مرحلہ جینے کا اب اِس طور ہے
جان لیوا حسرتوں کا شور ہے
التوا، پھر التوا، پھر التوا
منصفو! کیا خاک زیرِ غور ہے
خُلد کا ہے فلسفہ اپنی جگہ
اِس زمیں کی تو کہانی اور ہے
کور چشمو، غافلو، دیکھو ذرا
آج پھر جنگل میں ناچا مور ہے
لُٹ گیا یوسف منال و مال سب
میں نہ کہتا تھا کہ حاکم چور ہے