Home » شونگال » دفنا دو

دفنا دو

شروع شروع کاانسان تو بس ”چُننے والا“ جاندار تھا۔وہ جنگلی بیر اور دیگر پھل چُن کر کھاتا۔ مزید ترقی کی تو پتھر اور ڈنڈے جیسے فرسودہ ہتھیاروں سے شکار بھی کرنے لگا۔ کوئی جائیداد، ملکیت نہ تھی۔ پتھر کا زمانہ، قدیم کمیونزم کا زمانہ۔طویل زمانہ۔

ظاہر ہے ایک مخصوص علاقے میں یہ نعمتیں اُس کی آبادی بڑھتے رہنے کے ساتھ ساتھ کم پڑتی گئیں۔ تب زور آور نے کمزور کو،اور کثرتی قبیلے نے اقلیتی قبیلے کو اپنا غلام بنایا، اور انہیں اپنے لیے شکار کرنے اورخوراک مہیا کرتے رہنے پر لگادیا۔ اور یہ غلام داری سماج اپنی بہت سی صورتوں میں ہزاروں برسوں تک جاری رہی۔

مگر خوراک کے اضافی ذرائع ڈھونڈتے ڈھونڈتے کاشتکاری ایجاد ہوگئی۔ زرعی او زار ترقی کرتے گئے۔ گاؤں قائم ہونے لگے۔ وہاں دستکار، کسان، پنڈت پادری،سردار، اور ان سب کے اوپربادشاہ، یعنی فیوڈلزم وجود میں آگیا۔ اب صبح شام کی خوراک کے لیے جنگوں پہ انحصار ختم ہوگیا۔ تجارت اور سڑکوں کی ابتدا ہوئی۔ اناج پیسنے کی پن چکّی،لوہار اور ترکھان کے ورکشاپ قائم ہوئے۔ ڈاکو قابو ہوئے، ”قانون“  لاگو ہوا، اور سفر محفوظ ہوا۔

یوں صدیاں گزارنے کے بعد سماج کو فیوڈل ازم کی بھی ضرورت نہ رہی۔ اس لیے کہ اب وہ انسان کو ترقی دینے کے بجائے اُس کے پیروں کی زنجیربن گیاتھا۔ ظالم بادشاہ، ناترس پنڈت پادری اور سنگدل پیر و مرشد پابندیوں پہ پابندیاں لگاتے جاتے۔ قسم قسم کے ٹیکسوں، ٹُک اور خیراتوں،بے گار اور دیگر مشقتوں نے انسانی ترقی ناممکن بنادی۔

اسی دوران (پندرھویں صدی کے)یورپ میں سائنس،فلسفہ اور سیاست میں بے شمار دریافتیں اور ایجادات ہوئے۔ یہ رینیساں کا زمانہ کہلایا۔ اس نے انسانی ارتقا کی سواری کو زبردست ایڑ لگائی۔جواب میں تجارت اور مارکیٹ نے رینیساں کو زبردست کمک دی۔یوں سائنسی ایجادات، جغرافیائی دریافتوں اور فلسفیانہ تبدیلیوں نے منڈی کی زبردست بالادستی قائم کی۔۔۔اور پھر، برطانوی صنعتی انقلاب آیا۔ اس نے تو ساری دنیا کو بدل کے رکھ کپٹلزم قائم ہوگیا۔اس نظام نے بتایا کہ سوسائٹی کی پیداواریت چند دہائیوں کے اندر اندر ڈرامائی طور پر بڑھ سکتی ہے۔ ایسا انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ یہیں اندازہ ہوا کہ ایک آرام دِہ زندگی سب کے لیے ممکن ہوسکتی ہے۔جدید کپٹلزم (اور ماڈرن سوشلزم دونوں)کی تاریخ ڈھائی سوبرس بنتی ہے۔

مگر، ماسوائے کچھ کے، کپٹلزم کی باقی نعمتیں نیچے تک آنے نہ دی گئیں۔ وہیں اوپری طبقے میں ہی رکھی گئیں۔نتیجہ یہ کہ آج ایک طرف دنیا دولت سے لبالب بھری ہوئی ہے مگر دوسری طرف مفلوک الحالی شدت کے ساتھ فراواں ہے۔ بھوک جہالت ننگ اور جنگ نے کپٹلزم کی ساری کرامات صفر کرکے رکھ دیں۔ اس شدید وپیچیدہ استحصالی نظام میں انسان غلامی کے دور سے بھی زیادہ بے عزت ہوتا چلا گیا۔ترقی ایک عذاب بنتی گئی۔ سارا شہد مکھن کپٹلسٹ کا اور ساری تذلیل و بے بختی عوام الناس کی۔

بنی نوع انسان کو اس عذاب سے سوشلزم نے چھٹکارا دلایا۔اس نے انسانی ترقی اور وقار کی بحالی کی بنیادی صورتوں کے ایک پورے سلسلے کو جنم دیا۔ سوشلزم ایک بہت ہی پاپولر نظام تھا۔ خفیہ ایسوی ایشنیں، سیاسی پارٹیاں، مزدوروں کی وسیع سماجی اور سیاسی تحریکیں، حتی کہ غلاموں اور کسانوں کی انقلابی قوتیں سب اس لہر کا حصہ تھیں۔

یوں، جنگوں، ہلاکتوں، چکلوں اور ماحولیات کی تباہی والی کپٹلسٹ دنیا 1917 میں روسی اکتوبر انقلاب کی وجہ سے زیرو زبر ہوگئی۔فرد کے فرد پہ استحصال، قوموں کی محکومی، نسل پرستی، صنفی تفریق، اور عالمی جنگوں کے اِس دشمن (سوشلزم)نے ہزاروں فلاسفروں، مصلحوں اور تحریکوں کی آرزوؤں کی تکمیل کی۔اور انسان آزاد ہوگیا۔

دوسری تبدیلی یہ آئی کہ سوشلزم نے سوویت یونین کو صنعتی ماڈر نائزیشن کے راستے پر ڈال دیا۔ وہ ایک ایسی قوت کے بطور ابھرا کہ اس نے ہٹلر کے جرمنی کو فیصلہ کن شکست دے دی اور امریکہ اور مغربی کپٹلسٹ دنیا کو دہائیوں تک ایک مقابلے کی پوزیشن دیے رکھی۔

اسی طرح1949میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے انقلاب کر کے چین کو بھی ایک ماڈرن سماج بنا ڈالا۔ اس کے علاوہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں زبردست اصلاحات نے کپٹلسٹ عناصر کے ساتھ ساتھ وہاں ویلفیئر ریاستیں پیدا کیں۔

مگر 1970کی دہائی کے اوائل میں یہ واضح ہوگیا کہ مندرجہ بالا کامیابیوں کو جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ بہت ساری معروضی اور موضوعی وجوہات کے سبب اور بہت سارے اندرونی اور بین الاقوامی اسباب کی بدولت سوشلسٹ ممالک میں کپٹلسٹ ممالک کے مقابلے میں معاشی، سماجی، کلچرل اور سیاسی جدت کم رفتار ہوتی گئی۔

بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی امداد کے بہت بڑے بوجھ نے تو سوشلسٹ ممالک کی کمر توڑ کے رکھ دی۔مغربی ویلفیر ریاستیں اور ترقی پذیر ممالک اصلاحات کے لیے بڑھتی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ مگر سوشلسٹ ممالک اِن چیلنجوں کا اطمینان بخش جواب تلاش نہیں کرپا رہے تھے۔سوشلزم نے پوری بیسویں صدی میں تو کپٹلزم کے خلاف ایک سنجیدہ مقابلہ کرنے والے کے بطور اپنی اہلیت ثابت کردی۔ مگر اب وہ بیسویں صدی کے اواخر میں کپٹلزم کے ساتھ اپنے اِس مقابلہ کو جاری نہ رکھ سکا اور ایک گہرے بحران میں گھر گیا۔اور یوں وہ ممالک بالآخر مرگئے۔ مگر کہاں گرے؟۔مرحوم سوشلسٹ ممالک کی لاشیں سکرات میں پڑے عالمی کپٹلزم کی نیم زندہ میت پہ گر گئے۔

یوں، سوویت یونین کی وفات کا مدھم ماتمی ڈھول اور ”کپٹلزم کی فتح“کا چنگھاڑتا بگل اس حالت میں بجے کہ کپٹلزم خود مردِ بیمار تھا۔ کپٹلزم ایک طویل عرصے سے گہرے بحران میں تھا جو اب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا۔ یعنی جس وقت کمزور سوویت نظام غائب ہوا تو کپٹلزم کی اپنی آن بان شان بھی پہلے والی نہ رہی تھی۔ کپٹلزم اپنے ضعف کے بدترین دور میں داخل ہوچکا تھا۔

اُس وقت  ساری دنیا میں یہ بات پھیلا دی گئی تھی کہ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی تاریخ کا خاتمہ ہوگیا۔ کچھ نے کہا کہ اب کپٹلزم کو منظم انداز میں چیلنج کرنے کا خاتمہ عارضی نہیں مستقل ہوگیاہے۔ مگر پروپیگنڈہ کے دُھند کے چھٹتے ہی معلوم ہوا کہ روٹی،مکان اور عزت و شرف جب تک محض چند لوگوں تک محدود رہیں گے کپٹلزم کے سرکا شدید میگرین ختم نہ ہوگا۔

دور کیوں جائیے۔ کپٹلسٹ سولائزیشن کا معاصر ہمہ جہت بحران ہی دیکھیے۔ آپ فوراً بھانپ جائیں گے کہ سوشلزم کو عالمی تاریخ کے دورانیے سے مکمل طور پر غائب نہیں کیا جاسکتا۔یہ ہر جگہ نئے سرے سے نئی نئی صورتیں لیے ابھر تا رہے گا۔

دراصل کپٹلزم نے عرصہ ہوا اپنا کام مکمل کر ڈالا۔ ”مشن اِز اوور“۔اُس کے سوتے سوکھ چکے ہیں۔آج یہ انسانی سماج کی کو کھ میں پڑا  نوماہ کے بجائے گیارہ بارہ ماہ کا بچہ ہے:”ہائپر میچیور بچہ“۔ظاہر ہے وہ کو کھ کے اندر کب کا مرچکا ہے۔ایک سڑاند جسے ٹھکانے لگانے کی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اب کپٹلسٹ معیشت انسانی حیات کی فطری بنیادوں کو تیزی سے برباد کر رہی ہے۔اس نے ایک ایسا ماحولیاتی بحران پیدا کیا جس پہ قابو پانا اس کے بس میں نہیں ہے۔دولت، اناج اور اشیا کی فراوانی اوربہتات تو ہے مگر چند لوگوں نے اس بہتات کو اپنے ذخیروں میں انبار کر رکھا ہے۔ باقی انسانیت کو اس نظام نے پیٹ بھر کر کھانے، تن ڈھانپے اور سر اوپر چھت سے بے نصیب کر رکھا ہے۔ اس نے انسان کو تفریح اور کھیل کے لیے فارغ وقت، ترقی یافتہ تخلیقیت، اور باہمی محبت سے محروم کررکھا ہے۔

کپٹلزم ایک مہذب سماج بھی نہیں لاسکا ہے۔ استحصال تو عوامی پیمانے کی ڈیموکریسی، کا الٹ عمل ہوتا ہے۔ یہی بات سیاسی legitimacyکے بحران کی طرف لے جاتی ہے۔ کپٹلسٹ گلوبلائزیشن اور فنانشل کپٹلزم دنیا کو تقسیم کیے جارہے ہیں جس سے انٹرنیشنل سکیورٹی کا بحران پیدا ہورہا ہے۔

جدید کپٹلزم اب بنیادی تبدیلی کے نکتہ عروج تک پہنچ چکا ہے۔ اب اسے حتماًتبدیل ہونا ہوگا۔ اس لیے کہ اب نسلِ انسان تو کیا، زمین پہ دیگر زندہ مخلوق کے مٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو چلا ہے۔

کپٹلسٹ ”ان سولائزیشن“کے اس فیصلہ کن بحران میں ”انسانی سولائزیشن“کو بچانے کی زبردست کو ششوں کا زمانہ آگیا ہے۔ ایک اعلیٰ متبادل کی تلاش کا وقت آگیا ہے۔جدید کپٹلزم کو درپیش عذابوں اور چیلنجوں کے لازمی جوابات تلاش کرنا بہت ارجنٹ معاملہ ہوگیا ہے۔

اِس ناسور شدہ کپٹلزم کا متبادل کیا ہوگا؟۔ ظاہر ہے کہ کپٹلزم کا متبادل کپٹلزم تو نہیں ہوگا۔ کپٹلزم کے بر خلاف یہ متبادل صرف اور صر ف ایک جدت کی طرف جانے والا سماج ہوسکتا ہے۔ایسا سماج جس میں دھوکہ دھاندلی، اور رشوت و ڈنڈا نہ ہوں۔بادشاہت، مارشل لا،فاشسٹ اور نام نہاد جمہوری ریاست اپنی ہر شکل کی بیورو کریسی سمیت پیچھے چلی جائے۔سماج خود تنظیم اور  عدم مرکزیت والے مراکز کا کنفیڈریشن ہو۔ ایسا سماج جو بالادستی سے پاک، جمود سے آزاد،اور معروضی علم سے لبریز ہو۔انڈسٹری کا سماج جس کی مربوط معیشت میں ”تعاون اور مقابلہ کی“باہمی دوستی اور یکجائی ہو۔ پراپرٹی اب چند ہاتھوں میں رہنے کے بجائے تنوع کی ایسی صورتوں میں ڈھل جائے جو یک جہتی میں سارے انسانوں کی آزادی سے مطابقت رکھتی ہو۔  تنوع میں اتحاد کا ماحول پیدا کرنے کے لیے مشورہ لینے اور سیاسی فیصلے کرنے کے ادارے موجود ہوں۔

ایسی نئی سولائزیشن جس میں انسان اور نیچر کے بیچ توازن اور تعلق کو نئی معراج ملے۔ فطرت کو دشمن سمجھ کر اُس کا استحصال برقرار نہ رکھا جائے۔ بلکہ انسانی ضروریات اور فطری ماحولیات کے توازن کے اقدام کیے جائیں۔یعنی بلند لیبر پیداواریت جسے ماحولیات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ حاصل کیا جائے۔ گل زمین کو باغ سمجھا جائے۔اسے سینچا سنوارا جائے،اسے سورج کی Renewable انرجی سے مالا مال کیاجائے۔

سماج کے بنیادی تضاد یعنی طبقاتی تضاد کو حل کرنے کے بعد انسانوں کے بیچ وسیع اتحاد کا جنم لینا ایک فطری بات ہے۔ بڑی بڑی تنخواہوں تجوریوں بینک بیلنسوں پر مبنی سماج نہیں رہے گا تو لازماًباہمی دلچسپی، ہمدردی، سماجی کمٹ منٹ اور آزاد و فرصت والے تفریح کے ٹائم کا سماج متبادل کے بطور قائم ہوگا۔ یوں ایک ترقی یافتہ سماج ابھرے گا، جو کہ انسانی تخلیقیت، انسانی باہمی خوشگوارتعلقات اور فطرت کی بحالی پر مرکوز ہوگا۔ ڈیموکریٹک اور کھلی حصہ داری پہ مبنی عام اتفاق رائے نمایاں ہوگا اور آج کی بورژوا گلہ کاٹنے والی مقابلہ بازی اور دھاندلیوں والی طبقاتی ڈیموکریسی ختم ہوجائے گی۔دھونس، آرڈر، بندوق، بم،سب دفعان ہوں گے۔ کانوں آنکھوں اور ناک کے لیے کو ناگوار آلودگیاں نہ رہیں گی۔

اب ترقی کو سماج اور ڈیموکریسی کی ایسی قسم سے مربوط کیا جائے گا جو شراکت داری کی حوصلہ افزائی کرے، کام،تفریح اور ”کافی ہونے“کے بیچ ارتباط پیدا کرے۔یعنی کپٹلزم نے جن اچھی چیزوں کی نفی کر رکھی تھی، وہ کپٹلزم کی نفی کرتے ہوئے دوبارہ ابھریں گی۔تب کالوں کو گوروں سے کمتر نہیں سمجھا جائے گا۔ عورت کو تمام برائیوں، تباہیوں اور بدبختیوں کا سبب نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ ایک ایسا بین الاقوامی نظام جو کہ قوموں اور لوگوں کو مساوی حیثیت میں اکٹھا اور امن سے ترقی کرنے کی اجازت دے گا۔انسان جمالیاتی طور پر بلند تر ہوگا۔ ایک کلچرڈ انسانی اشرف سماج قائم ہوگا۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *