Home » پوھوزانت » یوسف مگسی ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

یوسف مگسی ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

                ریاست قلات میں انگریزوں نے اُسی وقت چڑھائی شروع کردی جب محراب خان (مرحوم) خان قلات شہید کردیئے گئے پھر معاہدوں پر معاہدے اس میں قلات کو اپنے قبضے میں لینا تھا اور سو وہی ہوا پھر قلات ریاست کو انگریز نے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کیا اپنی مرضی کے حساب کتاب کرتے رہے کوئی سیاسی قوت اور قیادت بھی نہیں تھی جو کچھ تھا وہ قبائلیوں کے رحم و کرم پر تھا۔ قبائلیوں کے درمیان بھی اتفاق و اتحاد نہیں رہا ہر قبیلہ مختلف طریقوں سے انگریز سے نبرد آزما ہونے لگا اور آخر کار ان قبائل کا انجام بھی قریب آ پہنچا اور یوں قبائل اور انگریزوں کے درمیان فاصلے کم ہوتے گئے۔ ریاست قلات اب انگریزوں کے قبضے میں اور زیر نگرانی چلی گئی۔ جس سے وہ اپنے کاروبار‘ تجارت اور معیشت کو پروان چڑھانے میں مصروف رہے اور سرداروں اور نوابوں کا سایہ بھی ان کے سر پر رہا لیکن جہاں ظلم و جبر کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے جبر کے خلاف قوتیں بھی پیدا ہوتی ہے اور یہ وہ دور تھا جب جہاں قوم پرست سیاست کا آغاز ہوا۔ چھوٹے طبقے کے ملازمین کی شکل میں بغیر کسی قیادت کے یہ سفر اپنے ابتدائی مراحل میں داخل ہوا۔ یہ وہ دور تھا جو یوسف عزیز مگسی کو منظر عام پر لایا جنہوں نے لاہور کے ہمدرد اخبار میں فریاد بلوچستان کے نام سے وہ مضمون لکھا۔ جس نے انگریزوں کی بالادستی اور حکمرانوں کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس مضمون نے ریاست قلات کے اندر اور خود انگریزوں میں تہلکہ مچایا۔ جس کی پاداش میں میر یوسف علی مگسی کو پہلی مرتبہ سبی سے گرفتار کرکے مستونگ کے مقام پر لگ بھگ ایک سال تک رکھا گیا۔ (1930ء کو گرفتاری اور 1931ء کو رہائی)۔

                یوسف عزیز مگسی کے حوصلے اور عزائم ایک سال کی قید و بند سے مزید پروان چڑھے۔ چونکہ وہ برصغیر کے سیاسی حالات کا بخوبی جائزہ اور ادارک رکھتے تھے۔ ان کو آنے والے دنوں کا بخوبی اندازہ بھی تھا۔ لہٰذا وہ بہادری کے ساتھ سالارکارواں  بن کر میدان میں اُترے اور نگرانی بھی خود ہی کرتے رہے اور ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا قوم پرستی اور وطن کی آگ نے اُسے اندر سے باغی کندن بنا دیا تھا۔ جو انجمن اتحاد بلوچوں کی شکل میں سامنے آیا اور اس کارواں میں شریک عبد العزیز کرد، محمد حسین عنقا، ملک فیض محمد یوسفزئی دیگر رفقا نے بھی کلیدی کردار ادا کیا یہ وہی دور ہے جہاں ینگ بلوچ لیگ کے نام سے ایک تنظیم نے کراچی میں جنم لیا کمان کے تیر کی طرح ان قوتوں کے خلاف میدان میں اترے، جنہوں نے ہر طرف ظلم کا بازار گرم اور حق حاکمی کو اپنی تحویل میں رکھا تھا۔ ان قوتوں کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج تھا اور پریشانی بھی کیونکہ تحریک کی ابتداء ہوچکی تھی اور وہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ حالات کے بگاڑ میں یہ کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اور نہ ہی یہ خوف زدہ ہوں گے کیونکہ یہ نظریاتی اور علم سے لیس انسانوں کا قافلہ تھا اب اس قافلے کو کہاں رکنا تھا۔ حکمرانوں کے ظلم کو شمس گردی ”کی شکل میں ہر طرف پھیلا دیا۔

                 عبد العزیز کرد کی سیاسی جدوجہد‘ یوسف عزیز مگسی کی رہنمائی میں محمد حسین عنقا و ملک فیض محمد یوسفزئی کی کمٹمنٹ نے حکمرانوں کی نیندیں اُڑا دیں‘ سردار نہ سرداری ہر طرف شمس گردی پمفلٹ کی شکل میں منظر عام پرآئی جس کی پاداش میں میر عبد العزیز کرد اور صمد خان گرفتار کرلئے گئے اب چراغ گل نہیں ہونگے اب یہ کھل کر رہیں گے پس زندان میں بھی یہ چراغ جلتے رہے یہاں یوسف عزیز مگسی نے تحریک کو مزید مضبوط کیا بلکہ مالی معاونت بھی کرتے رہے ان کی سرداری ہی اس کارواں کے کام آتی رہی اور وہ تعاون و مدد کرتے رہے اور کس کو پتہ تھا لاہور کے اخبار میں ”فریاد بلوچستان“مضمون لکھنے والا یہ شخص لاہور ہی سے ”آزاد“ اخبار کی بنیاد رکھے گا۔۔۔۔۔ نہ صرف یہ بلکہ ”آل انڈیا بلوچ اور بلوچستان کانفرنس“ کی شکل دھار لے گا۔ جامعہ یوسفیہ، تکمیل انسانیت کو لیکر وہ ایک بے باک لیڈر کی شکل میں نوابی‘ سرداروں اور جاگیرداری کے خلاف برسر پیکار ہوگا آپ مادر وطن کے بہترین فرزند تھے۔ جنہیں آگے چل کر سیاسی شعور کی بیداری اور کٹھن جدوجہد کرنا تھی سرحدوں کو پار کرکے رہنماء یانہ کردار ادا کررہا تھا۔ لیکن سب کچھ شال کے 31 مئی 1935ء کے تباہ کن زلزلے کی نذر ہوگئے۔

                آپ نے سخت قبائلی دور میں ابتدائی سیاست کی بنیاد رکھ کر جدوجہد کی راہیں کھول دیں جسے جاری رکھنے کے لئے بابا بزنجو، ملک فیض محمد یوسفزئی‘ محمد حسین عنقا‘ بابو عبد الکریم شورش‘ میر گل خان نصیر و دیگر رفقاء کو اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ میر یوسف عزیز مگسی‘ میر عبد العزیز کرد، عبد الصمد اچکزئی نے اس سیاسی تحریک کو مضبوط و مستحکم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آنے والی نسلوں کے لئے راہیں متعین کیں۔ آگے چل کر یہ کارواں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی شکل اختیار کرگیا۔ جس کے صدر عبد العزیز کرد اور جنرل سیکرٹری ملک فیض محمد یوسفزئی تھے۔۔۔ یوں میر یوسف عزیز مگسی کا یہ کاررواں آگے بڑھتا رہا۔۔۔۔ جسے برٹش حکومت کی حکمرانی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں تھی۔۔۔۔ اور بلوچستان کی علیحدہ حیثیت کو برقرار رکھنا ان کے مطالبات میں شامل تھا۔۔۔ جمہوری نظام کا قیام اور انگریزوں کی واپسی۔۔۔۔ خان میر احمد خان نے قلات نیشنل پارٹی سے قربت تو کی مگر یہ دیر پا نہ رہی۔ ڈھاڈر کے مقام پر نیشنل پارٹی نے اپنی طاقت دکھائی اور عوامی سیلاب اُمڈ آیا جو اس دور کے حاکموں اور خان قلات کے لئے کسی المیہ سے کم نہ تھے۔ لہٰذا سازش کے تحت قلات پارٹی کے چیدہ چیدہ رہنماؤں کو عبد العزیز کرد سمیت گرفتاری پھر رہائی اور قربت بھی ریاست انتظامیہ میں عہدوں سے بھی نوازا گیا۔۔۔۔ جس سے کسی حد تک قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔۔۔۔ دوسری طرف حکمران طبقہ اتحادوں کی طرف بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔ لیکن ”ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔۔۔ دوسری طرف قلات نیشنل پارٹی کی کانفرنس کی بنیاد بھی زور شور پر شروع ہوگئی تھی یہاں سے میر غوث بخش بزنجو کی زندگی کا سیاسی سفر شروع ہوتا ہے جو علی گڑھ سے کراچی اور وہاں بلوچ لیگ کی جانب سے قلات نیشنل پارٹی کی کانفرنس میں شرکت کے لئے ”ینگ بلوچ لیگ“ کی نمائندگی کرتے ہوئے مستونگ کے اجلاس میں شامل ہوتے ہیں۔۔۔۔ یہ دور 1939ء کا تھا جو ملا میر یوسف عزیز مگسی نے چھوڑا تھا اُسے میر غوث بخش بزنجو کے کندھوں نے سنبھالا تھا۔

                 یوسف عزیز قبائلی سوچ کے خاتمے تعلیم کو سر عام کرنے کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا گوکہ اس دورانیے میں جامع اور وسیع پیمانے پر یوسف عزیز مگسی کے حوالے جتنا کرنا چاہئے تھا وہ نہیں ہوسکا۔ ایسے رہنماؤں کی سوچ فکر اور جدوجہد کو اجاگر کرنا اور انہیں عوامی حلقوں تک پہنچانا ہمارے دانشوروں اور ادیبوں کا کرداراور فرائض میں شامل ہیں اس سلسلے میں میں پروفیسر شاہ محمد مری اور ڈاکٹر سلیم کرد کی لکھی ہوئی کتابیں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔

یقینا ایسے رہنماؤں کو کون بھول سکتاہے‘ جو وطن سے دور رہ کر وطن کے لئے لڑتے رہے لندن کی جلا وطنی بھی میر یوسف عزیز مگسی کو اپنے وطن سے دور نہیں کرسکی محمد حسین عنقا سے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔

                ”مجبوری میں لندن جارہا ہوں‘ زندہ رہا دوبارہ آپ لوگوں کے درمیان ہوں گا۔ آپ لوگوں کے درد کو محسوس کرتا رہوں گا۔۔۔ زندگی بھر کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ 1923ء کو میں ملتان جلا وطنی 1930ء کو یوسف عزیز مگسی پر بغاوت کا الزام اور ان کی گرفتاری اور حالات ایسے پیدا کئے کہ دوستوں اور رقیبوں نے یوسف عزیز مگسی کو باہر جانے کے لئے مجبور کیا قلات میں شمس شاہ کی ظالمانہ حکمرانی نے یوسف علی مگسی کے لئے راہیں کھول دی تھیں جس نے قلم کو اپنا ہتھیار بنایا اور آواز بلند کرتے رہے 31 جنوری 1935ء کو میر یوسف عزیز مگسی کراچی پہنچے مگر اس نوجوان انسان کا وقت کم تھا چند مہینوں بعد 31مئی 1935 کوئٹہ میں زلزلے نے جہاں ہزاروں جانیں نگل لیں اور بہت بڑی ترقی پسند شخصیت یوسف عزیز مگسی سے ہم ہاتھ دھو بیٹھے جامعہ یوسفیہ تکمیل انسانیت‘ انجمن اتحاد بلوچاں‘ فریاد بلوچستان یوسف عزیز مگسی ایک ایسے دور میں ہم سے چلے گئے جن کی انتہائی ضرورت تھی۔ وہ 27 سال تک کی عمر میں بلوچوں کی تحریک اور جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں ترقی پسندانہ خیالات کے مالک کٹھن سرداری و نوابی اور جاگیرداری دور میں جس طرح وہ لیڈ کررہے تھے یقینا آگے چل کر مزید ابھر کر سیاسی دائرے میں شامل ہوکر حقوق کی اس جنگ میں نمایاں ہی رہتے لیکن وقت بھی ظالم ہے اور ”مادر وطن کا بہترین فرزند“ یوسف عزیز مگسی زلزلے کی نذر ہوگئے اس کے بعد بابا بزنجو کا سفر شروع ہوتا ہے یوسف عزیز مگسی اور عبد العزیز کرد کے بعد یہ جاری جدوجہد بابا بزنجو‘ ملک فیض محمد یوسفزئی‘ محمد حسین عنقا‘ میر گل خان نصیر‘ بابو عبد الکریم شورش و دیگر رفقاء کی شکل میں سامنے آئیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *