Home » شیرانی رلی » خیال ۔۔۔  آسناتھ کنول

خیال ۔۔۔  آسناتھ کنول

وہ اک مجسم خیال ہے

ایک یا قوتی تخیل

جو آنکھ کے جھرنے سے بہتا ہوا

زمردیں اخساروں پہ ٹک گیا

لفظوں کی کرنیں لب لالعیں کا

طواف کرتی ہیں

بھیگی پلکوں پہ ستاروں کا ہجوم ہے

وہ جو اندھیرے میں ٹھوکر کھانے سے بچا سکتا تھا

اُس نے اپنے لاجوردی سینے میں

رنگوں کو حیران نہیں ہونے دیا

چکور کے ٹوٹے ہوئے پروں میں

چاندنی آج بھی اپنا وجود تلاش کرتی ہے

تیزے کی انی جیسی

آفتابی کرنوں نے سورج مکھی سے وفا نبھائی

رات کی رانی نے رات سے پریت کی جوت جگائی

پھر تم کیسے دیوتا ہو

دل کے سنگھاسن پہ کسی مورتی کی طرح

ایستادہ ہو

مگر پتھر یلے یاقوتی لب خاموش ہیں۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *