Home » یوسف عزیز مگسی سیمینار » ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں عبدالعزیز کرد اور یوسف عزیز مگسی نے ینگ بلوچ اور بعد میں انجمن اتحاد بلوچاں کے پلیٹ فارم سے شعوری سیاست کی بنیاد ڈالی۔ انگریز سامراج نے 1839میں قلات پر حملہ کر کے میر محراب خان اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر کے صدیوں پر مشتمل بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا تھا اور مختلف معاہدات خان آف قلات سے کر کے بلوچ وطن کی مرکزیت کو ختم کرنے کی سازشیں شروع کر چکے تھے۔ بلوچ وطن کے علاقے، کوئٹہ، چاغی،مری بگٹی علاقے، بارکھان، بولان، اور نصیر آباد کی کچھ علاقے اور گنڈا مک معاہدہ سے حاصل کردہ افغان علاقے یعنی لورالائی، پشین اور ژوب کو ملا کر برٹش بلوچستان بنایاگیا۔ اور گولڈ سمتھ اور میک موہن لائن بلوچوں کے سرزمین پر کھینج کر کچھ بلوچ علاقے ایران، کچھ افغانستان کے حوالے کیے۔ ڈیرہ غازی خان کو پنجاب اور جیکب آباد کو سندھ کو بخشا۔ اس طرح سامراج نے نصیر خان نوری کے بلوچستان کو تقسیم کر کے بلوچ مرکزیت کو کمزور کیا گیا۔ بد قسمتی سے انگریز سامراج کی سازشوں نے بہت سے ریاست قلات کے سردار بھی شامل تھے۔

یوسف علی مگسی نے ریاست قلات میں انگریز کے وزیرا عظم سرشمس شاہ کی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی اور شمس گردی کے نام پر یوسف علی مگسی نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں سر شمس شاہ کے تمام ظلم و زیادتیوں کو اُجاگر کیا گیا۔ جس پر سردار ان نے وزیراعظم کی ہدایت پر خان آف قلات پر دباؤ ڈالا کہ وہ یوسف عزیز مگسی کو گرفتار کرلیں۔ چنانچہ یوسف عزیز مگسی کو گرفتار کر کے جرگہ کے سامنے پیش کیا جو انگریز کا پسندیدہ کورٹ یعنی سرداری جرگہ تھا۔ اور جرگہ نے ایک سال قید کی سزا دی۔ بعد میں اس کے دور فیقوں میر عبدالعزیز کرد اور خان عبدالصمد خان اچکزئی کو گرفتار کر کے تین سال سزادی۔

انجمنِ اتحاد بلوچستان نے 1932میں جیکب آباد میں (بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس) منعقد کی۔ اگلے سال 1933میں حیدر آباد میں اِسی طرح کا ایک اور کانفرنس منعقد کی۔

یوسف عزیز مگسی نے نہ صرف اپنی تحریروں کے زریعے ریاستی ظلم و جبر کی مخالفت کی بلکہ اپنی خوبصورت شاعری سے بھی بلوچوں کو خواب ِ غفلت سے جاگنے کی کوشش کی۔

ریاستِ کلات کی زیادتیوں کے خلاف مگسی قبیلہ بطور احتجاج سندھ چلا گیا۔ رہائی کے بعد یوسف عزیز مگسی برطانیہ چلے گئے۔ تاکہ حکومت برطانیہ کو ریاست ِ خلاف کی اصل پوزیشن بتاسکے۔ لیکن حکومت برطانیہ اپنی توسیعی پسندانہ عزائم کے نشہ میں تھی۔ اور یوسف عزیز مگسی مایوس ہوکر وطن لوٹے۔ وہ31مئی1935کے تباہ کن زلزلے کی وجہ سے کوئٹہ میں شہید ہوئے۔

آج یوسف علی مگسی ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی فکر جو نواب ہوتے ہوئے بھی قبائلی سماج کے سخت خلاف تھی۔ وہ ایک سچا قوم دوست انسان تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ بلوچوں میں تعلیم عام ہو جس کا عملی مظاہرہ جامع یوسفیہ کا سنگِ بنیاد رکھا۔

اب ہم سب کی نظریاتی ذمہ داری ہے کہ یوسف عزیز مگسی کے فکری فلسفہ کو تقویت دیں اور بھر پور جدوجہد کریں تاکہ اس کی روح کو سکون اور ہمیں اپنے قومی معاشی اور ثقافتی حقوق مل سکیں۔

Spread the love

Check Also

یوسف عزیز مگسی سیمینار۔۔۔۔رپورٹ: محمد نوازکھوسہ

بلوچستان اور بلوچ سیاست کے امام، علم و دانش کے چراغ، قومی وطبقاتی جدوجہد کے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *