Home » شیرانی رلی » اسامہ امیر

اسامہ امیر

شبِ شکست تماشائے رنگ و بْو بھی نہ تھا

اور اس پہ دادِ ستم یہ کہ یار تْو بھی نہ تھا

اجل نہ تھی وہ کوئی خوف تھا مْسلسل خوف

لبِ سکوت کوئی حرفِ آرزو بھی نہ تھا

مجھ ایسے خانماں برباد آدمی کے لئے

نہ تھا پیالہ ء مے، نغمہ ء سْبو بھی نہ تھا

کوئی تو بات بہ ظَاہر نہیں تھی لیکن تھی

وہ آئینہ سا بدن آج روبرو بھی نہ تھا

ہر اک کی چشمِ سیہ دیکھ کر گزرتا تھا

وہ بدنصیب کہ جو واقفِ نَمو بھی نہ تھا

خدا سے مانگ رہا تھا شعارِ بے طلبی

میں قبلہ رْو بھی نہ تھا اور مرا وَضو بھی نہ تھا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *