Home » پوھوزانت » بھگت سنگھ ۔۔۔۔۔ محمد بشیر صنوبر

بھگت سنگھ ۔۔۔۔۔ محمد بشیر صنوبر

دنیا میں وہی انسان عظیم ہوتے ہیں جن کی خدمات دوسرے لوگوں کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ خاص کر مظلوم طبقات کے لئے جن کی زندگی کا مشن ظلم و زیادتی اور غیر انسانی طبقاتی سماج کو بدلنے کے لئے جدوجہدہوتا ہے وہ لوگ غیر طبقات سماج قائم کرنے کے لےے اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں ۔ان کے نزدیک یہی عبادت ہوتی ہے، دنیا کے ایک فلاسفر کے نزدیک عبادت انسان کا وہ عمل ہے جو وہ اپنی ذات سے ہٹ کر دوسرے لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کرتا ہے، برصغیر کی تاریخ کے عظیم انسان ہیرو اور انقلابی کا نام بھگت سنگھ شہید ہے عرصہ دراز سے میرے دل میں یہ خواہش موجزن تھی کہ اس گاﺅں کا درشن کروں جس میں بھگت سنگھ شہید جیسے انقلابی اور فریڈم فائٹرز نے جنم لیا۔ چنانچہ گرمیوں کی چھٹیوںسے ایک روز قبل میں اقبال بھٹی اور محمد صدیق کھرل کے ہمراہ تپتی دوپہر گاﺅں پہنچا، گاﺅں پہنچ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور مایوسی بھی خوشی اس بات کی کہ ہم اس مٹی پر چل رے تھے جسے عرصہ دراز تک بھگت سنگھ کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا اور مایوسی اس بات کی بھگت سنگھ سے وابستہ تمام یادیں نشانیاں اس کا گھر ڈیرہ پرائمری سکول اور دیگر تمام قابل ذکر جگہیں سب اس وطن کے لوگوں نے تباہ و برباد کردیں جس کی آزادی کے لئے اس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر خوشی سے پھانسی کا پھندا چوم لیا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ برصغیر میں برطانوی سامراج کے گماشتوں کی تمام نشانیاں ان کے گھروں اور اشیا کو قومی ملکیت کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس سے کہیں عظیم انسان بھگت سنگھ کا تمام اثاثہ دفن ہوچکا ہے۔ شاید ہمارے حکمران اس بات سے خوفزہ ہوں کہ یہاں کے عوام میں ا س روح اور جذبہ بیدار نہ ہوجائے، سب سے پہلے ہم گاﺅں کے ہائی سکول میں اس خیال سے گئے کہ وہاں پڑھے لکھے لوگوں سے مل کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا لیکن نتیجہ اس کے برعکس رہا۔ حیرانگی کا یہ عالم پایا کہ ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کے اساتذہ کو اپنی دھرتی کی تاریخ اور ہیرو کا علم نہ تھا۔ وہ بچوں اور آنے والی نسلوں کو کیادیں گے ۔شاید اس لےے کہ ہم اپنے ہیرو کا تعین مذہب کے حوالہ سے کرتے ہیں دھرتی کے حوالہ سے نہیں ۔ دھرتی ماں نے تو کبھی کسی کا مذہب اور دھرم نہ پوچھا۔اس نے تو ان سب ننگے بھوکے لوگوں کو پالا پوسا جو اس کی مہربان گود میں آئے۔ لہٰذا انسانوں کی کارگزاری کی بجائے کسی اور حوالہ سے عوامی اور ہیرو کا تعین کرنا نہ صرف جہالت اور تنگ نظری ہے، بلکہ دھرتی سے عدم محبت اور لا تعلقی کا ثبوت ہے۔
ناظر حسین ولد حکیم دین جٹ نے ہماری راہنمائی کی جو ہائی سکول 105 گ ب بنگے میں ملازم تھے۔ انہوں نے ہمیں بھگت سنگھ اور اس کے خاندان کی زمین دکھائی اڑھائی مربعے تھی جس میں 27ایکڑ پر آموں کا باغ تھا جسے آریاں باغ کہا جاتا تھا ۔اب یہ باغ اجڑ چکا تھا مگر ان کی زمین میں بھگت سنگھ کے ہاتھوںکا لگایا ہوا ایک آم کا درخت موجود ہے۔مالک زمین نے بتایا کہ اس کے پھل میٹھے ہوتے ہیں ۔ناظر حسین نے وہ جگہ دکھائی جہاں بھگت سنگھ کا ڈیرہ ہوتا تھا مکانات ہوتے تھے جن میں بیٹھ کر بھگت اپنے دوسرے انقلابی ساتھیوں سمیت ملک کو آزاد کروانے کے منصوبے تیار کرنا تھا ۔ مگر اب وہاں مٹی کے ڈھیرکے سوا کچھ نہیں ہے۔ بھگت سنگھ کے گاﺅں میں ہماری ملاقات ملک عبدالحق ولد مولا بخش سے ہوئی۔ اس نے خود کو بھگت سنگھ کے چھوٹے بھائی کا ہم جماعت بتایا ۔اس نے بتایا کہ بھگت سنگھ ہم سے دو سال اگلی جماعت میں تھا۔ اس کا خاندان بڑا انسان دوست تھا۔ دادا ،دادی ، والد، بھائی ، ماں جی اور چاچے سب عظیم تھے۔ غریبو ں کا خیال رکھتے تھے ۔نا صر ف ان کی ضروریات پوری کرتے تھے بلکہ بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔بھگت سنگھ مربع نمبر83کیلہ نمبر11-12 میں عدالت لگاتا تھا ۔غریبوں پرزیادتی کرنے والوں سے باز پرس کرتا تھا۔ گورنمنٹ برطانیہ نے بھگت سنگھ کو تحریک ختم کرنے کے عوض راجباہ پاﺅلیانی کے تمام چکوک کی زمین دینے کی پیشکش کی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ زمین ہماری ہے تم کون ہو جو ہمیں دیتے ہو۔تم برصغیر کو چھوڑ دو۔ میری جدوجہد لوگوں کے حقوق اور دھرتی کی آزادی کے لےے ہے اپنے مفاد کے لےے نہیں ۔ بھگت سنگھ نے گاﺅں کے لوگوں کے لےے پانی کا کنواں بنوایا تھا۔ شروع میں اس جگہ بھگت سنگھ کی برسی منائی جای تھی اب وہاں کسی کا دربار بنا ہوا ہے گور دوارہ کی جگہ مسلمانوں کی مسجد ہے۔ بھگت سنگھ جس گھر میں رہتے تھے وہاں آج ایک بیری کے درخت اور دوچار دروازوںکے سوا کچھ نہیں بچا۔ باقی تمام گھر تباہ ہوچکا ہے ۔یہ دیکھ کر رونا آتا ہے کہ آزادی کے ہیرو کو ہم نے کیا مقام دیا ۔گاﺅں کے جس پرائمری سکول میں بھگت سنگھ نے پہلی سے چوتھی تک تعلیم حاصل کی اس کی چھتیں غائب ہیں، صرف کمروں کی دیواریں باقی ہیں۔ وہاں سے یہ معلومات ملیں کہ کینیڈا سے آنے والے سکھوں نے سکول کی جگہ پر ایک ہسپتال بھگت سنگھ کے نام پر قائم کرنے کا پلان بنایا اور اس کے تمام اخراجات وہ خود ادا کریں گے لیکن ہماری حکومت نے اس کی اجازت نہ دی۔
بچپن اور تعلیم:
بھگت سنگھ ایک سندھو جٹ سردار ہرکشن سنگھ کے گھر27 ستمبر1907 ءکو پیدا ہوئے۔ ان دنوں یہ علاقہ کسان بغاوتوں کامرکز تھا اپنے دیس سے محبت اور پیار کا عشق سمندر اس کی رگ رگ میں رچ بس چکا تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تو اس کا باپ انگریزوں کی قید میں تھا۔ اس کے دادا نے بھی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ غلامی سے نفرت اور آزادی سے محبت ان کے خاندان کا ورثہ تھا۔ بھگت سنگھ کا چچا اجیت سنگھ، پگڑی سنبھال جٹا، تحریک کا لیڈر تھا جس کو انگریز سرکار نے تحریک کا حصہ بننے پر کالا پانی کی سزادی۔ اجیت سنگھ نے حیدر رضا کے ساتھ مل کر ایک تنظیم آرگنائز کی تھی۔ بھگت سنگھ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں دھرتی ماں کے عشق میں قربان ہوجانا ریت اور رواج کا درجہ رکھتا تھا ۔ چوتھی جماعت بنگے سے پاس کرنے کے بعد بھگت سنگھ مڈل سکول پاﺅلیانی سکول میں بھی گیا۔سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی تاریخ پیدائش کا ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ اس کے بعد بھگت سنگھ کو ویا نندا نگلو درک سکول لاہور داخل کروایا گیا۔ جب گاندھی نے برطانیہ سرکار کے اداروں کا بائیکاٹ کیا تو ان کو دوسرے سکول داخل کروایا گیا ۔ بھگت سنگھ نے ہوش سنبھالا تو ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے اس کے دل و دماغ آتش فشاں بن گئے۔ کرار سنگھ سرابھا جس کو صرف 19 سال کی عمر میں پھانسی پر چڑھادیا گیا جو بھگت سنگھ کا آئیڈل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب بھگت سنگھ پہلی بار گرفتا ر ہوئے تو ان کی جیب سے اس کی تصویر برآمد ہوئی جو وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ بھگت سنگھ کا ہیرو بن گیا۔ 13اپریل1919 کا سانحہ جلیانوالہ باغ اس کو امرتسر لے گیا۔ انگریز سرکار نے حریت پسند وں کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے Rowolt Actبنایا ۔یہ قانون اسی جسٹس کے نام پر تھے ۔اس کے تحت پکڑے جانے والوں کو اپیل کا حق نہ تھا ۔ جلیانوالہ باغ امرتسر میں گولڈ ن ٹمپل سے کچھ ہی دور ہے۔ لگ بھگ 5 ہزار راﺅنڈ فائر کےے گئے جس کے نتیجے میں500 سے زائد انسان مارے گئے ۔ان میں476 کی لاشوں کی شناخت ہوگئی، 15 کے چہرے فائرنگ کے بعد شناخت نہ ہوسکے جب عوام نے کنوﺅں میں چھلانگ لگائی تو ان ڈوبتے لوگوں پر بھی فائر کےے گئے۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ برصغیر میں بسنے والے انسانوں کے لےے مشعل راہ ثابت ہوا کہ ان کی منزل صرف آزادی ہے اور اس کی قیمت موت ہے ۔ بھگت سنگھ جلیانوالہ باغ پہنچا تو اس نے حریت پسندوںکے خون سے رنگین مٹی کو چومتے ہوئے قسم کھائی کہ وہ یہ فرض ضرور اتارے گا۔ وہ وہاں سے لوٹا تو یہ مٹی اس کے ساتھ تھی۔ سکول سے بھگت سنگھ کالج پڑھنے لگا۔ لوگوں میں بہتے باغی خون اور ماحول میں رچی بسی بے انصافی نے اسے سچا انقلابی بنا دیا تھا۔ انقلاب کے رستے پر چلتے ہوئے اس کی دوستی سکھ دیو اور راج گرو سے ہوئی ۔پھر تینوں چندر شیکر آزاد سے ملے ۔ان ملاقاتوں کے بعد بھگت کے دل و دماغ میں طوفان آگیا ۔بس پھر اس نے اپنی منزل کا راستہ اپنا لیا۔ بنگے میں اس کی والدہ اپنے پتر کے سر پر سہرے سجانے کی تیاریاں کررہی تھی اور مانوالہ میں اس کی منگنی جیتو نامی لڑکی سے کررکھی تھی ۔لیکن بھگت نے انقلاب کا سہرا سجانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ اس دوران بھگت گھر سے بھاگ گیا اور انڈیا کے انقلابیوں سے اس کا میل ملاپ بڑھتا گیا ۔وہاں اس نے پراتاب پریس میں ملازمت کرلی تھی ۔دن بھر کام کرنے کے بعد رات کو بھگت مطالعہ کرتا ۔وہاں اس نے ریڈیکل گروپ ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن جوائین کرلی جس کا مقصد بھارت کو آزاد کروانا تھا۔ 1925 میں جیتو کے مقام بھگت نے مہاراجہ ایپودامن سنگھ آف نابھہ کی تقسیم کے خلاف احتجاجی جتھوں کی قیادت کی ۔اس جرم میں بھگت کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے لیکن وہ پولیس کی گرفتاری سے بچا رہا اور دہلی چلا گیا ۔یہاں اس نے بلونت سنگھ کے نام سے روزنامہ ویرارجن میں آرٹیکل لکھنے شروع کےے۔ اس دوران سوشلسٹ ری پبلکن پارٹی سے رابطہ رہا۔ مارچ1926 میں اس نے نوجوان بھارت سبھا قائم کی اور اسے اس کا سیکرٹری چنا گیا ۔انڈیا ایکٹ 1919میں وعدہ کیا گیا تھاکہ 10 سال کے بعد کمیشن جائزہ لے گا کہ ہندوستان حکومت نے خود اختیاری کی کس حد تک صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں انہیں مزید حقوق دئیے جانے وعدہ کیا گیا ۔1927میں حکومت نے برطانیہ کے قائم کردہ کمیشن جس میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کی نمائندگی نہیں تھی اس لےے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے اس کی مخالفت کی۔30اکتوبر1928 کو سائمن نے ریلوے سٹیشن پہنچنا تھا ۔تمام سیاسی جماعتوں نے احتجاج کرنا تھا جس میں بھگت سنگھ بھی شامل تھا ۔لالہ اجیت رائے اس کی قیادت کررہے تھے ۔پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر شدید لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں لالہ جی کا سر پھٹ گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ بھگت نے یہ سارا کھیل نزدیک سے دیکھا ۔پنجاب میں ہر طرف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔27 دسمبر1928 کو سانڈرس کو لاہور پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے سر عام قتل کردیا گیا ۔بھگت اور راج گرو دیر تک سانڈرس کی لاش پر گولیاں چلاتے رہے۔ اس کے بعد دونوں ڈی اے وی کالج گراﺅنڈ راستے فرار ہوگئے۔ وہ سےدھے درگا دیوی کے گھر گئے۔ پہلے تو وہ ان کو پہچان نہ سکی کیونکہ بھگت نے کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا پھر بھگت نے اس کو تیار ہونے کا کیا اور وہ تانگے پر بیٹھ کر سیدھے لاہور سٹیشن گئے۔درگا دیوی کا بچہ بھگت نے اٹھا لیا۔ راج گرونو کر بنا ہوا تھا ۔ یہ ٹرین میں بیٹھ کر لاہور سے لکھنو اور کلکتے کی طرف نکل گئے۔ چندر شیکر آزاد متحرا کے سادھوﺅں کا روپ دھار کر اس کے لیڈر بن گئے اور ہاتھ میں گیتا لے کر گاڑی میں سوار ہوگئے ۔اس طرح بچ نکلے ۔کلکتہ سے بنگال اور یو پی کے انقلابی دوروں کے بعد بھگت 29کو دہلی آگئے۔ پھر آگرہ پہنچ کر انہوں نے بنانے کی فیکٹری قائم کی مختلف صوبوں کے کارکنوں کو تربیت دیتے رہے۔ لاہور سہارن پور میں سکھ دیو اور یشو درما نے مختلف جگہوں پر اسی طرح کا کام کیا۔ ملک میں آزادی اور انقلاب کے لےے کام کرنے والوں کو گرفتار کیا جارہا تھا ۔انہی دنوں بیس مارچ1929 کو ہندوستان کے سرکردہ 23 کمیونسٹ رہنماﺅں کو گرفتار کرلیا گیا ،میرٹھ کے مشہور سازش کیس میں ہندوستانی انقلابیوں کے ساتھ تین انگریز بھی تھے ، آگرہ میں ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا کہ دہلی اسمبلی میں سیفٹی بل اور صنعتی تنازعوں کا بل پیش ہونے والا ہے اس موقع پر اسمبلی میں بم پھینک کر انگریزوں پر ثابت کیا کہ عوام ا ن کی رخصتی چاہتے ہیں۔ اس کے لےے بھگت سنگھ اور بی کے دت کا نام آیا لیکن چندر شیکھر آزاد نے اس کی مخالفت کی کہ بھگت پہلے ہی سانڈرس کیس میں مطلوب ہے۔ لیکن اکثریتی فیصلے کے مطابق بھگت سنگت اور بی کے دت ہی کے سپرد یہ کام کیا۔ انہوں نے آگروہ اور دہلی کے کئی چکر لگائے اور آخروہ اسمبلی ہال میں پاس لے کر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اجلاس جاری تھا جب فیصلہ سنایا جانے لگا تو بھگت سنگھ اٹھے انہوں نے سرکاری پنجوں کی طرف احتیاط سے بم پھینکا کہ لوگ زخمی نہ ہوں۔ بم کم طاقت کا تھا کہ جانی نقصان نہ ہو۔ ممبر ان اسمبلی میں بھگدڑ مچ گئی کئی زخمی ہوئے کچھ خوف سے بے ہوش ہوگئے ۔ بھگت اور دت بارود کے دھوئیں میں انقلاب زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے ۔ان کے ہاتھوں میں پستول تھے وہ آسانی فرار ہوسکتے تھے لیکن فیصلہ کے مطابق گرفتاری دینی تھی ۔اس لےے گرفتار ہوئے۔ انہوں نے ایسوسی ایشن کے اعلان نامے کی کاپیاں تقسیم کیں جس میں یہ بات درج تھی کہ بہرے کو بات سنانے کے لےے اونچی آواز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھگت اور دت کو سول لائن پولیس سٹیشن لایا گیا۔ بعدمیں دہلی بھیج دیا گیا ، دہلی اسمبلی میں بم گرانے کے جرم میں بھگت سنگھ اور بی کے دت کو 2جون1929 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ان انقلابیوں نے عدالت میں خوشی سے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے اور آزادی کے گیت گاتے ہوئے عوام زندہ باد کے نعرے لگائے ۔اور آخری سانس تک حوصلہ نہ چھوڑا۔ ان فلک شگاف نعروں نے اسی دن سے زور پکڑا اور عوام نے جلسے جلوسوںمیں یہ نعرے لگانے شروع کردےے ۔چونکہ اسمبلی پر بم پھینکنے سے قبل سانڈرس کا قتل ہوچکا تھا ادھر اسمبلی بم کیس میں سزا ہوئی دوسری طرف پولیس ان دونوں کو سانڈرس قتل میں رکھ کر ہمیشہ کے لےے ختم کرنا چاہتی تھی ۔لاہور میں دسمبر کے موقع پر دو بم چلے جن میں عام آدمی مرے تھے، نوجوان بھارت سبھا کے کام میں دلچسپی لینے والے باجو سنگھ کو گرفتار کرکے ایک سال تک پریشان کیا لیکن اس نے کوئی بات نہ بتائی۔ اس کو رہا کردیا گیا لیکن اس کی باتوں سے شبہ ہوگیا کہ قلعہ گوجر سنگھ کی بلڈنگ میں کوئی شخص بم بناتا ہے ، جہاں آج کل لاہور ہوٹل ہے۔ پولیس نے چھاپہ مارا کچھ لوگ گرفتار کرلےے یہ مکان چِرن بھگوتی کا تھا کامریڈ چرن مفرور ہوگئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بم ہاتھ میں پھٹنے سے شہید ہوگئے تھے ۔بھگت سنگھ اور بی کے دت کو دہلی سے لاہور لایا گیا۔ مشہور مقدمہ لاہور سازش کیس نمبر دو شروع ہوگیا۔ مقدمہ کی کاروائی 1929 میں شروع ہوئی ۔پہلے دن انقلابی گیت گاتے اور نعرے لگاتے آئے۔ بعد ازاں نہوں نے مقدمہ کی کسی کاروائی میں شرکت سے انکار کیا ۔ابھی مقدمہ چل رہا تھا کہ سوشلسٹ آرمی نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں، بھگت سنگھ کو چھڑانے کا منصوبہ بنایا گیا ۔یہ کام چندر شیکر آزاد نے اپنے ذمے لیا ۔اس مقصد کے لےے بم بنا لےے گئے اٹھائیس مئی کو بم چرن بھگوتی کے ہاتھوں میں پھٹ گیا۔ سات اکتوبر1930 کو سپیشل ٹربیونل نے بھگت سنگھ‘ سکھ دیو،راج گرو کو سزائے موت کا حکم سنایا، تیرہ فروری1930 کو آلہ آباد پولیس کے ساتھ مقابلہ میں چندر شیکھر آزاد مارے گئے ، فیصلہ کے وقت بھگت سنگھ عدالت میں حاضر نہیں تھے ۔سرکاری وکیل نے ان کو آخر پھانسی کی کوٹھری نمبر چودہ میں فیصلہ سے آگاہ کیا ۔بھگت نے اپنے بچ جانے والے ساتھیوں سے کہا کہ دوستو ملنا اور بچھڑنا تو زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم پھر نہ ملیں جب تمہاری سزا پوری ہواور گھر جاﺅ تو دنیا کے کاموں نہ پھنس جانا ، جب تک انگریزوں کو ہندوستان سے نکال کر سوشلسٹ اقتدار قائم نہ کرلو آرام سے نہ بیٹھنا ۔یہ میرا آخری پیغام ۔یہ کہہ کر بھگت سنگھ راج گرو اور سکھ دیو کوٹھری میں آگئے ۔پھانسی ملنے تک بھگت سنگھ کمیونسٹ مینی فیسٹو اور لینن کی سوانح حیات اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا۔ بھگت سنگھ کا باپ ہرکشن سنگھ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لےے آتا رہا۔ کشن سنگھ :بیٹا شاید یہ آخری ملاقات ہو ۔بھگت سنگھ آپ نے کچھ سنا ہے کشن سنگھ ہاں بھگت سنگھ کیا ؟ کشن سنگھ تمہاری سکھ دیو ار راج گرو کی سزا کم نہیں ہوئی۔ گاندھی اردنی سمجھوتے کے تحت صرف کانگریسی قیدی رہا ہوئے ہیں ، کسی بھی انقلابی قیدی کو رہا نہیں کیا گیا ۔وائسرائے اپنے اختیارات استعمال کرکے موت کی سزا تبدیل کرسکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ گاندھی بھگت سنگھ کو رہا کروانے میں سنجیدہ نہ تھا۔ بھگت سنگھ شروع سے کہہ رہا ہوں کہ سرکار ہماری سزا کم نہیں کرے گی ۔کشن سنگھ: میں نے کچھ اور بھی سنا ہے۔ بھگت وہ کیا ؟ کشن سنگھ :گاندھی نے کہا کہ اگر تینوں چھوکروں کو پھانسی دینا ہی ہے تو یہ کام کانگریس کے کراچی سیشن سے پہلے ہونا چاہےے۔ بھگت: کراچی سیشن کب ہورہا ہے ؟کشن سنگھ: مارچ کے آخری ہفتہ تک ۔بھگت :تب یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ گرمیوں سے جان چھوٹ جائے گی ۔میں ہندوستان میں ایک بار پھر پیدا ہوں گا ہوسکتا ہے ایک بار پھر انگریزوں سے ٹکر لینی پڑے۔ میرا ہندوستان ضرور آزاد ہوگا ۔ آزاد ہندو فوج کے جنرل موہن سنگھ نے لکھا کہ گاندھی جی بھگت سنگھ کی پھانسی رکوا سکتے تھے لیکن انہو ں نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔ آخر کار 23مارچ1931 کو شام سات بجے گرو سکھ دیو کو پھانسی پر چڑھا کر سب اچھا کی رپورٹ۔ ان کی نعشیں راتوں رات فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے لے جا کر جلا دی گئی اور جلی نعشوں کو دریا میں بہا دیا گیا۔ یہ تمام کاروائی جیل اور پھانسی کے عام قواعد کے خلاف کیا گیا۔ بھگت سنگھ شہید ہوکر امر ہوگیا ا س نے شہادت بھی ڈھولے ماےے گاتے دی۔ بڑے بڑے بورژوا لیڈرز کے مناظر میں بتایا جاتا ہے کہ کوئی سہارا لے کر پھانسی گھاٹ گیا کسی کو سٹریچر پر ڈال کر لایا گیا لیکن یہ تینوں جان نثار نعرے لگاتے ناچتے گاتے شہادت کے مقام پر پہنچے کیونکہ وہ ایک آدرش کے لےے کام کررہے تھے۔ جب انسان کے سامنے ایک عظیم مقصد ہو تو حوصلے خود بخود بلند ہوجاتے ہیں ۔
یہ ان شیر دل شہیدوں کی داستان ہے جنہوں نے آزادی اور سوشلزم کے پرچم کو بلند رکھنے کے لےے اپنے خون سے سرخ کیا ۔ یہ ان مجاہدوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے آج سے تقریباً75 سال قبل تشدد کی پرخارراہوں سے گزر کر اس سماج کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا ، خطر پسند ی ان کے قدم چومتی تھی اور خوف و ہراس ان کے سائے سے بھی گریز کرتا تھا ۔اپنی قربانیوں سے ہمارے قومی وجود کو نیا شعور عطا کیا اور اپنے سوز یقین سے لاکھوں محبان وطن کے سینے درشن کےے۔ انقلابیوں کے اس قافلے کا راہبر بھگت سنگھ شہید تھا جس نے اپنے شہید سردار کی روایت کو زندہ رکھا۔ اس کا نام اجے کمار گھوش تھا ۔ لیکن رونا اس بات کا آتا ہے کہ 23مارچ کو جب پاکستان میں ہر سال یوم جمہوریہ کا جشن برپا ہوتا ہے شاید بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ ہوکہ یہی وہ دن ہے جب برصغیر کے مایہ ناز فرزند سردار بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں راج گرو اور سکھ دیو نے لاہور سینٹرل جیل میں تختہ دار پر چڑھ کر انقلاب زندہ باد کے نعرے بلند کےے اور صد سالہ برطانوی اقتدار کو لرزہ براقدام کردیا تھا۔ آج ہمارے ملک میں بیرونی امداد پر برطانیہ کے ان لوگوں کے بارے معلومات لے کر مال کمایا جارہا ہے ۔کچھ دنوں پہلے مجھے ایک دوست شہزاد عالم نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کے ڈی ی او سیکنڈری چوہدری ذوالفقار بھگت سنگھ بارے معلومات تلاش کررہے ہیں ان سے مل کر حیرانی ہوئی کہ وہ بھگت سنگھ بارے تحقیقات کرکے مال کمانے کے چکر میں ہیں اور انہوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے ڈی سی او آفس میں ایک سیل پی پی آئی قائم ہے جو برصغیر کے ان بہادروں کے بارے معلومات اکٹھی کررہاہے ۔ انڈیا میں تو قدرے ان جان نثاروں کی عزت کی جاتی ہے لیکن ہمارے حکمران چونکہ سامراجی گماشتے ہیں اس لےے انہوں نے آج تک ایسے لوگوں کے گھروں اور دیگر اشیاءکو قومی تحویل میں نہیں لیا ۔ہم کتنے احسان فراموش ہیں جن کی جدوجہد کے نتیجے میں آج ہم آزاد ملک میں رہتے ہیں ۔کاش اس پر بھی توجہ دیں ۔
برصغیر کی آزادی کے اس عظیم ہیرو نے 24 سال کی عمر میں آزادی کی جدوجہد میں تختہ دار پرجھول کر ایک روشن مثال قائم کردی لیکن ہمارے ملک کا المیہ دیکھےے کہ بھگت سنگھ شہید کی یاد میں شادمان کا نام بھگت سنگھ چوک نہیں رکھ سکے۔ میں بھگت سنگھ شہید کا دن بڑے احترام سے منایا جاتا ہے ۔انڈیا میں ورلڈ کبڈی ٹورنامنٹ کا افتتاح بھگت کے گانے ”مائے نی میرا بسنتی چولہ رنگ دے“ سے ہوا۔ اس سال بھی بھگت سنگھ کی سالگرہ پر ایک میلہ منعقد کیا جارہا ہے جس میں دنیا بھر سے سول سوسائٹی اور صحافت سے وابستہ لوگ شریک ہورہے ہےں ۔دنیا کی خاتون اول مشعل او با مہ نے بھی بھگت سنگھ کے اسی گانا پر ڈانس کیا تھا ۔کاش ہم بھی مذہبی تعصب سے نکل سکیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *