Home » پوھوزانت » سیکریٹری جنرل رپورٹ  ۔۔۔ ڈاکٹر جعفر احمد

سیکریٹری جنرل رپورٹ  ۔۔۔ ڈاکٹر جعفر احمد

انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے چوتھے مرکزی کنوینشن میں پیش کردہ سیکریٹری جنرل کی تین سالہ (2010-18) رپورٹ

(یہ رپورٹ لاہور میں منعقدہ مرکزی کنوینشن میں ۱۹؍ جنوری ۲۰۱۹ء کو پیش کی گئی)

محترم صدرِ اجلاس، مرکزی کنوینشن میں تشریف فرما جملہ احباب، اراکین مرکزی مجلسِ عاملہ، صوبائی اور مساوی وحدتوں کی مجالسِ عاملہ کے اراکین، ملک بھر سے تشریف لانے والے مندوبینِ کرام، مہمانانِ گرامی، مبصرینِ کرام اور خواتین وحضرات۔
آپ سب کی خدمت میں سلامِ شوق،
یہ امر میرے لیے ایک بہت بڑے اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے کہ آج میں آپ کے سامنے انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کی گزشتہ تین سال کی رپورٹ پیش کر رہا ہوں۔ انجمن کے آئین کی رو سے تین سالہ رپورٹ مرکزی مجلس عاملہ کی منظوری کے بعد مرکزی کنوینشن میں پیش کی جاتی ہے۔ مرکزی کنوینشن انجمن کا سب بااختیار اور اعلیٰ ترین ادارہ ہے جو انجمن کو رہنمائی فراہم کرتاہے۔ اس وقت جو رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے، آئینی طریقۂ کار کے مطابق، گزشتہ شام مرکزی مجلس عاملہ نے اس کا جائزہ لیا اور چند ترامیم اور اضافوں کے بعد کنوینشن میں پیش کرنے کے لیے اس کی منظوری دی۔ یہاں میں بصد افسوس اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ انجمن کے مرکزی صدر محترم المقام جناب سلیم راز صاحب جن کی رہنمائی ہمیں مسلسل تین سال تک حاصل رہی اور جنہوں نے عدیم الصحتی اور پیرانہ سالی کے باوجود مرکزی مجلس عاملہ کے سب اجلاسوں میں شرکت سوائے گزشتہ شام منعقد ہونے والے اجلاس کے ، وہ اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں۔ وہ گزشتہ چند ہفتوں سے صاحبِ فراش ہیں۔ میں نے اُن کو زحمت دیتے ہوئے اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات سے فون کے ذریعہ اُن کو مطلع کیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ پشاور سے انہوں نے نہ صرف اس اجلاس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے بلکہ موجودہ رپورٹ کے مشمولات سے اتفاق بھی کیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوں اور ترقی پسند فکر کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
موجودہ رپورٹ میں کوشش کی گئی ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں انجمن کے مختلف ادارے، خاص طور سے مرکزی سطح کے ادارے آئین کی پاسداری اور اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے کس کارکردگی کا مظاہرہ کر پائے، اس کا ذکر کیا جائے۔ یہاں یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ انجمن میں تنظیمی اعتبار سے کیا وسعت آئی۔ ہم کن کن علاقوں کے ترقی پسند اہلِ قلم تک پہنچ پائے۔ ہماری یہ بھی کوشش ہوگی کہ اس کنوینشن کے سامنے لائیں کہ انجمن نے علمی، فکری اور ادبی سطح پر اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کتنا وسیع کیا۔ ہماری کانفرنسیں، سیمینار، ادبی نشستیں اور دیگر کاوشیں کس تسلسل کی آئینہ دار رہیں۔ ہم ان چیلنجوں کا بھی ذکر کریں گے جن سے ہمیں عہدہ برا ہونا پڑا اور ان کا بھی جن سے امکانی طور پر مستقبل میں انجمن کو عہدہ برا ہونا پڑے گا۔غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا تقاضا ہے کہ ہم اس رپورٹ میں اپنی فروگذاشتوں اور کمزوریوں کا ذکر کرنے سے بھی احتراز نہ کریں کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے آگے بڑھنے کا، اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کا۔
تنظیم کاری کے نقطۂ نظر سے انجمن کا پچھلا کنوینشن جو ۲۸ نومبر ۲۰۱۵ء کو کراچی میں منعقد ہوا، اس لحاظ سے تاریخی کنوینشن تھا کہ اس میں انجمن کا دستور منظور کیا گیا۔ اس دستور کے مسودے پر ایک عرصے سے کام ہورہا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں ملتان میں جب انجمن کی ملک گیر احیائی تنظیم سازی ہوئی۔ اُسی وقت انجمن کے لیے ایک ایسے آئین پر کام کا آغا زہو گیا تھا جو ماضی کی انجمن کی درخشندہ روایات اور اب ہمارے زمانے تک پہنچتے پہنچتے جو سماجی وسیاسی، نیز تہذیبی رجحانات ہمارے سامنے آئے ہیں، ان کے ادراک پر مشتمل ہو۔ یہ کام بوجوہ مؤخر ہوتا رہا۔ اس سلسلے میں بہت سے نظری اور عملی مسائل درپیش تھے۔ خیالات وافکار تو آزاد فضا ہی میں پروان چڑھتے ہیں اور اُن کو کسی ایک سانچے میں ڈھلنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا مگر تنظیم سازی چند بنیادی اصولوں اور انتظامی ڈھانچوں پر اتفاقِ رائے کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ سو اگر انجمن کے دستور پر اتفاقِ رائے میں دیر لگی تو یہ کوئی غیر معمولی بات بھی نہیں تھی۔ قابلِ اطمینان بات یہ تھی کہ نہ صرف دستور وضع کر لیا گیا بلکہ اس میں چند ایک اختراعات بھی شامل کی گئیں۔ ملک کے چار صوبوں کے علاوہ بھی وحدتیں تسلیم کرتے ہوئے وہاں انجمن کی مجالس عاملہ کی تشکیل کی گئی۔یہی نہیں پہلی مرتبہ انجمن نے اپنے آئین میں ایک مجلس تحقیق کو جگہ دی جس کا کام انجمن کی تاریخ سے متعلق مواد کی تلاش وتحفظ اور ترقی پسند ادب کی تصنیف وتالیف طے کیا گیا۔ اب جبکہ انجمن کی تاریخ اور اس کے کردار پر پاکستان اور ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ امریکہ، کینیڈا، یورپ اور مشرق بعید کی یونیورسٹیوں میں بھی پی ایچ ڈی کی سطح کی تحقیق ہورہی ہے، خود انجمن کے وابستگان کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی تاریخ کی دستاویز بندی (Documentation)کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اس سلسلے میں عملی اقدام اٹھائیں۔ مجلسِ تحقیق اسی سمت میں پیش قدمی کا ایک مظہر ہے۔
جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے، مرکزی مجلسِ عاملہ کی کاکردگی کو سب سے پہلے پیش کیا جانا چاہیے۔ آئین نے ہمیں پابند بنایا ہے کہ سال میں مرکزی مجلس عاملہ کے کم از کم دو اجلاس ضرور منعقد ہونے چاہئیں۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں مجلسِ عاملہ کے سات اجلاس منعقد ہوئے۔ ان میں سے آخری اجلاس گزشتہ شام منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے سوا باقی سب اجلاسوں کی بہت مفصل رودادیں مرکزی جوائنٹ سیکریٹری جناب مقصود خالق نے لکھیں سوائے ایک اجلاس منعقدہ حیدرآباد کے، جس میں وہ شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اس اجلاس کی روداد مجلسِ تحقیق کی ایک رکن ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے رقم کی۔یہ سب رودادیں اب انجمن کے ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں اور مرکزی سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ رودادیں، تاریخی دستاویز کا درجہ پائیں گی اور مستقبل کے تاریخ وادب کے محقق اور طالب علم ان سے بھرپور استفادہ کریں گے۔
یہاں میں صرف ان اجلاسوں کے انعقاد کی تاریخ اور مقام کا ذکر اس خیال سے کرنا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ یہاں موجود احباب کے سامنے مجلسِ عاملہ کی کارگزاری کی ایک تصویر آجائے۔
کراچی کے کنوینشن کے بعد مرکزی مجلس عاملہ کا پہلا اجلاس ۲۲ مارچ ۲۰۱۶ء کو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں منعقد ہوا۔ جس میں مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے عاملہ کے ارکان نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں انجمن کے تنظیمی معاملات پر تفصیلی تبادلۂ خیالات اور فیصلے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی علمی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ کوشش کی جائے کہ مجلس عاملہ کے ہر اجلاس کے موقع پر کسی علمی وادبی موضوع پر قومی سطح کی کانفرنس منعقد کی جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کے بعد اس طرح کے تمام اجلاسوں کے ساتھ ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی۔
مجلس عاملہ کا دوسرا اجلاس ۲۷؍ اگست ۲۰۱۶ء کو پشاور میں منعقد ہوا۔ اس سے اگلے روز ’امن کی متلاشی دنیا میں ادب کا کردار‘ کے موضوع پر کانفرنس منعقد ہوئی۔ یاد رہے کہ ۱۹۳۶ء میں انجمن کے قیام کے بعد امن کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد ہوا کرتا تھا۔ ہم نے چاہا کہ اس روایت کا احیاء کیا جائے۔ اس کام کے لیے پشاور کا انتخاب موزوں سمجھا گیا کیونکہ تین ساڑے تین عشروں میں، خاص طور سے ۱۱؍۹ کے بعد ملک کا جو خطہ سب سے زیادہ دہشت گردی کی زد میں آیا، وہ خیبر پختونخوا اور اس سے متصل ایجنسیوں کا علاقہ ہی تھا۔ اسی کانفرنس کے موقع پر خیبر پختونخوا کی عاملہ نے ’فارغ بخاری ایوارڈ‘ ملک بھر کے منتخب ادیبوں کو دیا۔
مجلس عاملہ کا تیسرا اجلاس ۱۱؍ مارچ ۲۰۱۷ء کو لاہور میں حسیب میموریل ٹرسٹ بلڈنگ، نواب ٹاؤن میں منعقد ہوا۔ اس کے اگلے روز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کے دو اجلاس تھے۔ ایک اجلاس میں سبطِ حسن سے متعلق مضامین اور مقالے پڑھے گئے۔ جبکہ دوسرے اجلاس میں احمد ندیم قاسمی کی علمی وادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا۔
مجلس عاملہ کا چوتھا اجلاس۲۶ ؍ اگست ۲۰۱۷ء کو حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے موقع پر منعقد ہونے والی کانفرنس کا عنوان ’انقلاب روس کے اثرات ادبیات پر‘ تھا۔ یہ کانفرنس سندھ لینگویج اتھارٹی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ اسلام آباد میں مرکزی مجلس عاملہ کا پانچواں اجلاس ۹ دسمبر ۲۰۱۷ء کو اکادمی ادبیات پاکستان میں منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ’فارغ بخاری صدی کانفرنس‘ منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا انعقاد ۱۰؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کو اکادمی ادبیات پاکستان کے کانفرنس ہال میں ہوا۔ اس موقع پر جناب احمد سلیم صاحب کی فارغ بخاری کے حوالے سے مرتب کردہ مجلسِ تحقیق کی ضخیم کتاب کا اجراء ہوا۔
مجلس عاملہ کا چھٹا اجلاس خیبر پختو نخوا کے شہر ہری پور میں ۱۲؍ مئی ۲۰۱۸ء کو گارڈینیا ہوٹل میں منعقد ہوا۔ ۱۳؍ مئی کو ہری پور ہی میں ایک یک روزہ کانفرنس بعنوان ’ترقی پسند ادب: تخلیقی ونظریاتی مسائل‘ منعقد ہوئی۔
مجلس عاملہ کا آخری اجلاس موجودہ اجلاس ہے اور اس کے بعد ہم اپنی انجمن کی تاریخ کے اگلے مرحلے میں داخل ہوجائیں گے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس اجلاس سے متصل بھی ایک کانفرنس پنجاب کی انجمن نے مرتب کی ہے جو ایک انتہائی اہم موضوع سے متعلق ہے یعنی ’ترقی پسند اد ب کے نئے افق اور امکانات‘ یہ کانفرنس ۱۹؍ جنوری اور ۲۰ جنوری کو لاہور میں منعقد کی جائے گی۔
انجمن کی تنظیم سازی کے حوالے سے مجالس عاملہ کے ہراجلاس میں تفصیلی گفتگو ہوئی جس میں رکنیت سازی، نئے یونٹوں کا قیام، اور مختلف صوبائی تنظیموں کی فعالیت کے موضوعات زیرِ غور رہے۔ مجموعی طور پر انجمن کی تنظیمی کارکردگی حوصلہ افزا رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف یونٹوں، ضلعوں اور صوبوں میں کارکردگی کی صورتحال ایک دوسرے سے مختلف بھی رہی کیونکہ ہر جگہ مسائل کی نوعیت بھی مختلف تھی اور وسائل کا مسئلہ بھی مختلف درجوں میں پایا جاتا رہا۔ اس سب کے باوجود یہ بات خوش آئند ہے کہ تین سال قبل کے مقابلے میں آج انجمن ملکی سطح پر زیادہ یونٹوں میں موجود ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انجمن کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پہنچ حاصل ہوچکی ہے اور وہاں کے اہلِ قلم بھی جو ہمارے نظریاتی اہداف سے متفق ہیں، انجمن کا حصہ بن رہے ہیں۔
ماضی میں انجمن کو ایک بہت بڑا چیلنج بلوچستان میں تنظیم سازی کارہا۔ بلوچستان جو تاریخی اعتبار سے ترقی پسند فکر میں برصغیر کے دوسرے خطوں کے ہمرکاب رہا، بدقسمتی سے پچھلے دس پندرہ برسوں میں وہاں انجمن بالکل ہی غیر فعال رہی۔ اس میں بنیادی خرابی وکمزوری ہماری اپنی مرکزی قیادت کی تھی کہ ہم اس عظیم الشان خطے کے ترقی پسند اہلِ قلم سے مناسب رابطے میں نہیں رہے، لیکن چونکہ فکر اور تخلیقی عمل کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارے بلوچستان کے ترقی پسند لکھنے والوں نے خواہ وہ بلوچی، براہوی یا پشتو میں لکھنے والے ہوں یا اردو میں، انہوں نے سنگت اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے نام سے ایک اہم ترقی پسند پلیٹ فارم بنایا۔ گزشتہ ۲۷/۲۶ برسوں میں سنگت اکیڈمی ایک نمائندہ علمی وفکری ادارہ بن کر ابھری ہے۔ اس ادارے میں نہ صرف ترقی پسند لکھنے والے یکجا ہیں بلکہ اس کا تصنیف وتالیف اور کتابوں کی اشاعت کا بھی ایک منظم کام موجود ہے۔گزشتہ تین برسوں میں ہماری ایک بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ سنگت اکیڈمی کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد انجمن اور سنگت کا الحاق اس صورت میں ہوا ہے کہ اب سنگت ہی بلوچستان کی صوبائی انجمن ترقی پسند مصنفین ہے۔الحاق کی یہ ایک ایسی صورت ہے جس میں سنگت کی ۲۶؍۲۵ برس کی شناخت بھی برقرار رہے گی اور انجمن بھی وہاں اپنے وجود کی حامل بن گئی ہے۔ سنگت کا ماضی کا سارا علمی ، تنظیمی وفکری کام ہم ownکرتے ہیں۔نیز سنگت کے سیکریٹری اور ڈپٹی سیکریٹری انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان کے صدر اور سیکریٹری ہوں گے۔
عام طور سے سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے ادغام میں مناصب اور عہدوں کی تقسیم اور اپنی سابقہ تنظیم کے لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی روش مشکلات کا سبب بنتی ہے۔ اکثر صورتوں میں ادغام کے بعد بھی ماضی کے جداگانہ تنظیمی تشخص اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ انجمن اور سنگت کا الحاق ایک ایسا کامیاب تخلیقی تجربہ ثابت ہوا ہے جو نظریاتی، علمی اور تہذیبی تنظیموں کے باہم قریب آنے کے حوالے سے ایک قابلِ تقلید نظیر بنا رہے گا۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ ’کس نے کیا مہمیز ہوا کو‘ تو یہ خرد افروز فکر کی مشترکہ وراثت، اس کی حفاظت اور آئندہ نسلوں تک اس کو پہنچانے کا عزم ہی ہے جس نے اس کام کو مہمیز کیا۔
تنظیمی کارکردگی کے حوالے سے یہ بات بھی ریکارڈ پر لائے جانے کی مستحق ہے کہ مرکزی انجمن کی طرف سے کئی کلیدی خطبات کا اہتمام کیا گیا۔ ۱۱؍ اگست ۲۰۱۷ء کو کراچی میں انجمن کی طرف سے ’معراج محمد خان یادگاری توسیعی لیکچر‘ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس سلسلے کا پہلالیکچر’پاکستان میں جمہوریت‘ کے عنوان سے جناب آئی اے رحمان نے دیا۔ اسی طرح ۱۵؍ فروری ۲۰۱۸ء کو ’ممتاز حسین یادگاری لیکچر‘ کراچی ہی میں منعقد ہوا۔ جس میں ممتاز حسین ادبی کمیٹی اور آرٹس کونسل کا تعاون ہمیں حاصل ہوا۔ یہ لیکچر ڈاکٹر قاضی عابد صاحب نے ’مغرب میں مارکسی تنقید کی روایت‘کے عنوان سے پیش کیا۔
گزشتہ تین برسوں میں مختلف صوبائی اور ضلعی تنظیموں نے بھی قومی سطح کی کانفرنسیں اور لیکچر مرتب کیے۔ ان تمام سرگرمیوں میں مرکزی تنظیم کا تعاون پیش کیا جاتا رہا۔ اسلام آباد کی انجمن نے خواجہ احمد عباس فاؤنڈیشن کے تعاون سے ’خواجہ احمد عباس ایوارڈ‘ کی تقریب منعقد کی۔ یہ ایوارڈ ڈاکٹر مبارک علی صاحب کو دیا گیا۔ مختلف اضلاع میں ہونے والی ادبی نشستیں اس کے علاوہ ہیں، بعض اضلاع میں یہ بہت باقاعدگی کے ساتھ ہفتہ وار یا ماہانہ بنیاد پر منعقد ہوتی رہی ہیں۔ بعض جگہ یہ زیادہ تواتر اور تسلسل سے ہمکنار نہیں ہوسکیں لیکن متعلقہ ذمہ داروں کو اس امر کا بخوبی احساس بھی ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
گزشتہ تین برسوں میں مجلسِ تحقیق کی طرف سے دوکتابیں شائع ہوئیں۔ یہ دونوں کتابیں جناب احمد سلیم نے مرتب کیں۔ ان میں ایک کتاب ’فارغ بخاری اور ترقی پسند تحریک‘ کے نام سے اور دوسری ’ترقی پسند تحریک اور احمد ندیم قاسمی‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
یہاں میں بعض مسائل کی نشاندہی کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں، ساتھ ہی ہماری طرف سے جو چند کوتاہیاں ہوئی ہیں، وہ بھی اس اجلاس کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ایک نظریاتی، علمی اور فکری تحریک کو بالعموم تنظیم سازی میں ایک بڑی رکاوٹ یہ درپیش ہوتی ہے کہ تنظیم کے اتحاد کے لیے جس جذبے اور خلوص کی ضرورت ہو اس میں ذرا سی بھی کمی کارکردگی پر اثرانداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انجمن سے وابستہ سب افراد اپنی ذات، کو پس منظر میں رکھتے ہوئے انجمن کے اعلیٰ مقاصد اور اہداف کے حصول میں منہمک رہیں۔ یوں ذاتی رنجشیں اور شخصی نوعیت کے اختلافات ہمارے عظیم تر مقاصد اور ان کے حصول کے عمل کو ٹھیس نہیں پہنچا سکیں گے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انجمن کا آغاز ایسی شخصیات کی ہمرکابی میں ہوا تھا جو علمی اور ادبی اعتبار سے بہت بلند قامت تھیں جس کی وجہ سے لوگ ان کی طرف کھنچتے چلے آتے تھے۔ سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، رشید جہاں، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، سید سبط حسن، علی سردار جعفری، فارغ بخاری وغیرہ اس علمی اور ادبی قامت اور وقار کے حامل تھے کہ ان کے زیرِ اثر تنظیم سازی کا کام شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ رہا ہو جتنا آج کے دور میں جبکہ اس قامت کی شخصیتیں ہمارے درمیان موجود نہیں رہی ہیں، بن چکا ہے۔ اس کمی کو ہم صرف اپنے کمٹمنٹ اور اپنی علمی وتخلیقی صلاحیتوں کو جلا دے کر ہی پُر کرسکتے ہیں۔
ترقی پسندوں کی صفوں میں اتفاق واتحاد آج جتنا ضروری اور ناگزیر ہے، اور جتنا بڑا چیلنج یہ آج بن چکا ہے، اتنا شاید پہلے نہ رہا ہو۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک کے زمانے کا ولولہ انگیز تحرّک اور فسادات کے زمانے میں ابھرنے والا انسانیت کا داعیہ، یہ اتنی توانا حقیقتیں تھیں کہ خود یہی بہت بڑی رہنمائی فراہم کر دیتی تھیں۔ آزادی کے بعد بھی ریاستی جبر اور اس کی مزاحمت نے ہمیں اتحاد کا ایک جذبہ فراہم کر دیا تھا۔ لیکن آج کی دنیا میں جب ہر طرف افراتفری، انتشار اور Chaosکی صورتحال ہے، چیزیں سیاہ وسفید میں نظر آنے کے بجائے دھندلی نظرآتی ہیں۔ گلوبلائزیشن نے جہاں بہت اچھی چیزیں انسانیت کو دی ہیں، وہیں استحصال کی نئی شکلیں بھی وجود میں آئی ہیں۔ ریاستیں اچھے سے اچھے آئین تو بنا چکی ہیں، لیکن انسانی حقوق کی صورتحال ہر جگہ مخدوش نظر آتی ہے۔مذہبی انتہا پسندی اپنے چھوٹے چھوٹے جزیروں سے نکل کر اور غیر معمولی طور پر مسلح ہو کر پورے معاشرے میں دندناتی پھر رہی ہے۔ بازار کی معیشت نے صارفیت کا ایسا کلچر پیدا کر دیا ہے جس میں حصولِ زر اور قوت خرید اعلیٰ ترین قدریں باور کرائی جارہی ہیں۔ ایسے میں معاشرے میں انصاف، شرفِ انسانیت کی بحالی، پ سے ہوئے طبقات کی دل جوئی اور ان کے مفادات کی ترجمانی، بلکہ یہ سب کچھ صرف علمی اور تحقیقی سطح پر ہی نہیں، اور تخلیقی سطح پر بھی کرنا آج کے ترقی پسندوں کا بہت بڑا مشن ہے۔
ایک اور مسئلہ باہمی رابطے کا ہے۔ ہم نے پچھلے تین برسوں میں باہمی رابطے کی بہتر صورتیں تلاش کی ہیں۔ اس سلسلے میں جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کام آئی ہے لیکن یہ جتنی نتیجہ خیز ہوسکتی تھی، ابھی تک ہم اس سے اتنا استفادہ نہیں کرسکے ہیں۔ اس کا ایک بڑا مظہر جو کہ ہماری ایک ناکامی کی صورت میں سامنے آیا ہے وہ ’خبرنامے‘ کی اشاعت کا نہ ہونا ہے۔ اس سلسلے میں دو مرتبہ کوشش کی گئی لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔ اس ضمن میں آئندہ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ ضلعی تنظیموں کی رپورٹوں کو صوبائی سیکریٹری کو بھیجنے اور ان رپورٹوں اور خود صوبائی رپورٹوں کی مرکز کو ترسیل کے پیچیدہ طریقہ کار کی جگہ ضلعوں اور صوبوں کی رپورٹیں براہ راست ایڈیٹر کو بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا جائے جو ’خبرنامے‘ کی اشاعت سے پہلے ’مجلس تحقیق‘ یا مرکزی سیکریٹری یا کسی بھی صوبائی صدر کو دکھا کر اس کو چھپنے کے لیے بھیج دیں۔ یہ طریقۂ کار آسان بھی رہے گا اور اس سے آئین کی کسی شق کی بھی نفی نہیں ہو رہی ہوگی۔
انجمن کے مالی معاملات بھی پیشِ نظر رہنے چاہئیں۔ آئین کی رو سے ضلعی تنظیموں کو حاصل ہونے والی ماہانہ فیس کا ایک چوتھائی صوبائی عاملہ اور ایک چوتھائی مرکز کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔ اس راہ میں بھی کئی مشکلات درپیش ہیں اس کا حل مرکزی مجلس عاملہ نے یہ نکالا کہ اس نے صوبائی صدورپر یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ مجلس عاملہ کے ہر اجلاس کے موقع پر اپنے صوبے سے کم از کم دو ہزار رپے مرکزی بجٹ یا فنڈ کے لیے فراہم کریں۔ اس طریقۂ کار پر مکمل تو نہیں لیکن بڑی حد تک عملدرآمد ہوا ہے۔ چنانچہ اس طرح جو رقم بھی اکٹھا ہوتی ہے اس کے اخراجات مجلس عاملہ کے اگلے اجلاس میں پیش کر دیے جاتے ہیں۔ کنوینشن کے موقع پر ہمیں اپنی تنظیموں کے علاوہ اپنے نظریاتی دوستوں سے بھی تعاون درکار ہوتا ہے۔ ان مواقع پر اکٹھا ہونے والی رقم کا حساب رکھا جاتا ہے گزشتہ کنوینشن میں جو زرِتعاون جمع ہوا تھا اور جو اخراجات ہوئے اُن کا مکمل حساب اگلی مجلس عاملہ میں پیش کر دیا گیا تھا۔ موجودہ کنوینشن کے موقع پر جو زرِ تعاون اکٹھا ہوا ہے اور جواخراجات ہوں گے ان کا مکمل حساب اگلی مجلس عاملہ میں پیش کر دیا جائے گا۔
آخر میں مَیں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنے مرکزی صدر اور مجلسِ عاملہ کے تمام اراکین، تمام صوبائی مجالسِ عاملہ اورضلعی تنظیموں کے ذمہ داروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں جنہوں نے انجمن کے آئین کے تحت میرے کام میں نہ صرف معاونت کی بلکہ مجھے مستقل رہنمائی بھی فراہم کی۔ میں ان تمام سینئر ادیبوں اور دانشوروں کا بھی شکریہ ادا کروں گا جو انجمن کے عہدیدارنہ ہونے کے باوجود ہمیں اپنی رہنمائی سے مستفید کرتے رہے۔ اس سلسلے میں جن شخصیات سے کسی صورت صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، اُن میں جناب سوبھوگیان چندانی، محترم ابراہیم جویو، محترم عبداللہ جان جمالدینی، ڈاکٹر مبشر حسن، جناب آئی اے رحمن، جناب عابد حسن منٹو، ڈاکٹر مبارک علی صاحب، محترم رسول بخش بلیجو، جناب اشفاق سلیم مرزا، محترم ظفر اللہ پوشنی، پروفیسر غلام حسین سومرو، پروفیسر مشتاق میرانی، جناب مسلم شمیم،جناب اعتزاز احسن، جناب اسلم گورداسپوری، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، جناب منیر بادینی، جناب محمود شام، جناب تاج بلوچ، محترمہ کشور ناہید، ڈاکٹر انور سجاد، محترمہ زاہدہ حنا، جناب امتیاز عالم اور ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو شامل ہیں۔
سب سے آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ گو کہ یہ رپورٹ میں نے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے رقم کی ہے، لیکن یہ سیکریٹری جنرل ہو یا کوئی اور عہدیدار، وہ گوشت پوست کاایک انسان اور اپنی ذاتی اور شخصی حیثیت کا بھی مالک ہوتا ہے۔ سو مجھے اجازت دیں کہ میں بالکل ذاتی سطح پر یہ عرض کرنے کی جسارت کروں کہ ترقی پسندی کے اس سفر میں جو میری زندگی کا سب سے مبارک پہلو ہے، میں روشن خیال دانشوروں اور ادیبوں کی عقلیت پسند تحریروں اور انسان دوست تخلیقات کے ذریعے ہی شامل ہوا تھا، گزشتہ تین برسوں کے مطالعے اور ملک بھر کے دور افتادہ علاقوں میں زندگی کے حقائق کو زیادہ قریب سے دیکھنے کے مواقع ملنے پر میرا اپنے سفر پر ایمان مزید پختہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے بھی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا مشکور ہوں جس کے طفیل مجھے یہ مواقع بہم ہوئے۔
اس کے ساتھ ہی میں اگلے تین سال کے لیے منتخب ہونے والی مجلس عاملہ کو پیشگی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔آپ سب خواتین وحضرات کا بھی شکریہ کہ آپ نے صبر اور سکون سے ان گزارشات کو سنا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *