Home » قصہ »  نامکمل وجود ۔۔۔ زرغونہ خالد

 نامکمل وجود ۔۔۔ زرغونہ خالد

”یارتم کہیں پر بیٹھے ہو۔ نہیں دیکھتے کیا جگہ ہے کیا مقام ہے کیا ٹا ئم ہے۔ ارد گرد کون ہے کو ئی دیکھ رہا ہے، ہمیں کوئی سن رہا ہے۔ جیسے ہی کو ئی عورت، لڑکی، بو ڑھی جوان نظر آ ئے تم ہو ش کھو بیٹھتے ہو میرے بچپن کے دوست ہو مگر یہ عادت اس عمر میں بڑھا پے میں اور بڑھ گئی ہے۔ سب مذا ق اُ ڑا تے ہیں تمھارا۔ تمہیں کچھ احسا س بھی ہے۔تمہارے سا منے نہیں مگر در پردہ سب ہنستے ہیں۔ تمہیں تمھاری اس عادت کیوجہ سے اچھا نہیں سمجھا جاتا“۔

”چھو ڑ اجمل یہ فضول لوگوں کا وتیرہ ہے کم تر لوگوں کا اپنے سے افضل بڑے پڑھے لکھے انسان سے جلنا ہمیشہ رہا ہے“۔

”ہاہاہا(زور سے قہقہہ لگا یا اجمل نے  ) اقبال تم بہت پڑھے لکھے ہائی کلاس کے نمائندے ہو مگر تمہارا حلقہ احباب وہ بھی تو ویسا ہے۔وہی حلقہ وہی دوست وہی امیر کبیر لوگ تمہارا مذا ق اُ ڑا تے ہیں“۔

”اجمل ہم بوڑھے ہو گئے ہیں یہ مانا ہی نہیں ہے ہم نے سب عورتو ں کے ایسے دیوانے ہیں ایک میں ہی توکہا ں بُرا؟“۔”اقبال میری تو بہ میں آئندہ کبھی کچھ نہیں کہو ں گا۔ جب بھی بات کروں تم ہزار تاویلیں۔ دینا شروع کر دیتے ہو۔ چھوڑو اس بحث کو اور سناؤکل کا کیا پروگرام ہے میٹنگ ہے صبح یا نہیں“؟

اس طرح اقبال اور اجمل دونوں د فتری معا ملات کے ذکر میں الجھ گئے۔مگر جیسے ہی کوئی خاتون گزرتی اقبال ضرور کن اکھیوں سے اُسے دیکھتا۔اقبال پڑھا لکھا سرکاری عہدے پر فائز گھر گر ہستی کامالک انسان تھا۔مگر فطرتاً اندرسے بہت سی کمیوں کا شکا رتھا۔ ان کمیوں کو سوا ئے اقبال کے کوئی نہیں جانتا تھا۔نہ بیوی،نہ بچے، نہ خاندان نہ دوست احباب صر ف اور صرف اقبال اپنی کمینی فطر ت کا خو د راز دار تھا۔ اُس کے اتنے بڑے عہدے پر ہو نے کے با وجود کوئی رشتہ دار اس سے فیض یاب نہ ہو سکا۔ ہمیشہ وہ ان لوگوں کو دوست بناتا جواس کے ہم مر تبہ ہوتے۔ ہمیشہ اُن کا کام کرتا یا کام آتا جواس کو بعد میں فا ئدہ دے سکتے تھے۔

اجمل سے ہاتھ ملاکر اقبال گاڑی کی طرف رو انہ ہوا راستے میں سامنے سے آتی فیملی میں ایک لڑکی پر نظر پڑی تو رُک گیا جب تک وہ ساتھ سے گزرنہ گئی۔جب وہ نظر سے اُوجھل ہوئی تب اقبال کے قدم میں کوئی جنبش ہوئی اور وہ گھر کی طرف روا نہ ہوا۔

اقبال کی ماں پڑھی لکھی نہیں تھی مگر خاندانی رعب و دبدبہ والی عورت تھی۔اقبال آخری اولاد تھا۔ سب بڑے بچے تھے تب ماں نے اقبال کو پیدا کرتے ہی کام کرنے والی ماسیوں مزارعوں کے ہاتھ دے دیا۔ بچہ غیروں کے ہا تھ پلتا رہا ماں کو تر ستی نظر وں سے دیکھتا رہا۔ماں کے سینے سے لگنے کی خوا ہش اُسے الجھا تی رہی۔ بڑا ہو تا گیا اور ماں کے وجود کی کمی اس کے لمس کے احساس سے محروم اقبال میں دیوانگی لاتی گئی۔

اماں عید مبارک عید کے دن سب سے بڑے بہن بھائی مؤ دب بنے کھڑے تھے ااور والد صا حب سب کو عیدی دینے لگے اور گلے ملتے تھے۔ایک اقبال بھاگ کر ماں کی طرف لپکا اور عید مبارک اماں عید مبارک خو شی سے چہکا۔ ماں نے فو راً ہاتھ بڑھایا ’رکو اقبال کپڑے خراب ہو جائیں گے اتنے بڑے ہو گئے ہو سلیقہ نہیں آیا۔ایک بھی سلوٹ پڑ جاتی ڈوپٹے کو تو ملنے ملانے والی ہزار باتیں کرتیں‘۔

”اماں ہر وقت یہی کپڑے،  یامہمان لوگ، آپ کے پاس وقت کیوں نہیں ہمارے لیے؟پیار کیلئے۔ہم تر س گئے ہیں گلے لگنے کو،آپ ماں ہیں اولاد کو سینے سے لگا نا بھی جرم ہے“۔

”دیکھوسائیں!“ اباسے مخاطب ہوئی! ]اماں ذرا تلخ لہجے میں [ ”کیسے بڑے بڑے بول رہا ہے باقی بھائی بہن کیسے خا مو ش کھڑے ہیں اِسے تو جہ ذرا زیادہ مل گئی اِس لیے پر نکل آ ئے ہیں“۔”کیا تو جہ دی؟“”دیکھو مہنگا سب سے مہنگا لٹھے کا جو ڑا پہناہے فیروزی، دیکھ کتنی عمدہ چمکدا ر چمڑے کی ہے گھڑی دیکھی ہے ہاتھ میں۔ ابھی جوان بھی نہیں ہوا اور راڈو سو نے کی سوئیوں والی گھڑی ہاتھ میں با ندھے اتراتے پھر رہے ہو اور خو شبو دیکھودو بئی سے آتی ہے تیل دیکھو سعو دی عرب کاآیا لگاتے ہو اور کیا سرخاب کے پرلگا دو ں تمہیں۔اچھا کھاتے پہنتے ہو اچھے سکول جاتے ہو سا رادن ہا تھوں کے چھالے بنے ہو تے ہو۔ پر اکڑ دیکھوماں سے زبان لڑاتے ہو؟۔

”اری بھاگوان جانے دے بچہ ہے گلے لگا لے ما تھے پر بو سہ دے دے”۔

”خان سائیں عمر میں چھو ٹا ہے پر قد تو دیکھوکتنالمبا ہو تا جا رہا ہے اِسے لا ج نہیں آئے گی نگو ڑا ماں کے سینے لگے گا“۔

اماں اپنے لمبے کمرے کی طرف گئیں جہاں اک زمانے سے نگوں اور رنگوں سے سجا دیوان رکھا تھا۔اماں ااُس پر ایسے برا جمان ہو تی ہے جیسے کوئی مہا رانی اپنی ر عایا کے سامنے بیٹھی ہو۔سارے علا قے کی بو ڑھی، غریب اور لا چار خواتین اماں کے گر د بیٹھ جاتیں اور اماں ان کے سامنے خوشی سے سا را دن رہتی۔اماں اسی میں خوش تھی اور ان کے دکھ سکھ بڑی چاہ سے سنتی اور حل کرتیں، ان کی مدد بھی کر تیں،پرسگی اولاد کا انہیں کچھ پتہ نہ تھا۔ غریبوں،دکھیوں کے بھیس میں غیروں کے لیے اماں دل سے قر بان تھیں۔ اماں جا نتیں نہیں تھیں کہ اماں کے اس رویہ سے اقبال جو قدرتی طور پر حسا س تھا ماں کی محبت ماں کے لمس احسا س کی کمی سے با غی ہو چلا تھا۔ ہر عورت، لڑکی، بچی، بوڑھی کو غور سے دیکھتا اس کے قر یب جا نا چاہتا۔ سولہ  سال کی عمر میں پہلا عشق اپنی کلاس ٹیچر سے ہو گیا۔آنکھ جھپکے بغیر ٹیچر کو گھورتا رہتا اسکے جسم کو اس کے چہرے کے نقوش از بر کرتا۔ دیہات کاما حول تھا باقی بچوں نے جلد ہی اس محبت کے رنگوں کو اُسکے چہرے پر دیکھ لیا۔ٹیچر کو کہا گیا اقبال کو ٹیچر نے بلو ایا اند ر۔

”کیا کیا تماشا لگا رکھا ہے؟“۔

”میں ٹیچر میں تو آپ کو پسند کر تا ہوں، سب جلتے ہیں مجھ سے۔ میں توآپ کی تعریف کرتا ہوں سب غلط اور بُرے ہیں اور تو کچھ غلط نہیں کیا“۔”اچھا اچھا کو ئی بات نہیں چلو خیر ہے، پڑھا ئی کی طرف تو جہ دو اچھے نمبر لو پھر میں بہت خو ش ہوں گی“۔

”ٹیچر میں آپ کے گھر ٹیو شن پڑھنے آ ؤں“؟ اقبال لا ڈ کرنے والے انداز میں بولا۔

”ہاں ہاں آ جا ؤ کس وقت آؤ گے“؟۔

”ٹیچر یہاں سکول سے آ پ کے ساتھ آپ کے گھر چلو ں گا سارا یاد کر کے گھر چلا جا ؤ ں گا“۔”ٹھیک ہے کل سے چلنا آج گھر وا لوں سے پو چھ لینا“۔”نہیں ٹیچر کسی سے نہیں پو چھنا۔اجازت ہے پو ری اجازت ہے“ اور جیسے ہی چھٹی ہو ئی اقبال ٹیچر کے سا تھ اس کے گھر کے لیے پیدل روانہ ہو لیا۔

”ٹیچر اپنا پر س دے دیں میں اٹھا لو ں“ اور پرس ایسے سینے سے لگا کر چلا جیسے پرس نہیں ٹیچر کو دبو چ رکھا ہو کہیں بھا گ نہ جا ئے۔ سارے راستے کو شش کر تا رہا ٹیچر کے شا نے سے شانہ ضرور ٹچ ہو۔پر ٹیچر بہت تیز اور فا صلہ رکھ کر چلنے کی عادی تھی اور جلد گھر پہنچے۔

اقبال بہت ذہین تھا مگر پڑھتا نہیں تھا۔ صر ف ایک نظردیکھتا اور بہت اچھے نمبرو ں سے پاس ہو تا۔ ٹیچر کے پاس بھی وہ پڑھنے نہیں اپنی ماں کی بے حسی، اپنی کمی، ادھو رے پن کو پورا کرنے جاتا تھا۔اُسے دیکھتا اپنے جسم کو اس کے قر یب کرتا۔ اُسے نہیں پتہ تھا وہ کیا چا ہتا تھا بس اُسے عورت کے وجود کی ضرورت تھی۔عورت کی موجودگی کا احساس اس کی ضرورت بن گیا تھا وہ دیوانگی کی حد تک بڑھتی عمر کے سا تھ ساتھ صنف ِ نازک کا دیوانہ بنتا گیا۔انکا قر ب انکا احسا س اسے تا زہ دم رکھتا تھا۔ٹیچر کے عشق کی داستان نہ پو ری ہو ئی نہ ہجر و وصال کے قصے بس فو راً محلے کی ایک  خو بصور ت لڑکی پر فدا ہو گیا۔

اقبال پہلے پہل ایک محبت کے درمیان میں دو سری محبت پر وان چڑھاتا رہا پھراسکی اپنی شادی بھی محبت کے نتیجہ میں ہوئی اور پھرتو ہر عورت اسکی محبوب تھی چاہے کوئی رنگ، نسل، خاندان ، قد،نین نقش ہوپڑھی ہوئی ہو ان پڑھ ہو کوئی فر ق نہیں تھا۔

اقبال کے اپنے بچے ہو گئے بیٹیاں تھیں بیٹے تھے پر وہ اس بیما ری سے نہیں نکلا۔ماں کی محبت کی کمی نے اُسے ایسا بیما رکر دیا۔یہ صر ف وہی جانتا تھا۔ پرلوگ،دوست،بیوی سب اُسے اچھی نظر سے نہیں جانتے تھے۔

اقبال کبھی سو چتا تھا اگر مجھے وہ تو جہ پیار دیتی جس کا حق ہر اولا کو ہو تا ہے تو شاید میں کبھی ایسا نہ ہو تا کچھ بس میں نہیں کاش ماں کی گود کی نرمی ماں کے لمس کی ٹھنڈک ملی ہو ئی تو آج یوں ہر عورت میں ماں کو نہ ڈھو نڈتا۔ وہ دا نستہ نادا نستہ ہر عورت ذات میں چھپنے  کی کو شش کرتا۔

بچپن میں ماں نے  اسے کبھی کہانی نہیں سنائی۔ اب ہر عورت کے وجود میں کہانی ڈھو نڈتا، ماں نے گرج چمک میں بادلوں کی آواز سے ڈرے سہمے اقبال کو خود سے نہیں لپٹایا،اپنی بانہوں کے ہالے میں محفو ظ نہیں کیا۔اقبال آج ہر عورت کو خو فزدہ کر نا چا ہتا تھا،چاہے اس پر کوئی گرجے یا برسے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *