Home » شیرانی رلی » تنویر انجم

تنویر انجم

او میرے خدا!۔

کامنی رائے

(بنگالی)

اوہ میرے خدا!۔

تو جانتا ہے، صرف تو

کتنا بے لطف ہے عورتوں کے لیے

سرما کی راتوں میں

تنہا آتشدانوں کے پاس

ساکت بیٹھے رہنا

اور دور کہیں قوموں کو

اپنے قصیدے پڑھتے ہوئے سننا

اس کی آواز

                ادیتی راؤ

اس کی آواز اس کے معدے میں

بلند تر ہوتی گئی

ایک دن پھٹ پڑی

دیوار کو چکنا چور کردیا

برگد کی جڑ میں بیٹھ گئی

ہم سب نے اسے واپس

اس کے حلق میں اتارنے کی کوشش کی ہے

اس نے مستقل انکار کیا ہے

۔(نظم ”مرد نہ ہونے پر میرا خون اس طرح بہتا ہے“ سے اتنباس)۔

ایک دوسرا سیارہ

                دنیا میخائل (عراقی)۔

میرے پاس ایک خصوصی ٹکٹ ہے

زمین سے ادھر

 ایک دوسرے سیارے کا

ایک آرام دہ دنیا، اور خوبصورت

ایک دنیا دھوئیں کے بغیر

زیادہ گرم نہیں

اور زیادہ سرد نہیں

اور مخلوقات وہاں

زیادہ نرم خوہیں

اور حکومتوں کے پاس

کوئی راز نہیں ہیں

پولیس کا کوئی وجود نہیں

وہاں کوئی مسائل نہیں

اور نہ لڑائیاں

اور اسکول بچوں کو

بہت زیادہ کام سے

تھکا نہیں مارتے

کیونکہ تاریخ کا ابھی آغاز ہونا ہے

اور جغرافیہ نہیں ہے

اور دوسری زبانیں نہیں

اور بہتر بات یہ ہے

کہ جنگ

اپنے گاف  کو پیچھے چھوڑ آئی ہے

اور محبت میں تبدیل ہوگئی ہے

تو پھر ہتھیارمٹی کے نیچے

پڑے سوتے ہیں

اور طیارے

شہروں پر بمباری کیے بغیر

گزرتے ہیں

اور کشتیاں پانی پر

مسکراہٹوں کی طرح دِکھتی ہیں

تمام اشیا

پُر امن ہیں

اور مہربان

اس زمین سے پرے

دوسرے سیارے پر

لیکن پھر بھی میں

تنہا جانے سے

ہچکچارہی ہوں

                جیا پرا بھا (تلوگو)۔

میرے پاس اداؤں کی، نازک شش پنج کی فراوانیاں نہیں

ہوشیاری برتنے کی کوئی ضرورت نہیں

میرے لمبے بالوں کی چوٹیوں کو

پرشوق انداز میں چھونے کی ضرورت نہیں

طوطوں کے ذریعے پیغامات بھیجنے کی ضرورت نہیں

میں خود تمہارے پاس آؤں گی

باہر تک چھلکتی نرماہٹ کے ساتھ تم سے لپٹ جاؤں گی

مساویا نہ آزادی کے ساتھ تمہارا بوسہ لوں گی

اور تمہارے جسم کو اپنے بازوؤں میں لپیٹ لوں گی۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *