Home » یوسف عزیز مگسی سیمینار » یوسف اپنے خطوط کی روشنی میں ۔۔۔ محمد نواز کھوسہ

یوسف اپنے خطوط کی روشنی میں ۔۔۔ محمد نواز کھوسہ

بلوچ سرزمین اور بلوچ قومی عوامی عوامی سیاست کے اولین رہنما یوسف عزیز مگسی کی مختصر زندگی کے اتنے روشن پہلو ہیں کہ ان کا مکمل احاطہ کرنا نہ ممکن ہے۔ اس کی عملی زندگی (1929سے 1935تک کم وبیش 6سالوں پر مشتمل ہے۔ عین جوانی ہی میں کوئٹہ کے تباہ کن زلزلہ نے ہم سے یہ قومی اثاثہ چھین لیا۔ اس بے مثل و بے نظیر قومی  رہنما کے بلوچ سرزمین اور اس میں بسنے والے مظلوم و مقہور لوگوں کے لیے قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ اس درد مند انسان نے اپنے قریبی دوستوں کو مختلف اوقات میں خطوط لکھے۔ خطوط کے الفاظ گویا الہامی ہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ان خطوط کو کتابی صورت میں مرتب کیا۔ ان خطوط کے مطالعے سے یوسف عزیز مگسی کے زندگی کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ جوان کی حقیقی زندگی کا عکاس ہیں۔

۔1۔روشن خیال انسان:

یوسف عزیز مگسی ایک نواب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود ایک روشن خیال،انسان دوست اور ترقی پسند اشتراکی انسان تھے۔ اس کی زندگی کے اس پہلو کا ثبوت ان کی عملی زندگی ہے۔ 8اپریل1932کو اپنے روحانی انیس کا مریڈ امین کھوسہ کو لکھتے ہیں۔ ”تقریباً تین چار ماہ سے مجھے اس امرسے روحانی اذیت محسوس ہورہی تھی کہ کیوں میرے بکسوں پر میرے نام کے آگے ”نواب زادہ“ کا ناجائز بدنما دھبہ لگا ہوا ہے، اگر میں خود نواب نہیں تو اپنے باپ کی نوابی سے اپنے آپ کو مشہور کروں۔ آج صبح اٹھتے ہی بورڈ نویس کو بُلا کر کہا جلدی اس نوابزادہ کے منحوس دھبے سے مجھے دھو ڈالو“

سرداری اور اس کے بدبودارانہ نظام سے یوسف عزیز مگسی کوسخت نفرت تھی۔14 اگست 1933کو محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں: اب سرداروں کو کچلنا چاہیے ان سے سدھرنے کی اُمید فضول ہے“۔ اپنے دوست محمد حسین عنقا کو 24مئی 1934”عبدالصمد خان اچکزئی اور عبدالعزیز کرد کے جیل جانے کے بعد میرے لیے سرداری ایک لعنت تھی جس سے قدرت نے آزاد کردیا“۔

۔   2جون 1934کو لندن سے اپنے دوست تاج محمد ڈومکی کو لکھتے ہیں۔ ”آپ مجھے سردار نہ لکھا کریں۔ خُدا نے اس نحوست سے نجات دلا دی ہے۔

روشن خیال اور ہمدرد انسان قبائلی اور جاگیردارانہ سماج میں عورتوں اور غریبوں کے حقوق کے زبردست حامی اور حقیقی علمبردار تھے۔ ایک خط میں اپنے رفیق کا مریڈ محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں۔ ”آپ میرے جذبات سے قدرے آگاہ ہیں۔ایک بے یارو مدد گار فرد ہوں اور تقریباً اقتدار پرست بلوچوں کا اعتماد بھی کھو چکا ہوں۔ مگر پروا نہیں۔ انشاء اللہ اگر الاعمال بالنیات کا مقولہ صحیح ہے تو ایک دن آئے گا جب بلوچوں کو مظلوم لڑکیوں کے حقوق دینے ہونگے۔ جو اسلام نے ان کو عطا کی ہیں۔ اور مظلوم قوم کا ایک ایک فرد ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے گا۔ اس وقت ہم ہندوؤں کو طعنہ دے رہے ہیں کہ ان میں چھوت پنی ہے۔ غور کرو کیا ہم بلوچوں میں چھوت پنی نہیں۔؟ ایک بلوچ اپنے سردار کے مقابلے چار پائی پر بیٹھ سکتا ہے؟ کھانا کھا سکتا ہے؟ کہاں ہے آج کل؟

انسان دوست ترقی پسند مزدوروں کا ساتھی یوسف عزیز مگسی اپنے عزیز دوست محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں۔ ”آج عید ہے، ہم بستر میں لیٹے ہوئے مزدور تحریک کی سوچ میں عید منار رہے ہیں۔ اور بستر کے دائیں جانب کارل مارکس کی داس کیپٹل پڑی ہوئی ہے۔

یوسف عزیز مگسی مکمل ترقی پسند اور اشتراکی انسان تھے۔ وہ غریب مزدوروں کسانوں اور پسے ہوئے طبقے سے محبت کرتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ محنت کش طبقے کو متحد کر کے ان کو ان کے حقوق دلائے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے مختلف ہیلوں بہانوں سے ان سے چھین رکھے ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کو شیطانی لعنت کہتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک خط میں امین خان کھوسہ کو لکھتے ہیں ”بھائی امین کارل مارکس کی تصنیف دی کیپٹل“ اور ”دنیا کے دس ہلاکت آفریں دن“ جو انگریزی میں ہیں۔ ان کو ضرور پڑھیں (دیکھیں) اگر چہ مجھے احساس ہے کہ آپ میں فطرتاً بغیر کسی کی تقلید کے ایک مادہ اشتراکیت کا ہے۔ اور غریبوں کسانوں اور مزدوروں کے لیے لڑنے والا دل، مگر ساتھ اس کے  یہ چیز یں ٹھوس ب

 

۔2۔باہمت، پُر عزم انسان:

یوسف عزیز مگسی اپنی عملی زندگی میں نہایت ہی پُر عزم اور باہمت انسان تھے۔ وہ مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرتا تھا۔ مایوس ہونا تو اُس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ مایوسی کو موت سے تشبیہ دیتا تھا۔ اپنے دوست محمد حسین عنقا کو 24مئی 1934کو لندن سے لکھتے ہیں: مایوس ہونا مرنے سے بد تر ہے۔ اور انسانیت کے خلاف احمقانہ بغاوت ہے۔ مایوسیاں زندگی کے ہر قدم پر ہمیں ملیں گی ان سے بغلگیر ہو کر روانہ ہو جانا ہی زندگی ہے۔ ٹھہرجانا موت ہے اور موت نام ہے مٹ جانے کا۔ میں بھی مایوس ہوتا رہتا ہوں۔ مگر یکسر مایوس نہیں ہوچکا۔ ہوچکنا ختم ہوجانا ہے۔ عزم و ہمت کے پیکر یوسف عزیز مگسی کے نزدیک آرزوؤں کا جہاں آباد رہنا چاہیے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں۔ 23مارچ 1934کو محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں۔ اے  خوابوں کی دنیا میں رہنے والے بھائی! مانا کہ میں اپنی آگ سے آپ ہی جل چُکا ہوں یہ مافوق العادت قوتوں سے سرد کار رکھنے اور عنانِ خیال کو انسانی وسعت سے پرے ڈھیلا چھوڑ دینے کا نتیجہ ہے۔ جس طرح کثیف ہوا آمدو رفتِ نفس کو مشکل بنا دیتی ہے۔ بہ عین ہی اسی طرح میرا معاملہ ہے۔ مگر تم مجھے جانتے ہو۔میں مایوس نہیں ہوا۔ مایوس ہونا ختم ہوجانا ہے۔ آرزوئیں آباد رہیں۔خواہ کبھی بھی زلفِ یار تک رسائی نہ ہو۔ مگر دِل ودماغ کا معاملہ اس کے ساتھ ٹوٹنے نہ پائے۔

۔3۔ عاجزی وانکساری کا پیکر:

نواب گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کے باوجود اس کی طبعیت میں عاجزی وانکساری تھی۔ وہ تحریر و تقریر اور عمل میں عجزو انکساری کا مجسمہ تھے۔ غرور و تکبر کو اس نے اپنے قریب آنے ہی نہیں دیا۔ 4نومبر1933کو امین خان کھوسہ کو لکھتے ہیں  ”عزیز یقین جانو ہزاروں بہاریں آئیں اور اپنی باد خشک پتوں اور بے برگ درختوں کو صورت میں چھوڑ کر چلی گئیں۔ باورنہ ہو تو ہمیں دیکھ لو کہ ہم ایسی بیسیوں بہاروں کی مجسم یاد ہیں۔ اس سے روشن یاد ردیکھنا چاہتے ہو توبد قسمت بلوچستان اور بد نصیب بلوچستان کی خزاں ہی دیکھ لو۔ نیائے جنگ نفرت کا ایک شکستہ نصیب۔ ایم یوسف عزیز۔

یوسف عزیز مگسی اپنے متعلقین کو کسی بھی صورت ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انہیں اپنے دوست و احباب اپنے نام کی طرح عزیز تھے۔ ایک خط کے آخر میں امین کھوسہ کو لکھتے ہیں۔ میری خرافات سے اگر رنجش محسوس ہوتو معاف کیا جاؤں، کبھی دیوانے کی بکواس سُننا بھی اچھا ہوتا ہے“

۔25مئی 1935کو میر شیر علی بنگلزئی کے نام خط میں جو غالباً ان کا آخری خط ہے۔ لکھتے ہیں ”مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ جو میرے متعلق کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہمیشہ اس طرح کیا گیا ہے  اور ہورہا ہے بلکہ ہوتا رہے گا۔ پبلک کے کمزور حافظہ سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے ان کے خادموں کو ہمیشہ رُسوائے خلق کرنے کے لیے الزامات بناتے رہتے ہیں۔ اور اکثر وبیشتر کامیاب ہوجاتے ہیں“

۔4۔انتہائی حساس اور نرم دِل انسان:

یوسف عزیز بہادر اور مضبوط انسان ہونے کے باوجود انتہائی حساس اور نرم دل انسان تھا۔ ان کی حساسیت و نرم دِلی ان کے خطوط سے عیاں ہے جو انہوں نے اپنے دوستوں کو لکھے۔ 21جنوری 1930کو اپنے دوست تاج محمد ڈومکی کو لکھتے ہیں ”برادرم زمانے کے نشیب و فراز، بھائیوں کی بے وفائیاں، قوم کی بے اعتنائی کوئی معمولی بات نہیں ہیں۔ ان سب باتوں نے میرے دل و دماغ پر سخت برا اثر کیا ہوا ہے۔

حساس دِل یوسف عزیز مگسی نے خواب غفلت میں غرق قوم کو جگانے اور ان میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے لیے اپنے تحریرو تقریر میں پُر سوز پر اثر انداز اپنایا۔ اپنے دوست محمد امین کھوسہ کو 20دسمبر1931میں ایک خط میں لکھتے ہیں۔”سندھی شیکسپئر امین بھائی آپ کو پچھلے دنوں زمیندار اخبار کی چند کاپیاں بھیجی تھیں جن سے میرا مقصد اشاعت کا تھا۔ تاکہ میری نالہ فشانی کسی کو میرا ہمنوا بنا سکے۔ روتا ہوں کہ اوروں کو رُلاؤں۔ اگر کسی بھائی نے اس اشاعت سے کچھ اور معنی سمجھے ہیں تو اُسے خدا سمجھے“۔

یوسف عزیز مگسی دنیاوی جاہ وحشمت اور مال ودولت کو فساد سمجھتے تھے۔ یکم اپریل 1932کو محمدامین کھوسہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ”مال وجائداد تو ویسے ہی ایک فساد آدمیت سے کم نہیں۔“

لوگوں کی بے بسی وبے حسی پر یوسف عزیز مگسی کو ترس آتا تھا۔ 5اپریل 1932کو امین کھوسہ کو لکھتے ہیں۔ اور اگر انسان نہیں سُنتے یا بالکل انسان دنیا میں رہے ہی نہیں تو درختوں کو پہاڑوں کو اپنا رُو داد سُنائیں“

پوری اِنسانیت اور بلوچ قوم کے لیے درد رکھنے اور سیاست کرنے والے یوسف عزیز مگسی اپنے علاقے کے لوگوں سے کبھی کبھی غافل نہیں رہے۔ اپنے لوگوں کی حالت پر اس درد مند حساس طبیعت انسان کو ترس آتا تھا۔ وہ اپنے علاقے جھل کی تعمیر و ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کا خواہاں تھا۔ اپنا علاقہ اور اپنے لوگ اُسے کس قدر عزیز تھے، اس کا اظہار ستمبر 1933کو امین کھوسہ کو لکھے ہوے ایک خط میں کرتے ہیں:

”میں بیرونی سیاست سے علیحدہ ہونے کی سوچ رہا ہوں۔ اور یہی خیال ہے کہ صرف تعمیری کام پر اپنی ناچیز قوتیں صرف کردوں۔ میں جانتا ہوں کہ عام سیاسیات سے میری علیحدگی احباب پر نہ صرف شاق گزرے گی بلکہ میرے متعلق قسم قسم کی چہ میگوئیاں وردِ زبان ہوں گی۔ مگر میں ایمانداری سے محسوس کرتا ہوں کہ یہاں کا افلاس اور جہل مجھ سے کیا مطالبہ کر رہی ہے۔ اور آیا ان کا حق مجھ پر دیگر حقوق کی نسبت کس قد رافضل ہے“۔

حساس طبیعت کے ساتھ ساتھ یوسف عزیز مگسی کُلی طور پر ایک فرض شناس اِنسان بھی تھے۔ اُس نے علم کی شمع روشن کرنے کے لیے اپنے علاقے میں ایک تعلیمی ادارہ جامعہ یوسفیہ کے نام سے قائم کیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے علاقے کے لوگ بھی علم کی زیور سے خود کو آراستہ کریں۔ اُسے اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے سے بہت پیار تھا۔ بغرض علاج قیام لندن کے دوران وہ تعلیمی اِدارے اور طلبا کے بارے بارے میں فکر مند رہتا تھا۔ جامعہ کے ناظم مولانا عبدالکریم کے نام ایک خط میں اپنے اِحساسات کا اظہاران الفاظ میں کرتے ہیں۔”مولانا مجھے یقین ہے کہ آپ میری غیر حاضری میں اپنے فرض کو میری موجودگی کے مُقابلے میں دگنا اہم سمجھ کر حق وصداقت کے اس پودے کی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ خواہ اس کی آبیاری کے لیے خون جگر ہی بہانا پڑے۔ایسا نہ ہوکہ باد صر صر کے تھپیڑے اپنا کام کر جائیں اور مہینوں کی جدوجہد کا حاصل ایک لمحہِ غفلت کی نذر ہوجائے۔

۔5۔جدوجہد کے پیکر:

یوسف عزیز مگسی کی زندگی جدوجہد ہی میں گُزری۔ وہ کام یعنی جدوجہد کو زندگی سمجھتے تھے۔ بیکاری وکاہلی کو وہ خسارہ سے تشبیہ دیتے تھے۔ اپنے یار غار محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں: کمزور ہوں، لیٹے لیٹے یہ عریضہ لکھ رہا ہوں، اگر مرگئے تو معراج ِ زندگی۔ اگر زندہ رہے تو کام کریں گے۔ بہر حال ہم کسی بھی طرح خسارے میں نہیں۔ ہاں خسارے کی صرف ایک صورت ہے کہ نہ مریں اور نہ کام کریں۔ یعنی گُھل گُھل کر ہجر ِ یار میں جیتے رہیں“

۔6۔ رائے پسند انسان:

ہمہ جہت شخصیت کے مالک یوسف عزیز مگسی رائے پسند انسان تھے۔ جب بھی اُسے کوئی پیچیدہ مسئلہ درپیش ہوتا وہ بلا جھجھک اپنے دوستوں سے مشورہ کر لیتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی فیصلہ اُس کا ذاتی نہ ہو بلکہ اس فیصلے میں دیگر افراد کی رائے بھی شامل ہو۔ ایسی ہی ایک پیچیدہ مسئلے کے وقت کا مریڈ امین کھوسہ کو لکھتے ہیں: ”بھائی امین، اس وقت میری پوزیشن ایک عجیب حالات میں گھری ہوئی ہے۔ آپ نے پل صِراط کا نام سُنا ہوگا۔ بس آپ کا دوست ایک ایسی ہی پگڈنڈی پر جاپہنچا ہے۔آپ سے ضروری معاملات میں استصواب کرنا ہے۔ جو خطوط کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ اور اگر آپ نے یہاں آکر مجھے مدد نہ دی تو بعد میں نہ کہئے گا کہ میرا فیصلہ غلط تھا۔ میں اب ایک مسئلے کو فیصل کرنے کے گرداب میں مصروف ہوں اور نہیں چاہتا کہ بسرِ خود اپنی ذمہ داری پر کروں“۔

۔7۔اہلیت اور عملیت پسند اِنسان:

یوسف عزیز مگسی زندگی کے معاملات میں اہلیت کو اولین زینہ کا میابی سمجھتے تھے۔ اس کے خیال میں جب تک کسی کام کرنے کی انسان میں اہلیت وصلاحیت نہیں ہوگی وہ کام کبھی بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا۔ محض جذبات سے کام نہیں چلتا۔ اپنے ساتھی محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ”میرے منطقی، فلاسفر، ضدی دوست میں کہتا ہوں کہ ایک انسان کو کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے اپنے آپ کو اس کام کے اہل بنانا چاہیے۔ دس من کا بوجھ اٹھانے سے پہلے ایک آدمی کو ورزش کے ذریعے اپنے آپ کو اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل بنانا چاہیے۔ ورنہ وہ ہنگامی و جذباتی کوشش یا تماشبینوں کی اکساہٹ پر اپنی طاقت کا موازنہ کیے بغیر ضد آمیز ہٹ کا نتیجہ شکست ِ کمریا خند یدگیِ جہاں کی شکل میں پائے گا“۔

۔8۔تنگ دست یوسف:

نواب قیصر خان کے تخت جگر یوسف عزیز مگسی کو زندگی میں تنگ دستی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اپنے جگری یار امین کھوسہ کو اُسی تنگ دستی میں لکھتے ہیں۔”ایک  طویل مستقبل سامنے ہے۔ سرمایہ ختم اور ہمت بے تجربہ، کبھی تجارت کا سوچتا ہوں مگر تجربہ ندارد۔اتنے پیسے باقی نہیں رہے کہ گھر بیٹھ کر کھاتا جاؤں۔ ملازمت کے لیے جس تعلیم کی ضرورت ہے وہ میسر نہیں“۔

۔9۔ لالچ وطع سے پاک انسان:

یوسف عزیز مگسی بے لوث شخصیت کے مالک تھے۔ اس کی سیاست و خدمات بغیر کسی لالچ وطمع کی تھیں۔ اُسے نہ صلے کی تمنا تھی اور نہ ستائش کی پرواہ اس کے ہاں ضمیر اور رُوح مطمئن ہونا کارِ زندگی کا سب سے بڑا معاوضہ ہے۔ اپنے دوست محمد حسین عنقا کو 25مارچ1934میں لکھتے ہیں:”آپ جانتے ہیں کہ میں نے جس قدر بھی میرے عزائم کا احاطہ تھا اُس کے مطابق خلوص اور بے غرضی سے اپنی قوم اور ملک کی خدمت کی اور اس خدمت کا معاوضہ اگر چاہا بھی تو صرف یہی کہ میرا ضمیر اور میری رُوح مطمئن رہے“۔

اِسی ایقان ِ ابراہیم کا وارث ہوں عزیزؔ

اب بھی آتش کو اگر چاہوں گلستاں کردوں

Spread the love

Check Also

یوسف عزیز مگسی سیمینار۔۔۔۔رپورٹ: محمد نوازکھوسہ

بلوچستان اور بلوچ سیاست کے امام، علم و دانش کے چراغ، قومی وطبقاتی جدوجہد کے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *