Home » پوھوزانت » قیدی شاخ کا کربلا ۔۔۔ نواز کھوسہ

قیدی شاخ کا کربلا ۔۔۔ نواز کھوسہ

قیدی شاخ کے کنارے آباد گاؤں نور محمد جمالی کا موجودہ نام میر گل موسیانی ہے کہ جمالی جاگیرداروں کی زمین زرعی اصلاحات کے تحت مقامی کسانوں کے نام کی گئی تھی۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ضیا شاہی کے آتے ہی یہ جاگیردار مارشل لاء کے حامی بن گئے۔ اور اپنی زمینوں کی واپسی کی کوشش شروع کردیں۔ نور محمد جمالی گاؤں اور آس پاس میں آباد مختلف قبائل نے جمالی جاگیرداروں کو آدھی بٹائی یا زمین کا قبضہ دینے سے انکار کیا۔ کسانوں نے اپنا رہنما میر گل موسیانی کو بنایا۔ جن کا تعلق زہری قبیلے کے پندارنی شاخ سے تھا۔ وہ چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ کسان اپنے حق کے لیے کورٹ میں گئے ان کے مقابلے میں جاگیردار اسٹنٹ کمشنر ٹیمپل ڈیرہ کے پاس جانے لگے۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ اسسٹنٹ کمشنر جاگیرداروں کے حق میں فیصلہ دیتے رہے اور بلوچستان ہائی کورٹ کسانوں کے حق میں آرڈر جاری کرتے رہے۔ (10)۔

جب ہر طرح کے قبائلی وریاستی دباؤ کے باوجود بھی ناکامی ہوئی تو جاگیرداروں نے روایتی جاگیردارانہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے میر ظفر اللہ جمالی کی قیادت میں جمالیوں کا ایک بڑا وفد جرگہ کی صورت میں سادات کے ساتھ مذکورہ گاؤں آیا اور کسان کے سرکردہ میر گل موسیانی کوپیش کش کی کہ وہ کسانوں کی نمائندگی چھوڑ کر یہاں سے نقل مکانی کر کے جائے اور بدلے میں اُسے کسی اور جگہ زمین دی جائے گی۔ میر گل نے اس دھمکی آمیز پیشکش کو بہادرانہ انداز میں ٹھکرایا۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر آفیس میں جاگیرداروں نے کسانوں کو بلایا۔ جاگیرداروں اور ڈپٹی کمشنر کی مشترکہ دھمکیاں بھی کارگرنہ ہوئیں کسان بدستور اپنی بات پہ ڈٹے رہے کہ زمین کا قبضہ نہیں دینا ہے۔ پھر جاگیرداروں نے آخری حربہ استعمال کیا۔ ظفر اللہ جمالی مسلح لوگوں کے ساتھ ایک سید لے کر مذکورہ گاؤں آیا۔ پیر صاحب نے کسانوں کو سمجھایا کہ میں جانتا ہوں۔یہ زمینیں خاندانی طور پر جمالی قبیلے کی ہیں، خُدا نے ان کو دی ہیں۔ آپ بھٹو کے کہنے پہ جس کی حکومت اب ختم ہوچکی ہے۔ اپنے بھائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ اور ایک کاغذ کے ٹکڑے کی بنیاد پر اپنے بڑوں (جاگیرداروں) سے بغاوت کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ جرگہ میں فیصلہ کرو۔ ہمارے فیصلے عدالتوں اور قانون کے ذریعے نہیں ہوتے بلکہ بلوچی رسم و رواج کے مطابق ہوتے ہیں۔ میں اور میر ظفر اللہ جمالی تمہارے پاس آئے ہیں میڑھ لے کر۔ اس پر کسانوں نے سیّد بادشاہ کو جواب دیا کہ اب جبکہ ہائی کورٹ نے فیصلہ ہمارے حق میں دیا ہے اس لیے اب ہم نہ جرگہ کریں گے اور نہ ہی جمالیوں کو زمین واپس دیں گے۔ اس موقع پر مُسلح جمالیوں اور گاؤں والوں کے درمیان تکرار ہوگئی۔ اسلحہ نکل آیا۔ ظفر اللہ جمالی اور پیر صاحب یر غمال بن گئے۔ ڈپٹی کمشنر نصیر آباد ملک سرور اطلاع ملنے پر BRPکو ساتھ لے کر سفید جھنڈا لہراتا ہوا آیا اور ظفر اللہ جمالی کے مسلح گروہ کو حفاظت باہر نکالا (11)۔

اس ناکامی نے جاگیرداروں کو رسوا کر کے رکھ دیا۔ وہ کسی اور منصوبے پہ سوچنے لگے۔ آخر کار منصوبہ بنا بھی لیا۔ اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے 20دسمبر1977کا انتخاب کیا گیا۔ یہ اسلامی مہینے محرم الحرام کی 9تاریخ تھی۔ جاگیرداروں کو معلوم تھا کہ 9اور 10محرم الحرم کو لوگ اپنے مرحومین کے قبرستانوں پہ جاتے ہیں۔ اس لیے میدان خالی ہے۔ جمالی جاگیرداروں کے تیار کردہ تین سو  کے قریب افراد پر مشتمل مسلح لشکر نے گاؤں کا محاصرہ کیا۔ کسانوں کا رہنما میر گل موسیانی رشتے داروں سے ملنے شہدادکوٹ گیا ہوا تھا۔ دیگر کافی لوگ ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں گاؤں سے باہر گئے ہوئے تھے۔ وہ سب باہر ہی رہ گئے۔ گاؤں میں موجود مرد عورتیں بوڑھے بچے محصور ہوگئے۔ پانی کا تالاب بھی مسلح افراد کے قبضے میں تھا۔کسانوں نے انتظامیہ سے مدد کی درخواستیں کیں مگر نا کامی ہوئی کیونکہ انتظامیہ جاگیرداروں کے ساتھ تھی۔ کچھ کسان چُھپ چُھپا کر آس پاس کے گاؤں کے کسانوں کے پاس آگئے۔ اور انہیں احساس دلایا کہ اگر ہمارے گاؤں پر جاگیرداروں کا قبضہ ہوگیا تو پھر آپ لوگ بھی محفوظ نہیں رہ سکو گے۔ اس پر آس پاس کے مختلف قبائل کے لوگ اسلحہ لے کر میدان میں آگئے۔ اس طرح لشکری بھی محاصرے میں آگئے۔ فائرنگ شروع ہوگئی۔ 21اور 22دسمبر1977کی درمیانی رات میدان جنگ بنی رہی۔ گاؤں کے اندر محصور کسانوں کی گولیاں ختم ہوگئیں۔ گاؤں سے باہر کسانوں کے ایک گروہ جن کی گولیاں ختم ہوگئی تھیں۔پر سامنے سے جاگیرداروں نے گولیاں چلا دیں۔ رحمت اللہ لہڑی، عبدالحق لہڑی، اور ان کا بھانجا زرک جان لہڑی موقع پر شہید ہوگئے۔عبداللہ لہڑی اور عبدالکریم رخشانی راستے میں شہید ہوگئے۔ خدا بخش، رحم دل اور بارہ نے BRPکی بھاری نفری کے ہمراہ میدان میں آئے لاشیں اٹھائیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا(12)

اس کے بعد انتظامیہ نے کسانوں کو گرفتار کیا۔ زمین اور تیار فصلوں پر لیویز کے سپاہی بٹھادیئے۔ رپورٹ میں ظفر اللہ جمالی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری ظاہر کی گئی تھی مگر عملاًان کی گرفتاری نہیں ہوئی۔

 

حوالہ جات

۔1۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر18۔

۔2۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر18۔

۔3۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر19۔

۔4۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر21۔

۔5۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر21۔

۔6۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر22۔

۔7۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر26۔

۔8۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر27۔

۔9۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر33۔

۔10۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر33۔

۔11۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر39۔

۔12۔ محمد رمضان میمن”پٹ فیڈر کسان تحریک“ صفحہ نمبر42۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *