Home » پوھوزانت » امین کھوسہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

امین کھوسہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

یہ باکمال آدمی اپنے دیگر کمٹڈ ساتھیوں سمیت شب وروز کی طویل محنت کرتا ہے۔ اور یوں یہ لوگ اپنی سیاسی پارٹی ”آل انڈیا بلوچ کانفرنس“ قائم کرتے ہیں۔ پھر اپنے ایک رفیق (یوسف مگسی)کے ذریعے مگسی قبیلے کے اندر شاندار معاشی سماجی اور سیاسی اصلاحات کرنے میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اس کے دو تین ماہ بعد حیدر آباد میں پارٹی کی تین روزہ کانفرنس ہونے والی ہے۔ لہذا تیاریاں زوروں پہ ہوتی ہیں۔ دورے، خطوط، پیغامات، بھاگ دوڑ۔۔ سب لوگ اسے کامیاب بنانے کو جُتے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں امین اپنے قلم کو بھی ذہن سازی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس نے درج ِذیل مضمون اسی سلسلے میں لکھا تھا۔

”بلوچستان اور حکومت“کے عنوان سے محمد امین کھوسہ بلوچ بہت باریکی سے ہمارے سماج کا مطالعہ کرتا جاتا ہے۔ اُس نے سامراج دشمنی اور سردار مخالفت کے اپنے اٹل موقف کو علامہ اقبال کے کلام میں لپیٹ کر بہت خوبصورت نثر میں بیان کیا۔ کھوسہ صاحب کا یہ مضمون 21اکتوبر 1933کے ہفت روزہ ”البلوچ“ میں چھپا تھا۔

 

 

ازغرور  ونخوت و  کبر و  منی

طعنہ برناداریِ مامیزنی

کشتِ حق سیراب گشت ازخون ما

حق پرستانِ جہاں ممنون ما

 

میں گذشتہ عزت وعظمت کی داستانیں بھانڈوں کی طرح گا کر سنانے کا قائل نہیں اور نہ ”پدرم سلطان بود“ کا دلفریب جملہ میرے نزدیک قابل وقعت ہے۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے آنکھ کو کسی گذشتہ ”شاندار منظر“دکھانے میں مشغول رکھنا موت کی اولین نشانی ہے، اپنے دادا کی بہادریوں کے تذکرے، ان کی بیباکیوں کے افسانے یاد کر کے اپنے دل کو غمگین بنانے اور ”انجمن“ کو”افسردہ  بنانے کی خاطر چھیڑنا نا مردانگی کا بہترین نسخہ ہے

حریفاں بادہاخور دندورفتند

تہی خُم خانہاکردند ور فتند

کہہ کر خاموش ہونا۔کیسا بھیانک منظر ہے!

لیکن میرا ایمان اس پر ضرور ہے کہ ”یاد ِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے“‘ اور میں بغیر جھجک کے کہتا ہوں کہ میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے“لوگ (میرے ہم وطن) اس میرے قصہ ِپارینہ کے دہرانے سے تنگ آگئے، وہ میرے اس کہنے سے گھبرا گئے کہ

عجمی خم ہے تو کیا،مئے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا لے  تو حجازی ہے مری

وہ کہتے ہیں یا اللہ یہ ہے کیا کہ ترکستان میں کچھ ہوتا ہے تو بلوچستان کے کسی گمنام گوشہ میں بسنے والا مسلم تڑپ اُٹھتا ہے، فرنٹیئر میں ذرا شور ہوا تو علی گڑھ کا لج میں پڑھنے والا طالب علم بیتاب ہوجاتا ہے، کہیں محمدؐ کے شان کے خلاف ایک لفظ سُنا نہیں  یہ لوگ اس پر جاکر ٹوٹ پڑتے ہیں!۔وہ متعجب ہیں کہ ان مستوں کی آخر مستی کیسی کہ زمانہ کے تغیرات وتبدلات اس میں فرق نہیں لاسکتے۔

پربھو! بھگوان! پرماتما! یہ مسلم اول مسلم آخر کا ترانہ جو آئے وقت ان کی زبانوں سے نکل کر فضائے دہر میں غلغلہ فگن ہوتا ہے، کیا مطلب رکھتا ہے اور اس ”گیت کے معنیٰ کیا؟۔ کیا ابھی تک یہ عرب کو نہ بھول سکے؟ کسی دل جلے بھائی بند نے توتنگ آخر کہہ دیا کہ ”شب ور وز مسلم ہیں ہم مسلم ہیں ہم“ کی رٹ نے ہمارے کان بہرے کردیئے! ہندوستان کو اپنا نہیں سمجھتے تو چلتے کیوں نہیں بنتے؟۔ یہاں سے جلد رخصت سفر باندھ کر حجاز کا راستہ پکڑلیں۔

ان سب اعتراضات کا جواب نہایت انکسار سے دیتا ہوں۔

ہم نشیں مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں

اس صداقت پر ازل سے شاہدِ عادل ہوں میں

دہر میں غارت گرِ باطل پرستی میں ہوا

حق تو یہ ہے حافظ ِناموسِ ہستی میں ہوا

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی ترقی اور آزادی کا راز ہی اس چھپا ہوا ہے کہ مسلمان کے داغہائے سینہ میں نشتر چبھودیا جائے تاکہ اپنے جگر کے ٹکڑے بہتے ہوئے خون کی صورت میں دیکھ کر اسے اپنی عزت ِگذشتہ کا احساس ہوا۔ایک دفعہ جب مسلمان اُٹھا تو پھر اسے سُلانا مشکل ومحال۔

ہندوستان کی قومی تحریک کے پچاس سالہ زندگی کا مطالعہ کیجئے اور مرد مومن کی قربانیاں ذہن نشین کیجئے، کیا نہ کیا اس نا دار قوم کے افراد نے؟۔ جیل میں گئے جرمانے ادا کئے، حتیٰ کہ وطن ترک کیا۔

دشت تو دشت  ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحرِ ظلمات میں دوڑ ادپے گھوڑے ہم نے

آج اگر ہندوستان کو سوراج نہیں ملتا تو اس لیے نہیں کہ مسلمان قوم نے ٹوڈیت کو اپناشیوہ بنا لیا۔ ممکن ہے کہ چند افراد ایسے ہوں جو سری اور خان بہادری پر دین ایمان بیچتے ہوں، لیکن مسکین مسلمان تو پکار کر کہتے ہیں

”نہ سلطان کنیم آزر ئے در ہے۔

مسلمانم وز گل نہ سازم الا ہے

سوراج اس لیے نہیں ملا کر آپ کی تحریک سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں تھی جس سے کئی برلاؤں،ٹنڈنوں اور ٹھا کروں نے پیسہ کمایا!۔میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو قوم آج مر وہ نظر آرہی ہے وہ حقیقت میں، مردہ نہیں، بلکہ اس قوم کے ہر فرد میں مرنے کی تڑپ ہے اور ہر ایک نے اپنے تِن خاکی میں راہِ حق پر قربان ہونیوالی جان پیدا کی ہوئی ہے، اُسی قوم کا جو یوپی میں بستی ہے۔ بہار میں بستی ہے، بنگال میں بستی ہے، پنجاب میں بستی رہے، ایک حصہ ہے بلوچستانی قوم!۔نہیں میں تو کہوں گا کہ وہ قوم جو مردِ بیمار کہلاتی ہوئی بسترِ مرگ سے اُٹھ کر دشمن کا گلا گھونٹ لیتی ہے اس ترکی قوم کا جز ہے بلوچستانی!۔کیونکہ ہر حصہ کے مسلمان میں وہی جذبات ہیں جو دوسرے حصے کے مسلمان کے دلوں میں موجزن ہیں، اس جذباتی حس اور طبعی یکسانیت کو مکمل طور پر مٹانا ناممکن ہے، ملک جدا ہو، لباس علیحدہ ہو، زبان مختلف لیکن ذہنیت ایک”چمن زادیم و ازیک شاخساریم“۔ ترکستان مردہ ہے؟ نہیں۔ تو یقین مانیے کہ بلوچستان مردہ نہیں، آج ترکستان آزاد ہوا، کل مصر خود مختارہوگا، پرسوں افغانستان انگریز کے تسلط کو مکمل طور پھینک ڈالے گا، اس طرح ہندوستان بھی!!

میں نے شروع میں ہی لکھا تھا کہ تاریخ کو داغہائے سینہ کو تا زہ کرنے کے لیے ہی دہرانا چاہیے۔بلوچستان کے موجوددورِ نیم بیداری کو چکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان سب سے پیچھے ہے۔۔پہلے تو یہ سوال سر ے سے ہی غلط ہے جیسے اوپر لکھا گیا ہے، لیکن دور کیوں جائیے ، خود بلوچستان کی تاریخ پر نظر ڈالیے۔ بہت عرصہ نہیں ہوا، جبکہ میری قوم کے بہادر سپاہی انگریز کے تبرو تفنگ توپ و تلوار کے آگے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہوگئے، ملک میں نہ غلہ نہ سامان جنگ لیکن جب وہ میدان میں آگئے تو انہیں کون روک سکتاتھا۔ ایک قبیلہ، ایک فرقہ ایک حصہ اس بہادری سے لڑا کہ دیکھنے والے حیران ہوگئے۔ بلوچستان کی دیگرسب قومیں ان کے خلاف نہیں سب سردار حکومت کی مددو اعانت کے لیے آگے بڑھے لیکن اس کا اثر اس پر کچھ نہیں پڑا۔ ایران کی سرحد پر بلوچی علاقہ ہے وہ کس طرح ایک حکمران کی طاقتوں کا مقابلہ مردانہ وار کر رہے ہیں، یہ ہم سے پوشیدہ نہیں۔ تحریک مگسی کی کامیابی کی بالکل انوکھی اور تازہ مثال ہمارے سامنے ہے، اس تحریک کا بانی ایک نوجوان بلوچ باصلح وامن قوم کو چلانے میں کامیاب ہوگیا۔کوئی کشت وخون نہیں، کسی قسم کا تشدد نہیں، آخر یہ سمجھنے والوں کے لیے اشارے نہیں؟۔

چشمِ عبرت بکشائے،اگر چشم ِتو صاحب ِنظر است

زندگی درپئے تعمیرِ جہانِ دگراست

مگسی قوم نے تو ایک ایسی مثال قائم کی جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح چاہے قوم کو ایک قائد پھرا سکتا ہے۔ جنگ مری اس بات کی شاہد ہے کہ حکومت کے رعب واقتدار سے دب کر رہنے والے اگر ہیں تو یہی جو جرگہ ہال میں جمع ہوجاتے ہیں، اور دنیا کے سامنے اپنے آپ کو سردار  کے نام سے پیش کرتے ہیں، ور نہ کٹ جانا اور مرجانا ان بلوچستانیوں کا روز مرہ کھیل ہے۔

لیکن باوجود اس کے اور ان سب امور سے واقف ہونے کے حکومت کا رویہ سخت مایوس کن ہے۔ ہر معاملہ میں وہ بڑھتے ہوئے جوش کو دبانا چاہتی ہے، اور یہ بڑی غلطی ہے۔ اگر وہ بلوچ اور پٹھانوں کے امتحان لینے کا ارادہ رکھتی ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ بلوچستان ان ساٹھ ستر سرداروں کا نام نہیں جو اُن کے پنشن خوار ہیں، ان کے علاوہ بھی انسان بلوچستان میں موجود ہیں جو شاید اتنے بیہوش نہیں جیسے کہ ان کو سمجھا جا رہا ہے۔

ہاں حکومت یہ بھی اچھا کر رہی ہے کہ بغیر کسی قسم کے سعی ومظاہرہ کے بلوچستانیوں کے حقوق تسلیم نہیں کرتی، کہ بلوچستان اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے بھی کچھ نہ کچھ قربانی کریں یعنی ان میں سے بھی ایسے نکل پڑیں جو بم باری کا شکار بنیں۔ کیونکہ پہاڑوں میں رہنے والوں سے وحشت ہی کی توقع کی جاسکے گی،نہ کہ تہذیب کی۔

میں مستقبل کے اس منظر کی خوفناک جھلک دیکھ رہا ہوں جس میں بلوچستانیوں کے سینوں پر گولیاں چل رہی ہونگی، لیکن سینوں کے اندر کے نورِ ایماں سے نہ رکنے والی شعاعیں میں بلند ہوتی ہونگی۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *