Home » پوھوزانت » ماما عبداللہ جان کے لیے ۔۔۔ کیف خاتون

ماما عبداللہ جان کے لیے ۔۔۔ کیف خاتون

اپنے وقت سے آگے بڑھ جانے کا سفر عشق کی راہ سے کہیں زیادہ کٹھن ہوتا ہے۔اِس میں محض تنہائی ہے، معروضی دنیا کی چار فرلانگ تک دیکھنے والی نظروں کی طرف سے تہمتوں اور بہتانات کا جان لیوا اور خونم خون کردینے والا سلسلہ ہے۔ غضبناک تشنگی اور لازوال تنہائی کے باوجود دیوانگی کہاں سکون سے بیٹھنے دیتی ہے۔انسانی نسل کو سنبھالنے، اس کی خیر و فلاح کے عزم میں غرق، اِن رسوائیوں سے بے بہرہ وفا شناس دیوانے انسانی ذہن سازی، رویوں کی تبدیلی اور زندگی کی بقا کے لیے اُس شہزادے کی طرح جُت جاتے ہیں،جسکی بیمار شہزادی کی شفا کوہِ قاف کے ایک پھول میں ہوتی ہے، راستے میں جنات ہیں جادو، مصیبتیں، آلام اور موت کی دہشت ہے لیکن وہ شہزاد ہ اپنی شہزادی کے عشق میں اسے زندگی اور شفا دینے کے لیے کوہِ قاف کا سفر کرتا ہے اذیتیں سہتا پھول تک پہنچتا ہے۔

عبداللہ جان انسانی فلاح اور اپنے لوگوں کی خیر کے لیے وقف ایسا ہی ایک دیوانہ ہے جس نے عشق کی راہ میں رُسوائیاں بھی اُٹھائیں اور اپنوں سے بُہتان بھی کہے۔ مگر وہ کسی بھی حصار اور کسی دام میں نہیں آیا۔عبداللہ جان کومیں گُذشتہ تین دہائیوں سے جانتی ہوں۔ اِس جنات کی طرح کام کرنے والے شخص میں جناتی تبدیلیاں بھی دیکھیں۔کئی بار لڑی۔اُس سے خاموشی کے طویل دور بھی گزرے۔ گھر میں لگی آگ دیواروں سے اونچی اُٹھنے لگی تو اس شخص کو کرب وازیت میں تلملاتے دیکھا۔ لوگوں کو بچاتے، کڑھتے اور آگ بُجھاتے دیکھا اس کے اپنے ہاتھ جلتے رہے۔ وہ حد نظر پھیلی سفاکیت کو دیکھ سکتا تھا۔ اپنے نظر یے کے ایندھن سے جہد میں جان ڈالتا رہا۔ رُوحوں کے دیگدانوں پہ لگے داغوں کو محبت کی نمی سے دھوتا رہا۔ لوگ بناتا رہا۔ بڑے انسانی دھارے میں عزت اور ناموس کے ساتھ داخل ہونے والے بلوچ اپنی قوم اور زبان کے عاشق، انسان ہونے پہ نازاں، پُر وقار انسان دوست بلوچ۔ عبداللہ جان کی اپنی رُوح کا دیگدان ایک عمر سے سلگ رہا ہے۔ اُس کی وطن دوستی، بلوچیت اور شفاف دامنی پہ کوئی سوال نہیں۔ فرق اور داغ اگر ہے تو اُس نظر میں ہے۔ جو پہ نہیں جانتی کہ مُفکر، سماج کی تبدیلی کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ deviceہے ایک آلہ ہے ایک instrument  ہے۔ عام انسان سے زیادہ اُس میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔ فکر اور رویے کی تبدیلی کی رفتار مفکر کے ہاں قدرے تیز ہوتی ہے۔

کیا ہم اس قدر غلامانہ ذہنیت رکھتے ہیں کہ Character development،انسانی بڑھو تری اور رُوحانی بالیدگی جیسے عناصر کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں؟۔

نظریاتی اختلافات اور تنقید مہذب معاشروں کی علامت ہیں لیکن وہاں مخالفین کا جگر ایسا ہوتا ہے کہ وہ یہ کہہ بیٹھتے ہیں۔

”Sartre is France and France is Sartre”

ہمارے ہاں سارترے بننے نہیں دیئے جاتے۔ دشمن سے کہیں زیادہ چُست اور سفاک سلسلہ اختلاف برائے اختلاف کا ہمارے اندر موجود ہے۔حالانکہ ایک صف میں کھڑے ہوئے کو دوسری صرف میں کھڑے عاشق کو عزت دینی چاہیے کیوں کہ بُزرگی اور بُرزی یہی ہے کہ ہر دور سے گزرتے ہوئے ہم بس

”عشق کی مشعل“ کو تھامے رکھیں

وقت اپنے بچے خود پیدا کرتا ہے

جو مٹی کے عشق میں غلطاں،

تحریک کا الاؤ۔ عالم دوست، فن

اور ادب کے عشاق ہوں، انسانوں

کی آواز اور بے لوث مِٹ جانے والے

ہوں وہی وقت کے جائز بچے ہیں

بلوچستان میں ”وقت“ نے کئی بار خود سے اونچے اور بڑے بچے جنم دیئے۔

عبداللہ جان! تم اِسی لیے اکیلے پڑ جاتے ہو۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *