علاوہ انکی یہ سوچ طلباء تحریک سے بھی پیدا ہوئی. ا نکو شاہ فیصل کالونی میں بھی کئی سیاسی ہم خیال کامریڈز جیسے مجتبی صدیقی،عارف علی خان، ذاہد خان غضنفر اوربہترین مصورخلیل احمد ملے-

پاپا نے سوچا کہ محنت کش طبقے کے لئے تبدیلی لانی ہے تو انہی میں رہ کر کام کرنا ہو گا. اس وقت سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ مزدورطبقہ تھا اس لیے انہوں نے کم عمری میں ہی ٹریڈ یونینز میں حصہ لیا اور بہت جلد ٹریڈ یونین لیڈر بن گئے-پاپا کی زندگی کا آغاز ٹریڈ یونین،کمیونسٹ پارٹی،طلباء محاذ اور NAP سے لگ بھگ1956/1958 تھا قریب ہی شروع ہو گیا تھا جب انکی عمر13سے15 سال کے درمیان تھی- پارٹیاں تو اور بھی تھیں اس وقت مگر انکا مقصد سماج میں  حقیقی سوشلزم لانے کا تھا۔ انکو لگاکہ صرف کمیونسٹ پارٹی ہی تھی جو انکا یہ مقصد پورا کرسکتی تھی۔ اسی لیے انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کو جوائن کیا جو بین بھی تھی اوراس میں شمولیت بھی پر خطر تھی۔ چونکہ کمیونسٹ پارٹی بین تھی تو باقی اکثرکمیونسٹوں کی طرح پاپا نے نیپ بھی جوائن کی۔ جب 1958 میں ایوب کا دور آیا تو مارشل لاء کے اندر ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا بہت خطرناک تھا.مگر پاپا اسکے باوجود ان سیاسی سرگرمیوں میں پرزورطریقے سے حصہ لیتے رہے جو کہ اکثر والدین کی طرح انکے والد کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنیں -سب سے زیادہ دادا اُس دن پریشان ہوئے تھے جس دن پاپا کو1962/1963 میں حیدر آباد سے گرفتار کیا گیا. ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بطور ٹریڈ یونین لیڈر ہڑتال کو منظم کیا تھا اور ایسی اشتعال آمیز تقریر کی تھی جس نے مزدوروں میں ایسا جذبہ پیداکیا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے سرمایہ داروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے تیار تھے۔اس سرگرمی میں پاپاکے ساتھ انکے ساتھی کامریڈ محبوب عالم بھی تھے- کاش میں نے انکی وہ تقریر سنی ہوتی (جب وہ 19/20 سالہ نوجوان تھے) جس نے مزدوروں کو اتنا جذبہ دلایا. آجکل تو ہم دیکھتے ہیں کہ فیکٹریوں میں اپنے حقوق کے لیے تو دور کی بات فرقوں کا نام لیکر دوسروں کی جان لی جاتی ہے. جیسا کہ سیالکوٹ کی فیکٹری میں ابھی حالیہ دیکھنے کو ملا. بہر حال نہ تو حیدرآباد کی جیل اور نہ ہی اسکے بعد کراچی کی جیل  نے میرے نوجوان کمیونسٹ والد کے جذبے کو کمزورکیا بلکہ ایسا مضبوط کیا کہ وہ اس راستے پر آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے اور پھر کسی دور میں بھی وہ سماج کی ناانصافیوں کے خلاف لڑنے سے پیچھے نہ ہٹے اور اسی عزم کے ساتھ سندھ سے بلوچستان،افغانستان اور پھر یورپ تک پہنچ گئے۔

یوں تو انکی تعلیم اردو میڈیم تھی لیکن بقول انکے دوستوں کے کہ انکی انگلش بہت اچھی تھی. انہوں نے اس انگلش کا استعمال پیسے کمانے کے لیے نہیں بلکہ کمیونسٹ، مارکسسٹ ادب کے ترجموں کے لیے کیا-

اصل میں انکا مقصد کتابوں کو اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کا یہ تھا کہ عام لوگ بھی آسانی سے کمیونزم کو پڑھ سکیں. ان کتابوں کی قیمت زیادہ نہیں ہوتی تھی. وہ ترجمہ شدہ کتابیں جن پر وہ اکثراپنا نام نہیں لکھتے تھے زیادہ تر مقامی سٹالز پر بکتی تھیں.  باوجود اس کے کہ  ان پراکثرانکا نام نہیں ہوتا تھا پھر بھی یہ کام  انکے لیے خطرے سے خالی نہیں تھا. پاپا نے اپنی تعلیم اردو اسلامیہ یونیورسٹی سے مکمل کی جہاں سے کچھ اور کامریڈز بھی پڑھے جیسے کامریڈ مختار تھے. پاپا نے صحافت کے علاوہ فلسفہ بھی پڑھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ کسی پر اندھا دھند یقین نہیں کرتے تھے بلکہ باتوں کے پیچھے اصلی حقائق جاننے کی کوشش کرتے تھے. وہ اصول پسند انسان تھے. انکی صلاحیتوں میں (جو مجھ میں ایک فیصد بھی نہیں ہیں) اکثر انکے ساتھیوں سے پتہ چلتا ہے کہ پالیسی بنانا، تنظیم سازی کرنا، منصوبہ بندی پلاننگ، آرگنایزنگ، ڈاکومنٹیشن اور انالایزینگ سکلزتھیں۔یہ انکی صلاحتیں انکی سیا ست میں بہت کارامد ثابت ہوئیں. کمیونسٹ پارٹی میں انکے دوست بتاتے ہیں کہ رؤف وارثی کے بغیر میٹنگز ادھوری ہوتی تھیں. وہ اکثروہاں ڈاکومنٹیشن بھی کیا کرتے تھے۔

۔                1966 سے 1972 تک پاپاسوویت یونین کے سفارت خانے کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے  رسالہ طلوع نکالتے رہے اورساتھ ساتھ ٹریڈیونین سی پی پی اور نیپ کی سرگرمیوں میں  بھی مشغو ل رہے-سوویت ایمبیسی کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں  پاپا کی دوستی بلوچستان کے ادیب عظیم کامریڈ عبداللہ جان جمالدینی سے ہوئی جو کہ  بعد میں سویڈن میں بھی پاپا سے ملے اور اپنے دوست سے اس دوبارہ  ملاقات کو اور ان  کے ساتھ گذرے ان دنوں کواپنی زندگی کے خواشگوار دنوں میں سے گنتے ہوئے انہوں نے اسکا ذکر اپنی ایک کتاب ”شمع فروزاں“ میں کیا ہے۔

۔1973 میں نیپ کی حکومت ختم اور سنگت کے بند ہونے کے بعد اور پاپا کے رو پوش ہونے کے بعد اکثر پاپا کے ساتھیوں کوایک دوسرے کے بارے میں  کہ کون کہاں کب گیا نہیں پتہ ہوتا تھا کیونکہ ایک دوسرے کا کھو ج لگانا بھی خطرناک تھا۔اسی وجہ سے آج بھی انکے کچھ ساتھی کامریڈ کی طرح سے یہ سمجھتے ہیں کے پاپا 1973 میں ہی خلیج چلے گئے تھے اور وہاں سے افغانستان اور پھر سویڈن آگئے۔حالانکہ حقیقت تویہ ہے کہ پاپا تو3 سال روپوش ہونے کے بعد 1976 میں خلیج گئے تھے اور ایک سا ل سے کم عرصہ میں ہی واپس پاکستان آگئے تھے اور 1981 کے شروع میں ان کو  دوبارہ جلا وطن ہونا پڑا۔

سی پی پی کے پرچوں میں سرگرم رہنے کے علاوہ 1969 میں پاپا نے ترقی میگزین نکالا جس میں  پاپا نے آج کے بنگلہ دیش میں جوہونے والا تھا اسکی پیشنگوئی کی تھی. انکے اس میگزین میں کئی ترقی پسند لوگ لکھتے تھے جن میں کامریڈ سلیم راز اور کامریڈ عنایت کشمیری بھی تھے۔

۔1971 میں انہوں نے صبا میگزین نکالا جس میں انکے ساتھ کامریڈ پروفیسر یحییٰ اور کامریڈ واحد بشیر اور ان کے ایک دوست بھی ساتھ رہے۔

۔1972میں جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت آئی  جو ظاہر ہے انکی اپنی ہی پارٹی کی تھی تو اسے مضبوط کرنے انہوں نے کوئٹہ کا رخ کیااور ایمبیسی کی جاب چھوڑ دی۔  ویسے بھی اس بھٹودورمیں پا پا کا سندھ میں جینا اجیرن تھا توا ن کے لیے وہاں نیپ کی حکومت کا غوث بخش بزنجوصاحب اور عطا ء اللہ مینگل صاحب کی قیادت میں آنا ایک خوش آیند بات تھی۔ وہاں پہنچ کر پاپا نے iپنا ہفتہ وارسنگت میگزین نکا لا جس میں انکا ساتھ بیزن بزنجوصاحب اور بی ایس او کے بانیوں میں سے ایک بانی منظور گچکی صاحب نے دیا۔ سنگت میگزین میں اس وقت پاپا کے اکثر نیپ سی پی پی اور دیگر ترقی پسند راہنماوں  جیسے باچا خان،سبط حسن، ڈاکٹراعزاز نذیر،خیربخش مری، سیف خالد، بیگم نسیم اشرف ملک کی تحریروں،انٹرویو کے علاوہ عام مزدوروں اور طلبا کی بھی تحریریں اور انٹرویوہوتے تھے جو  پاکستان کے کسی بھی حصہ سے سنگت کوموصول ہوجاتے تھے۔ پاپا کے ان میگزینز میں مجھے یہ پڑھکر خوشی ہوئی کہ بعض باتوں میں ہماری لیفٹ کی پارٹیاں جیسے سوشلسٹ پارٹی مزدورکسان پارٹی نیپ اورکمیونسٹ پارٹی میں اتحاد تھا۔  ماضی کے تجربے آج  ہمیں سبق دے رہے ہیں کہ آج لیفٹ کے اتحاد کی ضرورت کل سے بھی زیادا ہے۔ سنگت کے دور میں انکی کئی پروگریسو نواجونوں سے دوستی ہوئی جن میں سے ایک عوامی ورکز پارٹی کے صدریوسف مستی خان بھی ہیں۔ افسوس کہ بلوچستان میں نیپ کی گورمنٹ زیادہ دیر نہیں چلی اوربھٹو نے اسے توڑ دیا۔ اکثر وبیش تر نیپ کے لیڈرگرفتار ہوئے جوبچ  گئے گرفتاری سے جیسے پاپا اور چند اورانہیں انڈرگراونڈ یا جلا وطن ہونا پڑا۔ پاپا کافی عرصہ انڈرگراونڈ رہے  پھر ایک وقت آیا کہ یہ مزید نہیں چل پایا اور بلکل جان جانے کا خطرہ سامنے آیا۔ ایک ان کے  چاہنے والے غیر سیاسی مہربان دوست نے ان کی جان بچائی  اور انکے توسط سے1976 میں پاپاجلاوطنی میں یو اے ای پہنچ گئے۔ اور1977 میں جب حالات تھوڑے نارمل ہوئے تو  باوجودہ جلا وطنی میں ان کی  مینجریل جاب ہونے، ساتھ آمدنی بھی اچھی تھی کوچھوڑکرپاپا واپس پاکستان آئے۔ اصل میں پا پا کا سیاست کے بغیر دل نہیں لگتا تھا۔ اسی لیے حالات تھوڑے نارمل ہونے پر لوٹ آئے۔ اور پاپا نے دوبارہ رشین ایمبیسی جوائن کی اورجب تک کہ ایمبیسی اسلام آباد شفٹ نہیں ہوئی جو کہ غا لبا 1979 کا آخر تھا وہ وہیں ایمبیسیی کے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں منیجر رہے اور وہیں سے انکا اطلوع اخبارنکالتے رہے۔ بقول پاپا کے ساتھی احمد سلیم  کے جو پاپا کے ساتھ ایمبیسی میں ہوتے تھے کہ پاپا ایمبیسی کے شفٹ ہونے کے بعد بھی کچھ عرصہ سٹاف کو ٹریننگ دینے اسلام آباد آتے رہے۔

پاپا نے حسب معمول ضیاء دور میں بھی اپنی بین سی پی پی کی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ ایسا بہت کم ہی ہوتا تھا کے وہ اکیلے ہوں اکثرانکے پیچھے ایک گاڑی رہتی تھی جس میں سول کپڑوں میں کچھ لوگ انکے پیچھے پیچھے رہتے تھے۔.1980میں پاپا کو  پنجاب سے سیاسی دورے کے دوران گرفتار کرلیا جاتا ہے اس زمانے کے کئی بڑے اخبار جن میں اردو انگلش دونوں شامل ہیں میں یہ خبریں چھپیں۔ گرفتاری کے بعد انکو شاہی قلعہ میں بھیج دیا گیا جہاں ظاہر ہے ان پر تشدد ہوتا رہا. پاپا کا کیس فیصل آبادجواس وقت لائل پورکہلایاجاتا تھا کے بہت قابل وکیل حنیف ڈوگر نے لڑا اور انکی ضمانت ایک مہربان صاحب حیثیت کامریڈ رانا حمید نے دی جوکے اس وقت سنار تھے۔ انکی کئی پیشیاں ہوتی رہیں اور ایک پیشی میں اس زمانے کے نوجوان کامریڈ کامریڈ خالد راناجوکہ اس وقت سی پی پی پنجاب کے جنرل سیکٹری ہیں۔ شاہی قلعہ سے رہائی کے بعد پاپا کا پاکستان میں رہنا  مزید مشکل ہو گیا تھا۔ ادھرافغانستان میں نیا نیا کمیونسٹ انقلاب آیا تھا اورپاپا کی کا رمل کی حکومت کوضرورت تھی لہذاپاپا  1981 میں جنگ زد ہ کابل پہنچ گئے۔ وہا ں پر دیگر ہمارے پاکستانی کامریڈز جیسے امام علی نازش کامریڈ سائیں عزیز اللہ اوراجمل خٹک صاحب بھی موجود تھے۔ ببرک کارمل اورڈاکٹرنجیب کے اس زمانے میں آپس میں مراسم ٹھیک تھے اور پاپا کے اور دیگرہمارے پاکستانی کامریڈز کے ان دونوں اوردیگر افغان حکومت کے کامریڈز کے ساتھ مراسم ٹھیک تھے اس کے علاوہ پاپا کے اچھے دوستوں میں ایک افغان دوست آغائے  رفعت تھے۔معلوم نہیں اس وقت ان کے  اوپر کس وزارت کی ذمہ دار ی تھی پر اتنا ضرور معلوم ہے کہ وہ سیاست میں بہت ایکٹو تھے اور پاپا سے ملنے ببرک کارمل کے بھائی  کے ساتھ ہمارے گھر سویڈن آئے تھے جب یہ دونوں افغانستان سے آفیشل دورے پر سویڈن آئے تھے۔ اب یہ اس وقت مجھے کنفرم نہیں کہ اس وقت ببرک کارمل ہی افغانستان کے صدر تھے یا ڈاکٹر نجیب صدر بن چکے تھے۔

پاپا کے دوستوں میں اس زمانے کے افغانستان میں  رہنے والے چیکوسلواکیہ کے سفیر بھی تھے جو ایک وقت میں پاپا کے بہت کام آئے تھے. پاپا وہاں پر 1981 سے 1985 تک رہے۔وہ ہمیشہ صحافت اور سیاست کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ لہذا افغانستان میں بھی انہوں نے صحافت کو نہ چھوڑا اور  سب سی بڑی اورحکومتی نیوز ایجنسی جس کا نام باختر تھا کو بھی جوائن کیا۔ چونکہ انہوں نے پاکستان میں فارسی پڑھی تھی تو انہیں وہاں صحافت کرنے میں کوئی مسلہ نہیں ہوا۔

وہاں پر بھی اور اس کے بعد سویڈن میں آنے کے بعد بھی سی پی پی کے انٹرنیشنل کاموں کی ذمہ داری بخوبی سنبھالتے رہے. پاپا جب افغانستان میں تھے تو وہاں سے بھی یورپ کے دورے پر جاتے تھے. طلباء مسائل اور پارٹی کے انٹرنیشنل مسائل کو دیکھتے تھے۔

یوں تو بہت سارے جونیئر سٹوڈنٹس جیسے کامریڈعابد جان، کامریڈ شیر،کامریڈ نرنجن،کامریڈ قادر بخش جتوئی، حسن ناصر(ڈاکٹر اعزاز نظیر کے بیٹے)، کامریڈ پیر ریاض افغان پاپا کے نزدیکیوں میں رہے جب وہ افغانستان میں تھے پاپا کے قریب تھے اور پاپا کی بہت عزت کرتے تھے۔ پر ان سب سے زیادہ ڈاکٹرایاز محمد(سابقہ ڈی ایس ایف کے مرکزی رکن) پاپا کے قریبی رہے۔

۔1985 کے آخرمیں جب افغانستان کے حالا ت زیادہ خراب ہوئے تو پاپا سویڈن آنے پر مجبور ہوگئے۔  یہا ں آکر انہوں نے سٹاکہلم یونیورسٹی سے سیاست پڑھی اور سویڈ ن سے پاکستا ن کی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ کامریڈ امام علی نازش نے انکو سی پی پی کی انٹرنیشنل شعبہ کی کورڈینیشن کی محصولیت دی تھی۔ وہ یورپ کے دیگر ممالک میں سیا سی دوروں پر جاتے رہتے تھے اورانٹرنیشنل کانفرنسوں میں بھی حصہ لیا۔ ویسے تو وہ جب افغانستا ن میں تھے تب بھی یورپ سیاسی دوروں پرگئے تھے افغان حکومت کی طرف سے۔ کامریڈ سرفراز میمون جن کا نام آجکل سلیم میر نے مجھے پاپاکے ایک آفیشل دورے کے پروٹوکول کے بارے میں  بتایا تھا اور پاپا کی اور اپنی چند دلچسپ باتیں بھی شیر کی تھیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ شاہی قلعہ جیسی جیلیں انڈرگراونڈ رہنا جلا وطنی سیاسی دباؤسیاستدان کے دماغ پر ایکدم اٹیک کا باعث بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی پاپا کے ساتھ 1989 اکتوبر میں ہوا-

“یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔۔۔۔۔”

اور کیا عجب ہوا کہ روس میں جو ہوا جوان کی ساری زندگی کی سیاست رہی اس نے بھی پلٹی جب ہی کھائی جب پاپا کی یاداشت ہی وہ نہ رہی کہ انہیں ایسا ہونے پر دکھ ہو۔

یہ تھے بس میرے والد کامریڈ رؤوف وارثی کی زندگی کے محنت کش طبقہ کے لیے طویل جدوجہد کے چند رول جو میں نے آج انکی سالگرہ کے موقع پر بیان کیے

تو کیا ہوا کہ آج وہ ہمیں دکھتے نہیں تو

تو کیا ہوا کے آج انکی آوازکانوں تک نہیں پہنچتی

پر دل میں تووہ پھر بھی زندہ ہیں۔ وہ آج بھی مظلوموں کے اور اپنے چاہنے والوں کے دل میں زندہ ہیں

سالگرہ مبارک

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *