Home » پوھوزانت » زندگی کی حقیقتوں کا ترجمان شاعر‘ طاہر بونیری ۔۔۔۔۔ عبدالکریم بریالے ڈاکٹرجاوید اقبال

زندگی کی حقیقتوں کا ترجمان شاعر‘ طاہر بونیری ۔۔۔۔۔ عبدالکریم بریالے ڈاکٹرجاوید اقبال

شاعری کے تنقیدی اصولوں نے بَہت سی تحرےکوں اور شعراءکو ادبی سکرےن سے خارج کردےا اور اب یہ ماضی اور حال کے گردوغبار مےں نظروں سے اوجھل ہےں ہر شاعر کا چہرہ اپنے شعری آئینے میں واضح نظر آتا ہے۔
اب ہر شاعر تنقیدی معیاروں کو اپنے ساتھ لے کر آتا ہے یہ اور بات ہے کہ تنقید کے مروجہ سانچوں میں اپنا مقام پیداکرنا کٹھن کام ہے۔ بہت سے لوگ اپنی علمیت پر بیجا غرور کرکے ٹھوکریں بھی کھا چکے ہیں۔ آج ایک غلط رحجان سامنے آیا ہے کسی اہل ادیب کو اس کی اہلیت کے مطابق جائز مقام دینے اور پذیرائی کرنے پر بعض تنگ نظر لوگ ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی کی تعریف کرنے کو گناہ کبیرہ کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے تو شخصی عمارتیں کھڑی کردی ہیں۔ جس کی وجہ سے نئی نسل کو تحسین ناشناس اور سکونت سخن شناس کے مصداق جیسے موذی مرض میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یعنی جو ادراک نہیں رکھتے ہیں وہ تعریف کرنے میں مصروف ہیں اور جو صاحب ادراک ہیں ان کے منہ پر سکوت کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں حقیقی فنکار اپنی ذات کے آئینے میں تنہا کھڑا ہے۔
سکہ بند نقادوں نے جتنے بھی تنقیدی اصول مقرر کئے ہیں انہیں اپنے سیپاروں میں محفوظ رکھنا چاہیے۔ ایسے صورتحال میں فقط ایک حقیقت پسندانہ فیصلہ واضح ہے کہ شاعری خودنوشت اور باطن کی کیفیتوں کو لکھنے کی ایک اعلیٰ وارفع قسم ہے۔ شاعر جتنے بھی مصائب وآلام اور ذہنی کوفت سے گزرتا ہے اسے علامتی اور استعاراتی شکل میں شاعری ہی میں پیش کرتا ہے۔باطن اور خارج کے مسائل غلامی آزادی حب الوطنی کے احساسات سامراجی نظام کی بھیانک تصویریں اور ناانصافیوں کی مذمت جیسے موضوعات اس کے کلام میں نظر آتے ہیں جیسا کہ قلبی کیفیت فلم کے سین کی طرح ایک انسان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہے۔

امریکہ کے ایک جدید شاعر سینڈبرگ شاعری کے متعلق ی±وں لکھتے ہیں۔
“شاعری ایک دروازے کے کھلنے اوربند ہونے کی وہ کیفیت ہے جو دیکھنے والے کوپیچھے چھوڑ جائے اور دیکھنے والے کو یہ اندازہ لگانا چاہئے کہ اس نے اس لمحے میں کےا دیکھ لیا ہے۔”
بالکل یہی کیفیت طاہربونیری کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے جو ایک لمحے میں خارج اور باطن کا سارا منظر نامہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ طاہر کی شاعری انسانی رویوں کی ایک ہمہ گیر علامت ہے جو حقیقی رویوں کی بدولت موصوف نے اپنے شعری مجموعے کے لئے “دل میں بسنے والے کون ہیں” جیسا خوبصورت نام منتخب کیا ہے ذرایہ اشعار ملاحظہ ہو (ترجمہ)

اس گاوں کے نوجوانوں کی زندگی کو جب دیکھتا ہوں تو اس دور کے المیے یاد آجاتے ہیں۔
سماج کے رسم و رواج میں ہم کتنے جکڑے ہوئے ہیں۔کتنی ملاقاتیں اور گلے شکوے ادھورے رہ گئے ہیں ؟۔
محبت دلوں میں کاشت کرنے کا تقاضا کرتی ہے زندگی کی قدریں تبدیلی کی متقاضی ہیں۔
اندھوں کو تو چھوڑ دیدے بینا والے بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر روشنی پےیل گئی تو ہم سب بے نقاب ہوجائیں گے۔
v اگرچہ ہم بےوکے اور پیاسے ہیں پےر بےی ہمارے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے ہم کتنے خوددار لوگ ہیں کہ ہمیں بھوک اور پیاس کا احساس تک ہی نہیں۔
جب دوستوں پر جمود طاری ہوگیا تو اندےیروں میں ایسے گم ہوگئے کہ میں روشنی کی تلاش میں نکل کر ان سے الگ کھڑا ہوگیا ۔
مندرجہ بالا اشعار سے یہ متشرح ہوتا ہے کہ ان کے افکار سے قلبی اور بیرونی حقیقتوں کا ہیولادن کی روشنی میں ایک صحیح اور مثبت جہت کی رہنمائی یا نشاندہی کرتی ہے اور فنی اعتبار سے قاری با آسانی اس کے ڈکشن کی لطافتوں کو محسوس کرتا ہے ۔جدید شاعری میں الفاظ و خیالات یکسانیت اور ایک دوسرے سے سطحی تاثر لینے کی وجہ سے بعض اوقات اتنے بوسیدہ اور پراگندہ لگتے ہیں کہ قاری مطالعہ کے دوران اکتاہٹ محسوس کرتا ہے اور دلبرداشتہ ہونے لگتا ہے۔ تکرارشدہ مضامین اور تراکیب کا اس طرح استعمال یوں لگتا ہے جیسا کوئی صبح و شام کپڑے تبدیل کرنے کے عمل سے گزر رہا ہو جو دائمی اثر نہیں چھوڑتا۔ پشتو کا جدید مکتب اس ادبی اختراع یا نئی تشکیل کو کس نام سےیاد کرے گا جبکہ سب شعراء پر ایک ہی رنگ چھایا ہوا ہے۔ ان کے خیالات کے زیر اثر نئی تشکیل کا سماں ےوں محسوس ہوتا ہے جیسے سب احرام کی حالت میں ہیں۔ صاحب امتیاز کی کوئی نشانی باقی نہیں رہی ۔صاحب اسلوب شعراء گنتی کے رہ گئے ہیں۔ ایسے شاعروں کی تقلید میں بعض نئے نوجوان شعراءاپنی باتوں کا پلستر لگاکر شعر تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوشش میں اکثر ناکام ہی رہے ہیں۔ یہ المیہ ہماری شاعری کو درپیش ہے ۔ معاشرتی صارفین کا ایک خارجی دبستان ہمارے سامنے موجود ہے جس سے فکروخیال قوت حاصل کرتا ہے مثلاًبے روزگاری،غریب الوطنی تھکا دینے والی میکانکی زندگی،معاش کے مسائل،وطن کی بدحالی، پشتونوں کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ لاعلمی کا رویہ، لیڈرشپ کا بحران، مستقبل کے مواقع،ظلم و جبر اور احساس جمال سے عاری معاشرے میں جذبے اور تجربے کی کمی شاعرانہ احساس تمیز مسابقت کا جذبہ ایسے عوامل ہیں جوہماری فکری اور تخلیقی کاوشوں کو تحریک دیتی ہیں اور ہمارے احساسات و جذبات پر اثرانداز ہوتی رہتی ہیں۔ ایک اور مسئلہ جس کا معاشرے میں اکثر لوگ شکار نظر آتے ہیں وہ یہ کہ جوانی کے پہلے مرحلے میں انسان کو اپنی قابلیت پر کمال کا گمان ہونے لگتا ہے۔ 25 سال قبل میرے ایک دوست شاعر کو شعری تجربوں کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تفسیر لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی ذات کو نہ سمجھنا اپنے آپ کو نہ پہچاننے کے مترادف ہے جو ایک المیے سے کم نہیں۔ لیکن طاہر ایک ایسا انسان ہے جس نے پہلے اپنے آپ کو پہچان لیا بعد میں اپنی ذات کی تفسیر لکھنے کے لیے ایک لمحہ دل کی گہرا ئیوں سے چاہت کا وہ جذبہ جس سے دلوں کو پرویا گیا ہو حوادث کا انبار انتہائی شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے شعر کے بے ساختہ تار سے رفو کیا ہے جس میں عالمگیریت،محبت اور انسان دوستی نمایاں نظرآتی ہے۔ جب میں اس کی شاعری کو پڑھتا ہوں تو ایک لفظ اور کیفیت بدلنے کو دل نہیں کرتا اور نہ یہ جرات کرسکتا ہوں۔ روس کا ایک نوجوان مصور پیرس چلا گیا طالب علمی کے دور کے ایک سکول ٹیچر سے اس کی ملاقات ہوئی ۔بعد میں تصاویر دِکھانے کے لیے اسے اوپر سٹوڈیو لے گیا۔ تصویروں میں ایک ہاتھی کی تصویر تھی۔ استاد نے جب تصویر کو دیکھاتو کہنے لگا کہ یہ آپ نے بنائی ہے ہاتھی کے دانت تو ٹیڑھے اور خمدار ہوتے ہیں آپ نے تو بلکل سیدھے بنائے ہیں اس کی ناک بھی صحیح نہیں بنائی ہے پھر جب میں واپس آو¿ں تو یہ ٹھیک ہونی چاہیے ۔شاگرد نے اثبات میں سر ہلایا استادجب دوبارہ واپس آیا تو کہنے لگا کہ تصویر اب بالکل صحیح ہے لیکن مصور نے اسے مخاطب ہوکر کہا کہ اس تصویر سے میں نے اپنے آپ کو نکال لیا ہے اب یہ صرف ہاتھی رہ گیا ہے۔
طاہر بونیری کی شاعری میں یہ کمال ہے کہ ایک اچھے تخلیق کار کی حیثیت سے اپنے فن میں ہر وقت موجود رہتا ہے اور اگر موصوف نے تخلیق میں اپنے آپ کو شامل نہ کیا تو بہت سے شعراءکی طرح صرف ہاتھی ہی رے جائے گا مندرجہ ذیل اشعار کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

آپ لوگ ماضی اور درباری تاریخ کو اور بھی برہنہ کریں لیکن میں اس سوچ میں پڑگیا ہوں کہ آج حق لکھنے والے کون ہیں۔
میں کعبہ اور بت خانہ کےساتھ دل کا رشتہ استوار نہیں کرتا مجھے یقین ہے کہ آگ کا جلا ہوا آگ ہی سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔
طاہر اتنی تاب کس شخص میں باقی تھی ہم نے موت کہ منہ میں زندگی کی بازی کھیلی ہے۔
اے خدا اس دفعہ پشتونوں کو کس نے بددعا دی ہے جو اپنی سرزمین پر رہتے ہوئے بھی مسافروں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔
طاہر بونیری ایک ایسے خطے کا باسی ہے جو تاریخی حوالے سے اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ ایلم کے مقدس پہاڑ کے سائے تلے پیربابا کے گاو¿ں کے رہنے والے اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے نہایت فیاضی کے ساتھ فہم و ادراک کی نعمت سے نوازا ہے۔ مساوات، بھائی چارے،انسان دوستی کی بدولت پشتونوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے دبلا،پتلا،لاغر،کمزور، خوش اخلاق، رساذہن کا مالک‘ ہر حال میں خوش طاہر بونیری ایک ایسا انسان ہے جو اپنی ذات میں انجمن ہے اور انجمن میں تنہا۔ پہلی ملاقات میں ان کا ادراک ممکن نہیں نقش بندی صوفیوں کی طرح خلوت در انجمن کے مستقل عمل سے شغف رکھتے ہیں۔موصوف کا علمی اور ادبی حلقہ بہت وسیع ہے خوش اخلاقی اور بذلہ سخنی کا ایک مرقع ہے۔ پشتو ادب کی خدمت میں شب و روز مصروف رہتا ہے کوئٹہ سے شائع ہونے والے پشتو اخبار “زلاند” کے ادبی صفحے کا ایڈیٹر ہے اور اس اخبار میں مستقل کالم بھی لکھتا ہے۔ محکمہ جنگلات کے بعد اب اس وقت پاکستان کونسل برائے آبی تحقیقاتی کونسل منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوئٹہ میں اپنی سرکاری فرائض انجام دے رہا ہے اور عوامی شعور آگہی کیلئے پانی اور گلیشئر کے موضوعات پر لکھے گئے متعدد مضامین بھی ٹرانسلیٹ کئے ہیں۔ یہ اشعار ملاحظہ ہو۔
v ہم تو بدھ مت اور رام کے ماننے والوں کو بھی اپنے بھائی سمجھتے ہیں مگر ہمیں ایک ہونے کے لیے دل دکھا دینے والے فتویٰ گر نہیں چھوڑتے۔
v بامیاں میں سے جب ہم اپنی ماضی اور اثارقدیمہ کو توپوں سے ا±ڑارہے تھے تو بت شکن محمود نے ہماری سادگی کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا۔
موجودے دور کے پرتشدد رویوں اور مذہبی تسلط کی وجہ سے شاعر کا لہجہ بعض اوقات جارحانہ ہو جاتا ہے لیکن وہ صرف اور صرف حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے جوکہ اس کا فطری حق ہے۔ طاہر کی شاعری میں لے “آہنگ ” لفظی خوبصورتی سادگی اور مسحورکن لہجہ ایک حسین امتزاج پیش کرتا ہے مکالمے کے اسلوب میں حالات وحوداث کی خوبصورت تصویر کشی موثر انداز میں پیش کرتا ہے۔
ترقی پسند سوچ رکھنے والے گزشتہ پندرہ سالوں سے ایک کربناک اذیت سے گزر رہے ہیں ۔سویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا نتیجتاً کئی نئے ممالک وجود میں آگئے ۔نائن الیون کا واقعہ پیش آیا دہشت گردی کا لفظ جہاد کے مغربی ڈکشن کے بھینٹ چڑھ گیا جہاد اور دہشت گردی کا مفہوم بدلنے کے لیے سامراجی قوتیں پانچ سالوں سے مسلسل چشم پوشی سے کام لے رہی ہیں ۔روشن فکر تحریک کے باقیات انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ گزشتہ ستر سالہ دور معروضی ادب کا ایک زرین دور تھا اور اس میں نہایت اہم تخلیقی کام ہوئے ۔اب اس ادب کو کونسی لائبریری اور کونسی طاق نسیان میں رکھا جائے۔ وہی مظلوم انسان اور بے بس پشتون استعماری قوتوں کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے ۔اقوام متحدہ ایک بے مقصد اور بے اثر ادارے کی مانند یہ سارا تماشہ دیکھ رہا ہے ۔تیسری دنیا مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ مسلمان مغربی استعمار کے جال میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ وسائل رکھنے کے باوجود بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پسماندہ ممالک ترقی یافتہ ممالک کے محتاج ہیں اور اس وجہ سے ان کی اندرونی پالیسیوں میں بالواسطہ ےا بلا واسطہ دخل اندازی کی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جمہوری سوچ رکھنے والے افراد صرف جدلیاتی نظام کی اساس آزادی کی فکرکو پروان چڑھانے کی تگ و دو میںمصروف عمل دکھائی دیتے ہیں اور مختلف اداروں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرتے رہتے ہیں۔ طاہر اپنے مخصوص اسلوب اور ڈکشن کی وجہ سے شاعروں کے اس جم غفیر میں ایک امتیازی خاصیت رکھتا ہے۔ موصوف زندگی کے حقیقی رویوں کا گہرا مشاہدہ رکھتا ہے۔ زندگی کے جمالیاتی پہلو کا جائزہ ایسے نرم لہجے میں کر لیتا ہے کہ قاری کے ذوق کو تسکین دیتا ہے مندرجہ ذیل اشعار کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

* میں کہیں نئی فکر اور نئی زندگی کی تلاش میں نکلا ہوں یہاں تو لوگوں کی سوچ محدود ہے اور کنویں کے مینڈک کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔
* سامنے پہاڑ کے دامن میں وہ گھر کس کا ہے تو کہتے ہیں کہ وہاں پر پریاں رہتی ہیں۔
* ہمارا مسکن ایک ایسی جگہ ہے جہاں سارے آدم خور رہتے ہیں۔
* یہاں پر تو صرف فنا عقبا اور موت کی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔یہاں تو کوئی بھی زندگی کے حوالے سے بات نہیں کرتا۔ سیاہ فام قتل ہو رہے ہیں سفید فام خوشیاں منانے میں مصروف ہیں۔
ایسی صورتحال میں جب شاعر ایک مقصد کے لیے تگ ودو کرتا ہے اور اس کی تکمیل نہیں ہوئی جہاں انصاف نہ ہو اور محکومیت کا گہرا احساس ہو اور اس کی ذات بھی محکومیت کے شکنجوں میں جکڑا ہوئی ہو تو پھر وہ ایسے منفی رویو ں کے خاتمے کے لیے جہاد کا علم بلند کرتا ہے۔ فطری شاعرنفرت غلامی اور بے اطمینانی کے ماحول میں بھی آزاد جذبوں کا خالق ہوتا ہے حقیقی اور فطری شاعر ہی تو وہی ہوتا ہے جو زندگی کی مکمل تفسیر پیش کرے۔ غلامی کے فلسفوں رواج اور دھرم کے جابرانہ تسلط پر قدغن لگانے والے حقائق کے امین ہوتے ہیں۔ خودنگرشاعر فقط اپنی ذات کے لیے نوحہ گری کرتا ہے وہ تو ہمیشہ خام خیالی کے منتشر تصورات کے جال میں پھنسا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
طاہر نے شاعری میں اپنی ذات کی بجائے سماج کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ اس کے تخلیقی انداز میں تنقیدی شعور بھی شامل ہے جس نے اس کے فن کو دوام بخشا ہے ۔موصوف کی شاعری میں حقیقی زندگی کی گونج محسوس ہوتی ہے اس کا ہر شعر دل میں اترتا ہے گزشتہ سال پشتو کے شائع شدہ شعری مجموعوں میں اس کا امتیاز اپنی جگہ پر قائم ہے اور تابناک مستقبل اس کا استقبال کررہا ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *