Home » پوھوزانت » حرف میں حنوط محبت….محسن شکیل

حرف میں حنوط محبت….محسن شکیل

آرٹ کا ایک دریچہ حرف و معنی کے توسط سے شاعری کی جانب آکھلتا ہے ۔ شاعری جو اپنی نہاد میں حیرت اور استجاب کی بلیغ و بامعنی تہہ داری سے کئی سمتوں کے سراغ کا استعارہ بن جاتی ہے، انسانی شعور کے لطیف ترین ابعاد کا ایک ایسا اشاریہ ہے جو وجدان سے آمیز ہو کر اپنی معنویت خود متعین کرتی ہے۔ موضوعات، اصناف ، آہنگ، ترتیب وغیرہ اِس کی تخلیقی جہات کے مختلف عنوان ہونے کا سلیقہ و تہذیب ہیں۔ اِسے قرطاس پر بکھیرنے والا جب اپنی ذات سے نکل کر دوسرے انسانوں کے دکھ درد کا شریک بن جائے تو فنکارانہ حدود کی وسعت کا اعتبار پاتا ہے۔ عبدالرحمن غور ایسے ہی معتبر لکھنے والوں میں بلوچستان کا باتوقیر حوالہ بن کر سمت نمائی کی منازل کے نقیب ٹھہرتے ہیں۔
بلوچستان کے ادبی منظر نامہ میں عبدالرحمن غور کی شعری تصنیف ” متاع بردہ“ ایک خصوصی حوالے کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ جس کا ابتدائیہ فیض احمد فیض کا رقم کردہ ہے۔ فیض صاحب لکھتے ہیں ” غور صاحب شعوری طور سے ترقی پسند اور بامقصد کاوشِ سخن کرتے ہیں ۔ ہر چند غور صاحب کی زبان مرصع اور طریق اظہار رشستہ ہے لیکن وہ بنیادی طور سے عوامی شاعر ہیں اور ان کاروئے سخن اسی طبقے کی جانب ہے جو ان کی طرح درد آشنا ہے “۔
عبدالرحمن غور جیسے لکھنے والے جو لذت ِ درد سے آشنا ہونے کے منصب پر اپنی پوری سچائی ، لگن اور خلوص سے فائز اور متمکن رہتے ہیں، ہم سب کے احترام کی علامت ہیں۔ غور صاحب نے دھیمے اور کومل انداز میں ادبی، سماجی ، ثقافتی اور سیاسی احساسات کو برتا ۔ ایک امید افزا صبح کے انتظار میں تقریباً ہم سب نے داغ داغ اجالے کی سحر دیکھی۔ خواب کی تعبیر الجھ کر رہ گئی لیکن غور صاحب جیسے مثبت تخلیقی سوچ اور ذہن رکھنے والے صاحبِ دل نے امکانات کی کھڑکی کو تازہ ہوا کے لےے کھلا رکھا۔ مایوسی کو تخلیق کے دائرے میں لا کر حرف و معنی سے انسلاک کرتے ہوئے بے معنویت کو کوئی معنی پہناتے رہے کہ خواب دیکھنے والوں کی سرشت میں حسن اور سچائی باہم آمیز رہا کرتی ہے۔ انفرادی احساس ، اجتماعی شعور کو چھولے توانسانوں کے لےے نئے اور تازہ دریچے وا ہوا کرتے ہیں۔ تازہ استعارے اور شعری پیکر انسانی فکر و دانش کی وسعت کے غماز ہوتے ہیں، عبدالرحمن غور کے شعری پیکر بلوچستان کے خاکی رنگوں کو نمایاں کرتے ہیں، یہ رنگ غور صاحب نے اپنے اشکوں کے پانی سے گہرے کےے ہیں۔ خاک میں آب ملے یہ رنگ ہمارا گردوپیش ہیں۔
عبدالرحمن غور کے آنسو مختلف اصناف ادب کا لبادہ لے کر ہم سب کی انکھوں سے ٹپکتے محسوس ہوتے ہیں۔ان کی غزل میں داستان ِ گل و بلبل کی روایت سے جذبہ ہم تک منتقل ہوتا ہے اور نظم میں بیان کی کچھ اور وسعت نمایاں ہوتی ہے، دکھ دونوں میں یکساں ہے۔
محبت میں من و تو کی لو لیتی اپنے حسن کے اظہار کی اک وسعت سمیت جب اجتماعی روپ میں ڈھل جائے تو اس آئینے کی قدر افزائی عبدالرحمن غور ایسے شعرائے کرام اپنے بھرپور تخلیقی تجربے سے کرتے ہیں۔
” متاع بردہ“ میں اک جانب پسے ہوئے محروم طبقات کا نوحہ اپنی پوری شدت اور سچائی سے گونجتا ہے تو دوسری جانب سنجیدہ واردات ِقلبی کی زیریں رومانوی لہریں بھی قاری کو اپنے ساتھ محوِ سفر رکھتی ہیں۔لیکن عبدالرحمن غور کے یہاں یہ بیانیہ بھی اپنے احساس میں تبدیلی کے شعور کا پیراہن لےے ہوئے ہے۔ اظہار کا یہ دھیما پن اپنے آپ میں ایک شعلہ سا لےے محسوس ہوتا ہے۔ اِس دھیمی آنچ میں عبدالرحمن غور کسی پروانے کی طرح جاں سپاری کے جذبے سے کومل احساس کو اپنے تخلیقی تجربے سے آمیز کرتے ہیں۔
فنکار جس قدر تجربات کی بھٹی میں کندن بن کرصیقل ہوتا ہے اس کا پیرائیہ اظہار بھی اسی طرح بالیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ شعور کی یہ بالیدگی جب حرف و معنی کے جہان میں نمو پاتی ہے تو ایک تہذیب خود بخود بیان میں در آتی ہے۔ ’متاع بردہ‘ میں عبدالرحمن غور کی شستہ و شائستہ زبان، ان کی طبع رواں کو وسعت اور شادابی عطا کرتی ہے سو ان کے تحریر کردہ حرف کا ہر اک پھول اِسی خوشبو سے معطر لگتا ہے۔
حروف میں محبت حنوط کر لینے کی سعی ہر شاعر و ادیب کی ترجیحات میں اولیت کا درجہ رکھتی ہے ۔ اِس تسبیح کو دانہ دانہ شمار کرنا اِن کے شب و روز کا افتخار ہوا کرتا ہے۔ عبدالرحمن غور اِس افتخار کو اپنی وارفتگی سے مزید بلند تر کرلیتے ہیں۔ اِس وجد میں اِن کے قلم نے جو موضوع بھی تراشا بین السطورمحبت ہی تحریر کیا ہوا نظر آیا ۔ تمام حساس لکھنے والوں کی طرح بنیادی طور پر محبت ہی ان کی شاعری کا پس منظر بھی ہے اور پیش منظر بھی۔ اِسی کے پھیلاﺅ سے مختلف موضوعات کے اداس شعری پیکر اِن کی شاعری میں اپنا عکس نمایاں کرتے ہیں اور اِس آئینہ میں عبدالرحمن غور کی ذات اپنا صاف شفاف عکس لےے ہمیں نظر آتی ہے۔ الفاظ کی لو لینے جب یہ وجد قرطاس پر اترنا ہے تو ’ متاع بردہ‘ کی ایسی تجسیم ہمارے سامنے آتی ہے جس میں شاید ہم ’ آپ‘ سب مجسم ہوجاتے ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *