Home » قصہ » دوسری کمائی ۔۔۔ افضل مراد

دوسری کمائی ۔۔۔ افضل مراد

”یہ سچائی اور اچھائی کی باتیں اب کوئی نہیں سنتا اور نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ آپ کے پاس پیسہ کتنا ہے آ پ  کا سٹیٹس کیا ہے؟ بس اس پر ہی تولا اور پرکھا جاتا ہے“

فدانے کروٹ بدلتے ہوئے زیروکا بلب جلاتے ہوئے کہا۔

سوشل میڈیا پر اکثر و بیشتر کرپشن کے کیسز اور اُن واقعات کے حوالے سے ٹی وی چینلز پر ہونے والی گفتگو سن کر وہ کچھ لمحوں کے لئے حواس باختہ ہوجاتا۔ اسے بہت غصہ آتا …… اُس کا جی چاہتا کہ ایسی خبریں بنانے والے …… ایسے ویڈیوز بنانے والے اور ایسی گفتگو کرنے والوں کا منہ توڑ دے، ان کو جان سے ما ردے …… اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے یہ ساری گفتگو اُس کے خلاف ہورہی ہے۔ اسے سامنے رکھ کر کرپشن، کرپشن کا ڈرامہ کھیلا جارہا ہے۔ وہ دل ہی دل میں اس بات پر کڑھتا رہتا لیکن وہ اپنی یہ کیفیت اور اپنا یہ خیال کسی کے ساتھ دھرانے سے کتراتا ……!!!۔

جون کا مہینہ آنے کو تھا۔ بجٹ کی تیاری زوروں پر تھی فدا صبح سویرے دفتر کے لئے نکلتا اور سیکریٹریٹ،اے جی آفس اور سی اینڈ ڈبلیو کے دفتر کے چکر لگاتا۔فائلوں پر فائلیں اٹھاتا اور پسینے بہاتا رات گئے اپنے گھر پہنچتا تھاگھر میں بھی اکثر سونے سے پہلے تک کمپیوٹر اور وٹس ایپ پر بجٹ کی معلومات اپنے افسروں کے ساتھ شیئر کرتا رہتا۔ اُس کے محکمے کے افسر بالا نے سختی سے منع کیا تھا کہ بد عنوانی اور کمیشن مافیا کو کہیں بھی داخل ہونے سے روکا جائے اور کوشش کی جائے کہ کرپشن سے پاک معاشرے کی روایت ڈالی جائے۔فدا نے ایک ٹی وی چینل پر اپنے باس کی یہ باتیں سنیں تو زیر لب مسکرایا۔اُس کی بیوی نے چائے کا کپ اسے تھماتے ہوئے اُس کی مسکراہٹ کی وجہ پوچھی۔ فدا نے کہا ”ہمارے باس بڑے ذہین اور بڑے زیرک انسان ہیں۔وہ اکثر میڈیا پر اور میٹنگوں میں یہی بات کرتے ہیں ہمیں اس کا بڑا فائدہ ملتا ہے“۔

بیوی نے حیرت سے پوچھا ”فائدہ …… کیسا فائدہ؟“

”تم نہیں سمجھوں گی …… یہ جو تمہارا کچن ہے نا اور اس کے اخراجات ہیں اس کا فائدہ تمہارے کچن سے تمہارے بینک لاکر تک پہنچتا ہے لیکن تمہیں کیوں ساری بات بتاؤں۔جاؤ تم اپنا کام کرو“

بیوی نے موقع غنیمت جا ن کر اس کے بہت قریب آکر کہا …… ”یاد رکھنا تم نے کہا تھا کہ اس جون میں جتنا کام ہوگا اُس سے میرے لئے ایک نیا سونے کا سیٹ بھی لیں گے او ربچوں کے نام ایک ایک پلاٹ بھی ……!!!“۔

فدا نے پیار سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا۔’’دعا کرو حالات اسی طرح چلتے رہے تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوگاورنہ جس کے گلے میں رسی پوری آگئی وہ آج تک عدالتوں کے چکر لگائے جارہا ہے۔“

فدا کامحکمہ ان کے علاقے میں ترقیاتی اخراجات کے مد میں سال بھر کام کر تا رہتا۔سالانہ بجٹ کے ساتھ ساتھ مختلف ملکی اور غیر ملکی ادارے جو امداد دیتے اُس کے لئے بھی ان کا ادارہ تعمیرات کا مجاز تھا۔اُن کے محکمے میں سب سے زیادہ اہمیت ٹھیکیدار کی ہوتی تھی۔مختلف تعمیراتی کمپنیوں کی جانب سے انہیں تحفے تحائف اور دعوتیں ملتی رہتی تھیں اکثر ٹھیکیدار اپنے کسی اگلے ٹھیکے کی منظوری کے لئے کافی پہلے سے انویسٹمنٹ کر رہے ہوتے جو ٹھیکیدار صرف اپنی محنت اور اپنی مشینری پر بھر وسہ کرتے وہ اکثر ٹینڈر ز کے اوپننگ کے دن اپنا سا منہ لے کر جاتے۔فدا کو اس دفعہ پلاننگ ڈویژن سے پانچ ارب سے زیادہ کی سکیموں کا تحفہ ملا تھا جس میں مختلف اداروں کے لئے نئی بلڈنگز اور ریپیئر کے مد میں بھی خاصی رقم پی ایس ڈی پی میں رکھے گئے تھے۔فدا نے اپنے ہم خیال دوستوں کو ایک فائیو سٹا ر ہوٹل میں کھانے پر بلایا تھا اس موقع پر بجٹ ایلوکیشن کے بعد اپنے کن کن کمپنیوں سے کوٹیشن لینے ہیں اور اپنے بیٹوں،بھتیجوں اور سالو ں کے نام پر قائم کاغذی کمپنیوں کو دوبارہ ترو تازہ کرنے کے علاوہ اپنے مزاج کے ٹھیکیداروں اور مختلف ذمہ داریوں کے لئے کمیشن کا تعین کیا گیا۔

                فدا کا محکمہ برسوں سے اپنی ترقیاتی کاموں اور ان میں ہونے والی بد اعتدالیوں کے بارے میں کافی شہرت رکھتا تھا۔اب کئی لوگ اس محکمے میں پوسٹنگ کے لئے منسٹروں اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع کو بھی استعمال کرتے تھے اور اپنی پوسٹنگ کے لئے خطیر رقم بھی دینے کوتیار رہتے تھے۔فدا کے ماموں ریٹائرڈاسسٹنٹ کمشنر تھے۔انہوں نے فدا کو جونیئر کلرک کے طور پر بھرتی کروایا تھا اب ترقی کرتے کرتے فدا اپنے محکمے میں افسربن چکا تھا اس کے بچے باہر کے اعلیٰ اسکولوں میں پڑھ رہے تھے۔ گھر میں وہ اس کی بیوی اور نو مود بچہ تھااس کے علاوہ اس کے خاندان کے کم آمدنی والے خاصے لوگ اُس کے دست نگر تھے۔ فدا اُن کی مدد کرکے اپنی معتبری میں اضافہ کرتا اور دل ہی دل میں یہ سمجھتا تھا کہ اُس کی بد اعتدالیاں اور اوپر کی آمدنی کی سزائیں معاف ہوتی جارہی ہیں۔ اُس کے علاوہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھتے ہوئے ہر دوسرے شخص کی طرح فدا بھی اپنا سٹیٹس، اپنی معتبری اور دکھاوے کی صورتیں اپنائے ہوئے تھاپھر وہ یہ بھی سوچتا تھا کہ ”میں اکیلا تو نہیں ہوں“…… ”صرف میں ہی اپنا بیلنس اور اپنی جائیداد بڑھانے میں نہیں لگا …… صرف میں ہی پیسہ کی محبت میں گرفتار نہیں …… میرے ساتھ ایک بڑی تعداد ہے۔ یہ سب میرے دوست، میرے بھائی اور میرے خیر خواہ ہیں جب ان کو کچھ نہیں ہورہا …… جب یہ بھی پلی بارگین کر سکتے ہیں تو میں بھی ……!!!“۔

                فدا کی بیوی نیٹ سے سونے کی نئی ڈیزائن نکالنے کے لئے کمرے میں آئی تو فدا کی سوچ اور تشویش میں دراڑ پڑگیا۔اُس نے مسکرا کر بیوی کی طرف دیکھا بیوی اس کے بہت قریب بیٹھ کر بولی ……۔

”پریشان ہو کیا، کوئی بات ہے تو مجھ سے شیئر کرو“

”نہیں ایسی کوئی بات نہیں!!میں سوچ رہا تھا کہ یہ جون کا مہینہ ہر سال بڑی خواری کا مہینہ ہوتا ہے۔“

                 اُس کی بیوی بات کاٹتے ہوئے بولی!۔

                ”خواری کے ساتھ لیکن فائدے بھی اس مہینے میں بڑے ہیں …… میں تو سال بھر اس مہینے کا انتظار کر تی ہوں۔ چلیں چھوڑ یں یہ ڈیزائن دیکھ لیں اور موڈ ٹھیک کر لیں۔ میں نے ایڈوانس کے لئے کہا ہے“

                فدا …… ”ابھی تو کوئی پیسہ نہیں آیا“

                بیوی …… ”آ جائے گا صرف چیک بننے کی دیر ہے آپ کسی سے 20لاکھ لے کر دے دیں۔ پلیز میری خاطر!!!“۔

                فدا …… ”یار!میں کیا کروں اوپر بھی مجھے ایک کروڑ سے زیادہ دینے پڑ  گئے میں نے اپنا بیلنس زیرو کر دیا“

                بیوی …… ”اچھا ٹھیک ہے آپ نہیں چاہتے تو میں کینسل کرا دیتی ہوں یہ آرڈر!“۔

                بیوی جانے لگتی ہے فدا اسے روکتا ہے۔پیار کرتاہے بیوی کی آنکھوں میں مگر مچھ کے آنسو آتے ہیں۔ فدا محبت بھرے لہجے میں کہتا ہے۔

                ”کرلو ں گا تمہارے لئے بندوبست، موڈ ٹھیک کر لواس مرتبہ لمبا ہاتھ لگا ہے میں تمہیں اور بچوں کو دبئی کی سیر بھی کراؤں گا “

                بیوی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے وہ کہتی ہیں۔

                ”اچھا اچھا آپ کو وعدے کرنے کی عادت ہوگئی ہے۔امی ابو کے گھر تک نہیں لے جاسکتے دبئی لے جاؤ گے“

                دونوں مسکرا کر ایک دوسرے کی تسلی کراتے ہیں۔

                خوشگوار اور خوبصورت صبح کا آغاز ہوچکا ہوتا ہے۔فدا کے بچے سکول جانے کی تیاری کر رہے ہو تے ہیں۔فدا تولیہ کاندھے پر ڈالے واش روم سے نکلتا ہے اور بیوی کو جلدی سے ناشتہ لانے کا کہہ کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ جاتا ہے۔سامنے پڑے ہوئے اخبارات اٹھاتا ہے۔ اخبار کی پہلی سرخی پڑھ کر اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاجاتا ہے۔اس کی آواز گلے میں اٹک جاتی ہے وہ بہ مشکل کرسی سے ٹیک لگاتا ہے بیوی چائے لے کر آتی ہے تو اُس کی کیفیت کو دیکھ کر گھبرا جاتی ہے فدا کچھ نہیں کہتا ……اور لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اخبار بیوی کی جانب بڑھاتا ہے جس میں نمایاں سرخی لگی ہوتی ہے۔

                ”حکومت نے نئے بجٹ میں شامل تمام پی ایس ڈی پی اسکیموں کو روک دیا ہے۔ اس سلسلے میں اربوں روپوں کی رقم کرپشن سے بچ گئی حزب اختلاف نے اسے مرکز کی چال قرار دیتے ہوئے اربوں روپوں کے لیپس ہونے کا الزام لگایا“

                ایمبولینس کی تیز رفتار سائرن کی آواز دور سے قریب ہونے لگی۔ فدا کے گھرکے سامنے چند ہمسائے نظر آئے۔ رونے اور چیخنے کی آوازو ں کو ہوٹر کی آواز نے دبوچ لیا تھا۔ لمبی سڑک اور ایمر جنسی وارڈ کے درمیان کا فاصلہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔سینے میں اٹھنے والی درد کی ٹیسوں سے فدا کا دم گھٹنے لگا تھا۔وہ بے چینی میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگاتا ہے اس کی آواز جیسے حلق میں پھنس رہی تھی۔ اُس نے دبے الفاظ میں بیوی سے کہا۔

                ”میری سانسیں …… میری یہ سانسیں …… سانس نہیں آرہی ہے مجھے“۔

                اُس کی بیوی نے پوری بات سمجھے بغیر راز دار انہ انداز میں کہا

”آپ گھبرائیں نہیں سونا میں نے محفوظ رکھا ہے“

                فدا کی آنکھیں سانسوں اور سونے کی بالیوں کے درمیان منجمند سی ہوتی جارہی تھیں!!!۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *