Home » پوھوزانت » بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمدمری

بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمدمری

انگریز کا دور ہو، اورہندوستان سطح کی بلوچ سیاست ہو تو ہمہ جہت محنت کرنی ہوتی ہے ۔ دورے، میٹنگیں ، صلاح مشورے ، پریس کانفرنسیں، قرار دادیں ۔۔ ۔
چنانچہ اسی سلسلے مگسی صاحب جھل مگسی سے 7مئی 1933کو سبی پہنچا اور اسی دن بذریعہ کار کوئٹہ پہنچا۔ اس نے کنگ ایڈورڈ میموریل سرائے میں رہائش اختیار کی۔ دوہفتے گزارنے کے بعد وہ 20مئی کو بذریعہ ٹرین سکھر روانہ ہوا۔
اسی طرح یہ متحرک روح جام نوراللہ کے ساتھ مستنگ گیا جہاں عبدالعزیز کرد اور یگر ساتھیوں سے سیاسی صورتحال اور بلوچ کانفرنس کے مطالبات پر مبنی مسودہ کی تیاری کے سلسلے میں بات چیت کی۔وہ مستنگ دورے کے اختتام پر 12جون 1933رات دس بجے کوئٹہ پہنچا۔ میر عبدالعزیز سیکریٹری جنرل انجمن اتحاد بلوچ بھی 12 جون 1933کو مستنگ سے کوئٹہ پہنچا اور نواب کے ساتھ رہائش پذیر ہوا۔ عبدالصمد خان اچکزئی اور مگسی کی سرکردگی میں بلوچ کانفرنس کے مطالبات وتجاویز کو مسودہ کی شکل میں ترتیب دینے کے لیے گفت وشنید کی اور مسودہ کمیٹی کے اجلاس کی تاریخ 28جولائی 1933بمقام کوئٹہ طے کی۔
تیز رفتاری کی ضرورت توتھی۔ اس لیے کہ جیکب آباد کانفرنس کے فیصلوں نے پارٹی کے ذمے بہت سارے کام ڈالے تھے۔ زمانہ بھی بہت ہلچل والا تھا۔ برطانیہ ، ہندوستان اور کلات میں بہت کچھ رونما ہورہا تھا۔ اس سب کا ساتھ چلنے یا مداوا کرنے کیلئے بہت تیز رفتاری کی ضرورت تھی۔
چنانچہ روزنامہ زمیندار کے 28 جولائی (1933) اور ہفت روزہ البلوچ 30جولائی (1933) کے شمارے میں ایک میٹنگ کی اطلاع بذریعہ ٹیلیگرام دی گئی :’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا اجلاس 30جولائی 1933کو بروز اتوار دس بجے کنگ ایڈورڈ میموریل سرائے کوئٹہ میں ہوگا۔۔۔:
۔1۔ سالانہ اجلاس جیکب آباد کانفرنس کے آمد و خرچ کی تصدیق ۔
۔2۔ کانفرنس کے قواعدوضوابط کی تصدیق۔
۔3۔ کانفرنس کے موجودہ سیکریٹریٹ میں لازمی تبدیلیاں عمل میں لانے کی ضرورت ۔
۔4۔ دیگر امورات بہ اجازت صاحبِ صدر کانفرنس(پارٹی)۔
جیکب آباد کانفرنس کے فیصلوں کو دستاویز کی شکل میں مرتب کرنا۔
چنانچہ مقررہ تاریخ اور مقام پہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس ہوا۔ ہم البلوچ کے 13اگست 1933سے اس کی خبر لے آئے ہیں:
’’بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس 30،31 جولائی 1933 کو کوئٹہ ایڈورڈ سرائے میں زیر صدارت خان عبدالصمد خان اچکزئی منعقد ہوئے۔ مندرجہ ذیل قراردادیں پاس ہوئیں۔
۔1۔ کانفرنس کے قوائد وضوابط (مرتبہ سب کمیٹی) خفیف تبدیلی کے ساتھ پاس کیے گئے۔
۔2۔ سردار محمد اعظم جان مزاری موجودہ جنرل سیکریٹری کے خانگی مشاغل کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کا ثبوت اُن کے گزشتہ رویہ سے بصورت عدم دلچسپی درکاروبارِ کانفرنس ظاہر ہے، مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ پندرہ روز تک اپنا استعفے صدر کے پاس بھیج دیں ورنہ مجلس عاملہ اُن کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کرے گی۔ کام چلانے کے لیے خان غلام قادر خان بلوچ موجودہ وائس پریذ یڈنٹ کو اپنے فرائض کے علاوہ جنرل سیکریٹری کے مکمل اختیارات تفویض کرتی ہے۔
۔3۔ مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ہزہائی نیس میرِ خیر پور پریذیڈنٹ کانفرنس ہذا کے ولیعہد تو لد ہونے پر جس کی خوشی تمام سٹیٹ میں منائی جارہی ہے ، ہدیہ تبریک پیش کرتا ہے ۔
۔4۔ فنانشل سیکریٹری کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے خان عطا محمد خان مر غزانی آف سبی کو اس عہدے پر مقرر کیا جاتا ہے۔
۔5۔ ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی جو کہ بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے مقاصد کی تبلیغ و تشہیر بلوچستان وتمام بلوچی علاقوں میں کرے۔
نیز سردار غلام رسول خان قرائی نے سول ملٹری گزٹ میں اپنے شائع شدہ بیان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے تحریری معذرت نامہ پیش کیا۔ اور لکھ دیا کہ میری معلومات بلوچستانیوں کے خیالات کے متعلق بالکل محدود اور ناکافی ہیں۔

البلوچ 30جولائی 1933میں بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے چیئرمین جناب عبدالصمد اچکزئی کی طرف سے ایک بیان شائع ہوا:۔
’’رفیق محترم غلام قادر خان وکیل جیکب آباد نے گذشتہ فروری میں بعض غلط فہمیوں کے بنا پر بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے عہدہِ نائب صدر سے مستعفی ہونے کے لیے جناب میر صاحب خیر پور صدر کانفرنس کی خدمت میں استعفیٰ ارسال کیا تھا۔ جسے نواب صاحب موصوف نے بغرضِ مزید کاروائی میرے پاس ارسال کیا تھا۔
’’۔۔۔۔میں نہایت خوشی کے ساتھ اپنے رفقاا اور عام بہی خواہانِ کانفرنس کی اطلاع کے لیے اعلان کرتا ہوں کہ رفیق موصوف اب دوبارہ اپنے عہدہ پر کانفرنس میں کام کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔‘‘
آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے پاس غور روفکر کر کے ایک اجتماعی موقف اپنانے کو بے شمار معاملات موجود تھے۔ مگر ایک مہذب معاشرے میں تو ریاست ہی مسائل کو حل کرنے کا آلہ ہوتی ہے ۔ البتہ بلوچستان میں ریاست ہی مہذب نہ تھی۔ ایک فرسودہ ماقبل فیوڈل نظام میں تو ریاست بادشاہت جیسی ہوتی ہے ۔ اسی کو بدلنے کے مطالبات لے کر یہ کانفرنس ہورہی تھی ۔ دیکھیے6اگست 1933کا ’’البلوچ ‘‘:
’’البلوچ‘جوکہ بلوچستان کا واحد نمائندہ اخبار ہے ، گلہ پہاڑ پہاڑ کر مطالبہ کر رہا ہے کہ بلوچستان کو ہندوستان کا ایک گورنری صوبہ قرار دیا جائے۔ لیکن انگریز بھی پوری ہٹ دھرمی پر کھڑا ہے‘‘۔
اسی زمانے میں ایک مفصل اور معلوماتی مضمون عبدالعزیز کرد نے البلوچ کراچی 20اگست 1933میں لکھا:
’’ آج کل کے روشن وتا باں زمانہ میں برطانیہ کے اس بلند بانگ دعوے نے کہ وہ پسماندہ اقوام وممالک کو شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کا ضامن ہے بلوچستان کو تاریکی وجہالت کے عمیق ترین غار سے باہر نکال کر شاہراہ ترقی پر گامزن نہیں کیا ۔ اور سخت افسوس سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت خان معظم سرکار قلات کے طرف سے وائسریگل دربار میں ان کی تاجپوشی کی تقریب پر منسوخیِ رسم بیگار کا شاہی اعلان ہونے کے باوجود کسی باضابطہ اور ذمہ دار آئینی حکومت کے فقدان کی وجہ سے ریاست قلات کے ماتحت افسر تمام ریاست میں رعایا سے بدستور بیگار پر کام لے رہے ہیں ۔ اور بردہ فروشی کی ممانعت کے باوجود سارے بلوچستان میں بے زبان مستورات کو ولور اور لب کے شرمناک رسم کے نام پر غاصب مردوں نے فروخت کرنے کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ان کی از دواجی آزادی کا اسلامی و فطری حق پائمال کیا ہوا ہے جو صحیح معنوں میں بردہ فروشی کی ایک ملمع شدہ صورت ہے !۔ لیکن کوئی ایسی آئینی حکومت موجود نہیں ہے جو اس مہذب بردہ فروشی کے خلاف سختی سے نوٹس لے کر بے زبان مستورات کی از دواجی آزادی کو واگزار کرائے !
’’کوئی ذمہ دار اور باضابطہ آئینی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ہی آج ہماری آنکھیں مظلوم مری اور بگٹی قبائل کو ظالم سرداروں کے ظلم و استبداد کا بے کسی سے تختہِ مشق بنتے دیکھ کر خون کے آنسو بہارہی ہیں۔ لیکن ان کی فریادوں کو درخورِاعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تمام انسانیت سوز نقائص نہ صرف بلوچستان کے دامن پر بدنما داغ ہیں بلکہ برطانوی حکومت کے لیے بھی بدنام کن ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ بلوچستان کے تمام مختلف ٹکڑوں کو متحد کر کے ان کی ایک ایسی نمائندہ آئینی فیڈرل حکومت قائم کی جائے ، جس کو را ئے عامہ کا پورا اعتماد حاصل ہو ،اور جو ضروری اصلاحات فوراً نافذ کر کے تمام نقائص کو دور کر لے اور بلوچستان کو ہر لحاظ سے شاہراہ ترقی پر گامزن کرے۔ چنانچہ بلوچستان کانفرنس نے اس قسم کی حکومت کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ برطانوی حکومت نے اس مطالبہ کو ہند اسمبلی اور انڈین ریفارمز پارلیمنٹری جائنٹ کمیٹی میں لاپرواہی کے ساتھ ٹھکرا دیا ہے ، جس سے بلوچستان کی آنکھیں کھل گئی ہیں، اور اس کو اپنے مستقبل کا فکر دامنگیر ہوگیا ہے ۔ اس موقعہ پر ہم بلوچستان کے غیور فرزندوں کو بتلانا چاہتے ہیں کہ عملی جدوجہد کے بغیر صرف زبانی اور تحریری خواہش سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر تم زندہ ہو اور تم کو دنیا میں باعزت زندگی بسر کرنے کا خیال ہے تو عملی جدوجہد سے کام لے کر اپنی دنیا آپ پیدا کرو ، تم حق پر ہو۔ اور حق کا حامی خدائے اکبر کی وہ ذات پاک ہے جس کی حمایت اور فیصلہ کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت بھی حائل نہیں ہوسکتی۔ اٹھو اور متحد ہو کر ہمت سے کام لو ۔ ورنہ یاد رکھو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرف مٹ جاؤ گے‘‘۔
بلوچ کانفرنس ظاہر ہے کہ اِن گھمبیر حالات میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ وہ بہت ذمہ داری، محنت اور یکسوئی سے اپنا فریضہ نبھائے چلی جارہی تھی۔ اسی سلسلے میں پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا آئندہ اجلاس بلائے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کی ہمیں دو سو رسز کے ذریعے معلومات ملتی ہیں۔ اُن دونوں کا تذکرہ کرنا کیوں ضروری ہے پڑھ کر آپ اندازہ کرسکیں گے۔ایک تو وہ رپورٹ ہے جو 20ستمبر1933کوایس پی کوئٹہ پشین اینڈ سبی نے اے جی جی بلوچستان زیارت کو بھیجی تھی:

’’میمورنڈم۔
’’مولوی‘‘ عبدالصمد اچکزئی صدربلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس نے گلستان سے مندرجہ ذیل ٹیلیگرام بھیجا: ۔
’’کانفرنس کی طرف سے جنرل سیکریٹری کو ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کے بارے میں نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی گئی جو کہ 28ستمبر کو حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوگی۔ اس میٹنگ کے اغراض مقاصد یہ ہیں کہ کانفرنس کی اگلی میٹنگ منعقد کرنے ، صدر کے الیکشن ،مالیاتی امور، جنرل سیکریٹری کا الیکشن اور دیگر اہم معاملات پر بحث ہوگی۔
’’ایگزیکٹو کمیٹی کے جن ممبروں کو ابھی تک نوٹس نہیں ملے وہ براہِ مہربانی اس اطلاع کو دفتر کی طرف سے میٹنگ میں شمولیت کی دعوت سمجھیں‘‘ ۔
(ہمیں یہ بھی بتانا تھا کہ لفظ’’مولوی‘‘ خان عبدالصمد اچکزئی کے لیے ایک اور جگہ بھی استعمال ہوا تھا۔)
اور دوسرا سورس ’’البلوچ ‘‘کا24ستمبر1933کا شمارہ ہے جس کے صفحہ نمبر11پہ مندرجہ ذیل سرخی اور خبر موجود ہے: ۔
’’بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس
ایگزیکٹوبورڈ کا ایک اہم جلسہ 28ستمبر کو حیدرآباد سندھ میں منعقد کیا جاویگا ، ذیل کے ایجنڈوں پر بحث ہوگی۔
۔1۔ آئندہ سالانہ اجلاس کا انعقاد اور انتخاب صدارت
۔2۔ جنرل سیکریٹری کا انتخاب اور مالیات کی تنظیم
۔3۔ دیگر اہم مسائل پر غور وخوض ۔
دعوت نامے جاری کئے گئے ہیں۔ اگر ایگزکٹو بورڈ کے کسی رکن کو یہ نوٹس نہ پُہنچ سکا تو براہِ کرم وہ اس اطلاع کو دفتر کی طرف سے شرکتِ اجلاس کا دعوت نامہ خیال فرمائے۔
خان عبدالصمد خان اچکزئی چیرمین‘‘
چنانچہ پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ مقررہ تاریخ (28ستمبر 1933)کو منعقد ہوئی ۔ ہمیں آرکائیوز بلوچستان کے امیر ودولتمند ذخائر سے ایک مسودہ ملا ۔ یہ دراصل ایک میمورنڈم ہے جوسیکریٹری ٹو اے جی جی ان بلوچستان کوئٹہ کو ایس پی کوئٹہ پشین اینڈ سبی نے 6اکتوبر 1933کو بھیجا:
’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ 28-9-33کو ڈاک بنگلو حیدر آباد سندھ عبدالصمد خان اچکزئی آف گلستان کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ مندرجہ ذیل نے شرکت کی:
’’میر شہباز خان نوشیروانی برادر نواب خاران، عبدالعزیز کرد آف مستنگ، پیر بخش نسیم تلوی، ماسٹر محمد حسین عنقا آف کچھی ، محمد امین کھوسہ بی اے ایل ایل بی سٹوڈنٹ علی گڑھ آف جیکب آباد ، وکیل غلام قادر آف جیکب آباد جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس ، مولوی محمد عثمان آف کراچی ، ماسٹرپیر بخش آف سندھ مدرسہ کراچی ، عبدالغفور ولد سوبرو آف کراچی، مولوی عبدالرحیم آف دادو، میر محراب خان آف لسبیلہ سٹیٹ، کے ایس اللہ بخش خان گبول کراچی، میر بندہ علی حیدر آباد ، کے ایس خان ،محمد خان ،دوست محمد خان حیدر آباد ، میر حسین بخش تالپور آف حیدر آباد ۔
’’مندرجہ ذیل ایڈیٹرز بھی موجود تھے ۔ نبی بخش ایڈیٹر اتحاد جیکب آباد ، مولوی محمد حسین ایڈیٹر الحنیف جیکب آباد ، ایم اسماعیل ایڈیٹر اتحاد بلوچاں کراچی ، مولوی نور محمد نظامانی ایڈیٹر طائران ۔
’’مندرجہ ذیل فیصلے کیے گئے:
۔1۔ سردار اعظم خان مزاری کی بحیثیت جنرل سیکریٹری آف کانفرنس کے استعفےٰ کی منظوری
۔2۔ وکیل غلام قادر خان آف جیکب آباد کی بحیثیت جنرل سیکریٹری آف کانفرنس تقرری
۔3۔ مندرجہ ذیل افراد کی سب کمیٹی کا قیام جو ہزہائی نس میر آف خیر پور سٹیٹ سے ملاقات کرے گی کہ وہ کانفرنس کی سالانہ سیشن کی صدارت قبول کریں اور اس صورت میں یہ سیشن خیر پور میرس میں ہوگی۔ بصورت دیگر یہ حیدر آباد میں 26،27اور 28دسمبر 1933کو کسی اور کی صدارت میں ہوگی جسے بعد میں منتخب کیا جائے گا: میر حسین بخش خان ٹالپر آف حیدر آباد ۔میر بند ہ علی ، خان محمد خان ، غلام قادر وکیل
۔4۔ حکومت کو بھیجے گئے میمو رنڈم کو دہراتے ہوئے جس میں انڈیا کے آئندہ کے آئین میں صوبے کے حقوق کے بارے میں جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے سامنے بلوچستان کی طرف سے ایک نمائندہ پیش ہونے کی اجازت دی جائے ۔۔ اس سلسلے میں وائسرائے ، سیکریٹری آف سٹیٹ فارانڈیا، ہزہائی نس آغاخان اور ڈاکٹر شفاعت احمد جان کو ٹیلیگرام بھیجے جائیں گے۔
۔5۔ خانِ قلات (اعظم جان)کی موت پر افسوس اور اس کے جانشین احمد یار خان کو مبارکباد کہتے ہیں۔
۔6۔ اللہ بخش خان گبول آف کراچی کو آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا نائب صدر منتخب کیا جاتا ہے ۔
۔7۔ فنڈ جمع کرنے کے لیے مختلف اضلاع میں کمیٹیاں بنائی گئیں‘‘۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *