مظلوموں کے ساتھ سفر کی اَ مِٹ چا ہت
ناداروں کے ساتھ مسلسل عہد رفاقت
رنگ ، نسل ، مذ ہب اور صنف کی عینک سے
انکا رِ اطا عت
ذات کے کاروبارسے دوری
دنیا کے غم میں مہجو ری
ساحر کے گیتوں پر جھوم کے سازاٹھا نا
کر شن کی دل کش تحر یر وں پر،
فیض کی دھیمی دھیمی لَے پر
جان چھڑ کنا
زرداروں سے نفر ت کرنا
ناداروں سے اُلفت کرنا
سر مائے کی ہیبت کو ٹھو کر میں رکھنا
سارے جہاں میں ظلم وجبر کے ہر کا روں سے لڑنے والے
جا ں با زوں کو دل میں بسا نا
ایک ہی ڈھب سے جینا مرنا
اے دل ِبے قرار ، ٹھیر ذرا
بچھڑی یادیں پھسلتی جا تی ہیں
ڈوبتے جاتے ہیں منظر سارے
میٹھی چھاﺅں کے دھند لکوں میں چھپے
مسکراتی ہوتی ہوئی یادوں کے رنگ
بیتی گھڑ یوں کا خواب ڈوبتا ہے
جال دھند لاہٹو ں کا پھیلتا ہے
کیایوں ہی زادِ سفر ڈوبتا ہے ؟
خون سستا ہے ، پانی منہگا ہے
سب پہاڑوں پہ ، ساری وادیوں پر
قاتلوں ، بھیڑ یوں کاغلبہ ہے
علم کے دشمنوں کا قبضہ ہے
اے دل بے قرار ٹھیر ذرا
ڈورامید کی تھا مے رکھنا
خواب کے رنگ نہ گر نے دینا
ٹھیر ذرا