Home » کتاب پچار » عورتوں کی آزادی کا مینی فیسٹو

عورتوں کی آزادی کا مینی فیسٹو

                کتابچہ:  محنت کش عورت

                مصنفہ:  کروپسکایا

          ترجمہ:  ڈاکٹر شاہ محمد مری

                صفحا ت: 45

                قیمت:  50روپے

                 مبصر:  عابدہ رحمان

                اس کتاب کے تبصرے سے پہلے میں عورت کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں چند فقرے لکھوں گی۔ ہمیں اکثریہ سننے کو ملتا ہے کہ عورت ہمیشہ سے مظلوم و محکوم رہی ہے۔یہ بات بالکل ٹھیک نہیں کیونکہ ابتدا میں مادر سری نظام تھا اور عورت ایک حاکم کے بطور زندگی گزار رہی تھی۔ پورے خاندان کے فیصلے عورت ہی کرتی تھی۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری اپنی کتاب ’بلوچ، مہر گڑھ سے تشکیل ِ ریاست تک‘  میں لکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے کام ہیں جن کے آغاز کا کریڈٹ عورت کو جاتا ہے۔ زمین جوتنا، اناج پیسنا،خوراک تیار کرنا، دھاگہ بنا کر لباس تیار کنا، برتن اور زیورات بنانا، آگ کو محفوظ کرنا، باغبانی کرنا۔ خاص طور پر زراعت کی ابتدا اس نے کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران عورتوں کی قبروں سے ملنے والی اشیا درانتی، آٹا پیسنے کا پتھر، چمچے، تکلا وغیرہ ان دیو مالائی قصوں کو خاصی حد تک سچا ثابت کرتے ہیں۔ زرعی معاشروں میں عورت زراعت کی ابتدا کرنے کی وجہ سے زرخیزی کی علامت بن کر ابھری“۔لہذا یہ تو طے ہوا کہ ابتدائی حاکم عورت تھی، مردنہیں۔

                سماج میں طاقت اور توازن کب عورت کے ہاتھ سے نکل کر مرد کے ہاتھ میں منتقل ہوا؟ یہ بات ہے ۰۰۰۵ سال ق م کی جب مادر نسبی اور اشتراکی نظام کے اس آخری مرحلے میں چاک سے برتن بننا شروع ہوتے ہیں۔اسی زمانے میں سماج میں اونچ نیچ کا آغاز ہوتا ہے۔

                یہاں ہم اب یہ کہیں گے کہ عورت ہمیشہ سے تو نہیں لیکن ایک طویل عرصے سے ایک محکوم کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہے۔ اور زیرِ نظر کتابچہ ’محنت کش عورت‘ میں کروپسکایا عورت کو اس کی پرانی حیثیت کے حصول کے اصول بتاتی ہے۔ کتابچے کے تعارف میں وہ لکھتی ہے کہ ’فیکٹری کی مزدور عورت نے اس امید کو ترک کر دیا اور اب خود ان چابیوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ وہ عورت ان چابیوں کو کہاں تلاش کرے! ’مسرت کی چابیوں کو، آزادی کی پر مسرت خوشیوں کو…… یہ کتاب بالکل یہی بتاتی ہے۔

                چاہے بھٹوں میں اینٹیں بنانے والے مزدور ہوں یا پھر نیلے سمندر سے مچھلیاں پکڑنے والے ماہی گیر یا پھر زراعت ہو سب ہی جگہ عورت مرد کے ساتھ ساتھ اور کبھی تو اس سے زیادہ کام کرتی ہے۔ زمین پر ہل چلانے سے لے کر فصل کی کٹائی تک عورت مرد کے ساتھ ہوتی ہے۔ لیکن یہ مزدوری ان کی ضروریات پوری نہیں کرتی لہٰذا ہر جگہ ہی مالکان سے نہ ختم ہونے والے قرضے لیے جاتے ہیں اور قرضے ادا نہ کر پانے کے جرم میں ساری زندگی نسل در نسل غلام ابنِ غلام، مزدور ابنِ مزدور پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں عورت کی حالت مرد کی نسبت زیادہ دگرگوں ہوتی ہے کہ وہ ایک تعفن زدہ ماحول میں، کم خوراک میں، صحت کے ناقص حالات میں کمزور بچے جن کر خود ایک چلتے پھرتے ہاسپیٹل کی صورت زندگی گزارتی ہیں۔ کاٹج انڈسٹریز میں مزدوری میں پیداوار کا بڑا حصہ مڈل مین لے جاتا ہے۔

                کروپسکایا کہتی ہے کہ غربت کے مقابلے کے لیے وہ شہروں کا رخ تو کرتے ہیں لیکن عورت کی حالت وہاں بھی بدتر ہی رہتی ہے کہ بہت سی ملوں میں ان سے اٹھارہ گھنٹے کام تو لیا جاتا ہے لیکن اسے مرد کی نسبت کم اجرت ملتی ہے اور یوں وہ عصمت فروشی پر مجبور ہو جاتی ہے۔ جس کے اصل ذمے دار عورت نہیں بلکہ یہ آدم خور سسٹم ہے۔ منافع خور مالکان کو مزدور اور پھر مزدور عورت کی خوش حالی سے کوئی لینا دینا نہیں،بس مزدور عورت اپنے لیے نہیں بلکہ مالکوں کے لیے کام کرتی ہے۔

                کروپسکایا نے ا س کتابچے میں عورت کے مسائل بتا کر اسے یا قاری کو بس پریشان نہیں کیا بلکہ اسے آگے جا کر اس کا حل بھی بتایا۔وہ عورت کی معاشی طور پر آزادی کو اس کی شخصی آزادی کہتی ہے کہ اگر عورت اپنی ذات کے لیے اپنی ضروریات کے لیے خود پیسہ کمائے تو وہ مرد کی حاکمیت کے دائرے سے نکل جاتی ہے۔ اور میرے خیال سے کتابچے کا ’پنچ فقرہ‘ میں اسی کو کہوں گی۔کیونکہ مزدور کو تو جو بھی مسائل ہیں اپنی جگہ، لیکن عورت مزدور کو یہ دوہرا مسئلہ درپیش ہے کہ مرد چاہے جس شکل میں بھی ہو اس کو جواب دہ ہونا ہوتا ہے، اور معاشی آزادی عورت کواس قدر آزاد کرتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی  یا علیحدگی بھی کر سکتی ہے۔

                وہ سوشلسٹ نظام کو ہی عورت کی آزادی کی ضمانت سمجھتی ہے اور اس کے لیے کروپسکایا کے خیال میں تمام مزدوروں کو بشمول عورت کے منظم ہونا پڑے گا۔ کروپسکایا یہاں مزدوروں کو تنبیہہ کرتی ہے کہ سوشلسٹ نظام لانے کے لیے مردوں اور عورتوں دونوں کو ہی ساتھ دینا ہوگا۔ دونوں کو ہی منظم ہونا ہوگا کیونکہ اگر صرف مرد یہ کام کریں گے تو اس کا مطلب ہے آدھی آبادی تو بے کار ہوئی اور دوسری طرف عورت مزدور پھر رکاوٹیں بھی ڈال سکتی ہے۔

                بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کہتی ہے کہ یہاں کا نظامِ تعلیم وہ ہے کہ اساتذہ نئی نسل کو دوسری قوموں کی آزادی کاراز پہنچنے نہیں دیتے، سچ کو پوشیدہ رکھتے ہیں لہٰذا سکول کے بعد بھی وہ کورے ہی رہتے ہیں جیسے کہ وہ اساتذہ اور والدین خود۔ اور پھر مہنگائی الگ اور اس طرح چھوٹی عمر میں ہی بچے مزدوری شروع کے کمانے کے قابل ہو کر والدین سے دور ہو کر آزاد ہو جاتے ہیں۔

                فیکٹری قوانین بھی مالکان کی اپنی مرضی کے ہوتے ہیں اور عورت اس میں پستی رہتی ہے۔

                کتابچے کا اختتام کروپسکایا چند ضروری نقاط پر کرتی ہے۔ جس میں سب سے پہلی بات اس نے یہی کی کہ عورت کو ہر صورت معاشی طور پر آزاد ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ انڈسٹریز میں ہیلتھ اور سیفٹی پروٹیکشن مہم، عورت مزدور کے لیے اوقاتِ کار آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ ہوں، گھر کام لے جانے کی ممانعت ہو، بچے کی پیدائش میں آٹھ ہفتے کی چھٹی ملے، گاؤں کی مزدور عورت اور نوکرانی کے لیے ہیلتھ اور پروٹیکشن قوانین ہوں، مرودوں اور عورتوں کو مساوی معاضہ دیا جائے۔ اور اس سب کے حصول کے لیے وہ سیاسی جدوجہد ہی کو ضروری سمجھتی ہے۔

                میں تو اس کتابچہ کو پڑھنے کے بعد اسے ’عورت کی آزادی کا مینی فیسٹو‘کہوں گی۔ میری نظر میں سب کو اور خاص طور سے تمام عورتوں کو یہ ضرور پڑھنا چاہیے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *