Home » قصہ » آدھی محبت ۔۔۔ ماہ پارہ

آدھی محبت ۔۔۔ ماہ پارہ

چاندنی اپنی روشنی لیے مہردر کے دامن میں اداس پڑی تھی نرگس کھڑکی سے باہر چاندنی اور آسمان کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کبھی نہ کبھی ہماری زندگی میں ایک ایسا شخص ضرور آتا ہے جس کے آنے کے بعد  ہماری زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔۔۔۔

ہم اپنے اندر بہت سے راز چھپائے رکھتے ہیں اور پھر وہی راز ہم اس اجنبی پہ افشاں کردیتے ہیں۔۔

وہ ہمیں یوں سنتا ہے جیسے وہ ہمیں سننے کے لیے ہی ملا ہو۔۔۔

اور ہم اس اجنبی کو اپنی شہ رگ سے زیادہ قریب تر محسوس کرنے لگتے ہیں۔۔۔

اسکے ساتھ زندگی مکمل محسوس ہوتی ہے۔۔۔

ہم مستقبل کے خواب اس شخص کے سنگ دیکھتے ہیں۔۔ اس شخص کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔۔۔

انہی سوچوں کی تعبیر کے پیچھے بھاگتے ہیں۔۔

وہ سوچ اس تتلی کی مانند ہوتی ہے جو ہمارے ہاتھ نہیں آتی اور ہمیں پسند بھی ہوتی ہے۔ہم اس تتلی کے پیچھے بھاگتے بھا گتے راستے بھٹک جاتے ہیں۔  وہ اجنبی ہمارے لئے اک آئینہ ہوتا ہے جس میں ہمیں ہمارا وجود نہایت حسین نظر آتا ہے۔۔۔

انہی سوچوں میں گم ایک آنسو اسکی آنکھ سے ٹپک کر اسکے گال کو بھگو گیا۔۔۔۔۔

اس نے حتمی فیصلہ کرتے ہوئے خود سے کلام کیا کہ۔۔۔

 

کل ہاں کل وہ ان تمام خوابوں  سے نکل کر خود کو جھلستی حقیقت کا سامنا کرنے پہ مجبور کردے گی۔۔۔۔

اگلی صبح اسے راشد سے ملنے جانا تھا وہ مقرر وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی پہنچ گئی تھی۔۔۔

راشد کو ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے دیکھ کر نرگس نے اک مصنوعی مسکان اپنے چہرے پہ سجا لی۔۔۔

راشد میز کی سامنے والی کرسی پہ براجمان ہوکر رسمی سلام دعا کے بعد گویا ہوا۔۔۔۔

نرگس میں تمھارے چہرے پہ کرب اور اداسی محسوس کرسکتا ہو تم چاہو چھپا لو مجھ سے۔۔لیکن چھپنے میں تم پھر بھی ناکام ہوجاتی ہو۔۔۔۔

تم کیوں نہیں مانتی مجھے تم سے محبت ہے میں تمھیں محسوس کرسکتا ہوں۔۔

مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔

تمھیں کیوں میری محبت کا یقین نہیں آتا۔

میں تمہارے لئے سب کچھ چھوڑ دونگا۔ تم مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہو۔میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں اور کب ہوا پر میں تمھارے بنا رہ نہیں سکتا۔ تمھیں اس بات پہ یقین کیوں نہیں آتا۔۔۔۔

راشد تڑپ کر بولا۔۔۔

نرگس مطمئن انداز میں بولی ہاں یقین ہے آپکی ہر بات پہ یقین ہے۔ آپکی محبت کا بھی یقین ہے۔ پر آپ جانتے ہیں آپ ایک آدھے مرد ہیں۔ آپ شادی شدہ ہیں۔ اگر یہ بات آپ مجھ سے پہلے دن نا چھپاتے تو شاید آپ کو آج یوں نہ تڑپنا پڑتا۔میں پہلے روز ہی آپ سے کنارہ کرلیتی۔خیر وہ ماضی کی ندامت تھی اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں کسی صورت آدھی محبت کی قائل نہیں ہوں۔ محبت کبھی بھی تقسیم نہیں کی جاتی۔۔۔

اس بار راشد جوشیلے انداز میں بول پڑا۔۔۔۔

ہاں میں جانتا ہوں میں نے تم سے یہ بات چھپائی کہ میں شادی شدہ ہوں اور اسکی وجہ تم جانتی ہو کہ میں کسی صورت تمھیں کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔

میں تمہارے لیے اس عورت کو چھوڑ دونگا۔۔۔

نرگس اک طنزیہ مسکان لیے بولی کیا کہا آپ اس عورت کو چھوڑ دیں گے جو چار سال سے آپکے ساتھ رہ رہی ہے، آپکی خوشی غم کی ساتھی ہے، آخر اچانک اس میں کیا کمی آگئی یا کیا برائی واقع ہوگئی کہ آپ اسے چھوڑ دیں گے۔۔

نہیں ایسا کچھ نہیں ہے بات بس اتنی ہے مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔

اور آپ اس محبت کو اپنی ملکیت سمجھ رہے ہیں مجھ سے پوچھے بنا میری رائے جانے بنا۔۔۔

اب کی بار راشد عاجزانہ انداز میں بول پڑا۔پوچھ تو رہا ہوں تم سے۔مان جاو۔میں اسے چھوڑ دونگا اور ہم ہنسی خوشی زندگی گزارے گے۔۔۔

نرگس نہایت کرب سے بولی۔۔۔ یعنی آپکی خوشی کی خاطر میں اپنی ہم ذات کی خوشیاں تباہ کردوں۔آپکی زندگی پر سکون بنانے کے لیے میں اسکی زندگی کا سکون چھین لوں۔ نہیں میں کسی کی بددعا لے کے خوش نہیں رہ سکتی۔بالکل بھی نہیں۔ میں اپنی ہم ذات کی آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ نہیں بن سکتی۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔۔

راشد بے حد پریشان ہوگیا۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ نرگس کو کیسے قائل کرے۔۔۔

ایک خاموشی کے بعد راشد نے تمہید باندھی دیکھو نرگس میرے پاس تمھارے علاوہ کچھ نہیں ہے مجھے مت چھوڑو مجھے اپنا لو۔۔۔

نہیں راشد آپکی زوجہ کے پاس بھی آپکے علاوہ کچھ نہیں ہے آپ کیسے اسے چھوڑ سکتے ہیں۔۔

راشد خاموش ہوگیا کیونکہ اسکے پاس اب نرگس کو قائل کرنے کا کوئی جواز نہ رہا۔۔۔

راشد کے چہرے پہ الجھن دیکھ کے نرگس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کیا سوچ رہے ہیں خاموش کیوں ہوگئے ہیں۔۔

سوچ رہا ہوں رب کو مناناکتنا آسان ہے جبکہ رب کے بندوں کو قائل کرناکتنا مشکل ہے۔۔۔

ہاں بالکل۔۔۔

تو آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ رب اپنے بندوں سے ناراض بھی ہوجاتا ہے۔۔

راشد بالکل خاموش رہا

جبکہ نرگس اسکے چہرے پہ نظریں جما کر بڑے سکون سے بولتی رہی۔۔۔

دیکھیں میرے رب کو وہ بندے بے حد نا پسند ہیں جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالیں،  نفرت پیدا کریں یا انکی علحدگی کا سبب بنیں۔۔

آپ کیا چاہتے ہیں میں اللہ کے نا پسند بندوں میں شامل ہوجاؤں۔۔

کیسی محبت ہے آپکی کہ مجھے میرے رب کے سامنے شرمندہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔

راشد کے پاس اب نرگس کی باتوں کا کوئی جواب نا تھا۔وہ بس اسے حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن وہ کسی صورت راضی نہ تھی۔۔۔۔۔

ایک طویل سناٹا چھاجاتا ہے ہر طرف اداسی بکھر جاتی ہے نرگس نے اپنے کرب کو چھپاتے  ہوئے خود کو سمیٹنے کی اک آخری کوشش کی۔۔۔

خاموشی توڑ دی اور اپنا ہینڈ  بیگ اٹھاکے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

راشد اُسے روکنا چاہ رہا تھا پر اسکے پاس الفاظ نہیں تھے جن کو جوڑ کے وہ اسے روکتا۔۔۔ راشد کی خاموش نگاہیں اور اجڑا چہرہ نرگس کا تعاقب تب تک کرتا رہا جب تک وہ آنکھ سے اوجھل نہ ہوئی۔۔۔۔

وہ چلی گئی تھی ہمشیہ ہمیشہ کے لیے۔  اس کے جانے کے بعد کافی عرصے تک راشد بے چین رہا۔۔۔

پھر وقت کی گردشوں میں نکل پڑا۔۔

آہستہ آہستہ مصروفیات بڑھتی گئی اور نرگس کی یاد میں کمی آتی گئی۔۔۔

آخروہ وقت بھی آیا جب نرگس اور اسکی یاد ذہن سے بالکل دور ہوگئی تھی اب اسکی یاد اک بوسیدہ عمارت تھی جس میں شازونادر ہی وہ کبھی کبھار بٹھک لیتا تھا۔۔۔

کئی سال گزر گئے اس واقعہ کو۔۔

ایک روز راشد کا اسلام آباد ایک تقریب میں جانا ہوا۔

وہاں نرگس بھی نظر آئی۔اسے دیکھ کہ راشد کو اپنی احمقانہ محبت کی داستان یاد آئی اور دل میں ہی وہ اپنی وقتی بیوقوفی پہ ہنستے ہوئے چہرے پہ مسکان لیے نرگس کی طرف بڑھا۔رسمی حال چال پوچھنے کے بعد راشد نے پوچھا سناؤ گھر بار کیسا چل رہا ہے شریک حیات کیسا ہے خوش ہونا تم۔۔۔۔

نرگس زور سے ہنس کے بولی:کونسا گھر کونسا شریک حیات اکیلی رہتی ہوں اور مزے سے رہ رہی ہو۔۔۔۔

مطلب میں سمجھا نہیں تم نے شادی نہیں کی۔۔۔۔

وہ پھیکی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے بولی نہیں۔۔۔۔

کیا کرتی آپکے بعد کوئی آپ جیسا ملا ہی نہیں  نا ہی کوئی اچھالگا۔۔۔۔۔

راشد کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا جوکہ لرزنے لگا۔۔۔

احساس ِندامت نے اسکی تمام سماعتں چھین لی تھیں گویا وہ کھڑے کھڑے مفلوج ہوگیا تھا۔۔۔

ماضی آہستہ آہستہ اسے کریدنے لگا جسے بھولے اسے زمانہ گزر گیا تھا۔ وہ آج بھی اسکی یاد میں زندہ تھی۔۔۔

لفظ راشد کے حلق میں اٹکنے لگے۔

وہ بڑی مشکل سے اتنا کہہ پایا مگر تم نے،تم نے تو مجھے کبھی کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔نرگس راشد کی بات کاٹتے ہوئے کرب سے بول پڑی کہ جنہیں اللہ کی رضا  اور اسکے بندوں کی  خوشی کی خاطر چھوڑتے ہیں انہیں جذبوں کا احساس نہیں دلاتے۔۔۔

لاتعلقی کا گمان ہی کافی ہوتا ہے۔۔۔۔

یہ کہہ کے نرگس پلٹ کے چلی گئی راشد کی بینائی پہ تاریکی چھاگئی۔۔۔۔

چائے کپ سے چھلک کر راشد کے کپڑوں کو داغدار کرگئی۔۔۔۔۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *