بعض کتب ایسی ہوتی ہیں جو اپنے سادہ اسلوب، حقیقت پر مبنی بیانیے،اور پر اثر انداز سے قاری کو پہلی سطر سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ ایسے مجموعہ کا سحر صرف ان میں تحریر کردہ شاعری کی وجہ سے ہی نہیں اثر انداز ہوتا، بلکہ لکھنے والے کی شخصیت اور مزاج بھی کتاب کو ایک ایسی روح عطا کرتا ہے جو کتاب سے نکل کر قاری میں حلول کر جاتی ہے۔کچھ ایسا اثر مجھے امجد تجوانہ کا مجموعہ پڑھنے کے بعد محسوس ہوا۔ ان کا شعری انداز کلاسکیت لیے ہوئے ہے۔کم عمری میں ان کی والدہ کی وفات جس کا اظہار وہ جابجا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ماں کی محبت کی محرومی گھر کے آنگن میں سناٹا ان کے احساسات جذبات کرچی کرچی ریزہ نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں کی محبوبہ ان کی ماں ہیں۔
امجد تجوانہ نے شاعری کی ہر صنف میں لکھا۔ لیکن میں ذاتی طور پر انہیں نظم کا بادشاہ کہوں گی۔ جب سے کتاب میرے مطالعہ میں آئی ہے. ان کی غزلوں نظموں سے میری گفتگو جاری ہے. ان کی شاعری میں مضامین اس سہولت سے دکھائی دیے جیسے روبرو گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہو اور یہی راست تخاطب کا رویہ ان کے اشعار کو سیدھا دل میں اتارتا ہے۔
امجد تجوانہ کی شاعری کا اولین مجموعہ اس بات کا اعلامیہ ہے کہ وہ شاعری میں بہت سے امکانات کی طرف گامزن ہیں۔ان کا منفرد لب و لہجہ دیارِسخن میں علیحدہ پہچان بنائے گا۔ خدا کرے یہ علمی و ادبی سفر جاری و ساری رہے۔
“حقہ پینے والے کی یاد میں “
وہ دن کتنے اچھے تھے
کبھی جب گھر کے آنگن میں لگے شہتوت کے نیچے
میری ماں جھاڑو دیتی تھیں
پرانی چار پائی جھاڑ کر پھر سے بچھاتی تھیں
میرے ابا کے حقہ کی چلم بھی جگماتی تھی
بہاریں مسکراتیں
کہکشائیں رقص کرتی تھیں
میں خود ماں سے لپٹ جاتا
کئی قسمیں اٹھاتا
خود ہی ان کو بھول جاتا
وہ دن…….
ماضی کے دن کتنے سہانے تھے
مگر اب شہر کے اپنے مسائل ہیں
بہاریں کھو چکی ہیں
کہکشائیں بین کرتی ہیں
نہ ماں زندہ ہے۔۔
اور نہ وہ صحن میں شہتوت کا پودا
نہ وہ حقہ رہا باقی…
نہ حقہ پینے والے ہیں۔
سارے دروازے کھول دوں گا میں
تو مرے شہر دل میں آ تو سہی
کس قدر زخم ہیں جدائی کے
یار امجد اسے دکھا تو سہی
کون کہتا ہے ہواؤں میں رہے ہیں امجد
ہم تو اک شخص کے پاؤں میں رہے ہیں امجد