Home » پوھوزانت » آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمدمری

آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمدمری

۔10۔ تعلیم

ہم بلوچستان میں آج اکیسویں صدی میں بھی ، تعلیمی پسماندگی اور بدحالی کا اشکبار دل سے تذکرہ کرتے ہیں تو سو سال پہلے اندازہ کر لیں کہ اُس کا کیا حال ہوگا۔ ایسی گھبیر صورتحال کہ تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔
ہمیں اس سلسلے میں سکالر محترم امین کھوسہ کا تجزیہ بھرا ایک مضمون ملا ہے ۔ ہم اُسی کے اقتباسات سے اُس تاریک صورتحال کا اندازہ کرسکیں گے۔اور آج تعلیمی ابتری کی جڑیں بھی شناخت کرسکیں گے۔
اُس مضمون کے پڑھنے سے ہمیں یہ اندازہ بھی ہوسکے گاکہ یوسف عزیزمگسی نے کن کن رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرکے اپنی راجدھانی میں تعلیمی اصلاحات کی تھیں۔
یہ مضمون 16جولائی 1933کے البلوچ میں ’’سیاسیاتِ بلوچستان پر مکمل تبصرہ‘‘ کے عنوان سے چھپا تھا۔
کھوسہ صاحب بلوچستان میں تعلیم کی غیر موجودگی کی دو بڑی وجوہات بتاتاہے۔ پہلی سبب دیکھیے :
’’۔۔۔یہ دور ایساتھا کہ سردار قوم کے حقیقی روح رواں کی حیثیت میں جلوہ افروز ہوا۔ پہلے قوم جو کچھ کرتی تھی اس کو دائرہ عمل میں لانا ہوتا ، لیکن اب وہی (یعنی سردار)تجاویز وغیرہ کا مصدر ہوا اور قوم ان ’’احکام ‘‘کی تکمیل کیلئے آلہ کار بنی۔ سردار کے حکم کی خلاف ورزی نہایت مذموم سمجھی جانی لگی ۔یہ اس لیے کہ سردار کی شخصیت میں ’’کچھ تقدس ‘‘ کی آ میختگی بھی روا رکھی گئی ۔یہاں سے ابتدا ہوتی ہے اُن خرابیوں کی جو موجودہ بلوچ سوسائٹی کی جڑوں کو کھارہی ہیں۔ سرداروں میں شاذونا در علم دوست ہوتے یا واقعی پڑھے لکھے ہوتے، اس لیے اس کی طرف توجہ مبذول کرنا بے سود سمجھا گیا۔کچھ تو مخصوص حالات اور کچھ ان سرداروں کی عدم توجہی نے جہالت کوجائز قرار دیا۔ جو چیز سربراہ کی پسندیدگیِ خاطر پر گراں گزرے اس کو فروغ کس طرح دیا جاتا ہے‘‘۔
تعلیمی انحطاط کی دوسری وجہ بھی کم اہم نہیں:
’’۔۔۔جیسے ہندوستان میں ’’بابو لوگ‘‘ گھڑ نے کی ضرورت سرکار کو پیش آئی وہ (ضرورت) بلوچستان میں نہ تھی۔
’’بلوچستان میں شروع میں ہی لالہ جی صاحبان کچھ کم نہ تھے ۔ لہذا سرکار کو دماغ سوزی کی ضرورت کیا تھی کہ وہ ’’ ستڑے مہ سے، اور، داڑے برک‘‘ کو پڑھانے تک ٹھہر جاتی۔ ایک لالہ جی دوسرے لالہ جی کو لایا۔ ایک سردار جی دوسرے سردار جی کا رہبر بنا۔ ایک بابو جی دوسرے کا پشت بنا۔ یہاں تک کہ بلوچستانیوں کے حق میں وہ مصرع ٹھیک اترتا ہے کہ:
طاقتِ مہمان نداشت خانہِ مہماں
’’۔۔۔ جیسے ہر محکمہ دستِ بابو جی کا محتاج تھا، ویسے ہی نظام تعلیم۔ آپ خود خیال کیجئے اس باہر سے آئے ہوئے آدمی کے کندھے پر کونسی ایسی مصیبت آن کر پڑی تھی کہ وہ زیارت کے پہاڑوں میں بسنے والے افغانوں یا دنبے چرانے کے شغل میں رہنے والے مریوں کو تعلیم دلانے پر سارا قیمتی وقت صرف کرتا!
’’پڑھیں نہ پڑھیں جائیں کھڈے میں ‘‘ اس قسم کا کوئی خیال اس کے دماغ میں چکر لگاتا ہوگا۔ اِس طرف بے توجہی کی یہ حالت اور اُس جانب بے خودی کا یہ عالم کہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ۔لیکن آخر یہ زمانہ کب تک چلتا ۔وہ وقت بھی آیا کہ بلوچستان کی سنگلاخ اور شوریدہ زمین سے دور ’’پڑھے لکھے‘‘ آدمی بھی اگنے لگے۔ لیکن کس ماحول میں کہ پانی ہوار وشنی پر باہر سے آئے بھائیوں کا مکمل قبضہ تھا۔ اب شروع ہوتا سلسلہ تنازع للبقا کا!
’’ایک بلوچستانی ’’ملکی ملکی‘‘ کے سُرالاپتا ہے تو چند سال یہ ترنم ریزیاں اس کی قائم رہیں۔ ’’غیر ملکی‘‘ کو بھی آخر پیٹ پالنا ہے وہ اس چیخ وپکار کو سنتا کیوں ہے اور نوکریوں کو حتی الوسع اپنے بھوکے پیٹ کے کسی نہ کسی عزیز کو سپرد کرنے کیلئے نوالہ کی صورت میں اگلتا جاتا ہے ۔ اس لطف ومزا سے کہ بلوچستانی غصہ سے جل کر دانت پیس کر گلا پہاڑ پہاڑ کر چلاتا ہے ’اے بودی والے ! اے تسی تسی، مینوں بولی بولنے والے۔ اے میاں سیاں بکنے والے نکل بلوچستان سے کہ گھر کا مالک آیا‘۔
’’ہم ان دونوں کو اس حالت میں چھوڑ کر بلوچستان کی تعلیم پراس مقابلہ کے اثرات کو واضح کرتے ہیں۔ یہ تو دہرانے کی بات نہیں کہ مروجہ طریق تعلیم ہندوستان میں لارڈمیکالے نے سوچاتھا ۔۔۔اس نے تو کلرک سازمشین کی ایجاد کی تھی ۔ اور ہوا بھی ایساہی۔ لوگ جوق درجوق کالجوں سے نکلتے اور ڈپٹی کلکٹر وغیرہ کی تمنائیں لے کر نکلتے۔تعلیم تعلیم کے غرض سے تھی ہی نہیں تودی کیسے دی جاتی۔ کالجوں کی ڈگریاں غلامی یانوکریوں کے طوق زریں کے علاوہ اور کس کام کی ۔ چنانچہ بلوچستانی جو تعلیم کی طرف پلٹے تو یہ سمجھ کر کہ میٹرک ہونے کے بعد ای۔ ایس ۔ سی تو ضرورہی ہوں گے۔ اگر نہیں تو تحصیلدار۔ تحصیلدار نہیں تو نائب وہ نہیں تو پٹواری ۔غرض یہ کہ کچھ نہ کچھ اس درِدولت کے دربانوں میں ہوکے رہیں گے ۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکلا۔ ان کی امیدیں خاک آلودہ ہو گئیں۔ اور ہونی چاہیے تھیں۔ بلوچستان سے باہر آنے والے بجائے خود ایک طبقہ (Class)ہے ۔ اسے حق حاصل ہے کہ جیسے آسودہ طبقہ کی خوشی کا انحصار غریب کے رنج والم پر ہے ویسے وہ بھی ملکیوں کو مبتلائے مصیبت رکھ کر پیٹ پالتے رہیں۔ جس طرح امر اطبقہ غرباپر ظلم وتشدد کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔۔۔‘‘
گوکہ سماجی تبدیلی ایک باشعور سماجی تنظیم کی منظم تحریک سے ہی آتی ہے۔ اوراس سلسلے میں تعلیم کا الگ سے اثر بہت محدود ہوتا ہے۔ مگر تعلیم تو انسان کو بدل کر رکھتا ہے ۔ لہذا اِس کے بغیر نہ سماجی شعور جامع انداز میں ملتا ہے ، نہ سماجی تحریک بنتی ہے اور نہ انقلابی تنظیم وجود میں آسکتی ہے ۔
بالخصوص جب سماج سرقبیلوی مضبوط ستونوں پر استوار ہو تو اس میں معمولی سی دراڑ بھی غنیمت ہوتی ہے۔ اور تعلیم زبردست دراڑیں ڈالنے والی طاقت ہوتی ہے۔
بلوچستان کے اِن اولین انقلابیوں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا۔ بلوچ کانفرنس کے گڑھ یعنی مگسی علاقے کی حالت یہ تھی کہ 1933سے پہلے علاقہ جھل مگسی میں صرف چند آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اور وہ بھی جھل کے قاضی سے صرف فارسی پڑھے ہوتے تھے۔
اب یہ شعبہ بھی انقلابی لیڈر یوسف کے ہاتھ میں آیا۔اُسی یوسف کے جو ابھی چندماہ قبل 1932کی جیکب آباد بلوچ کانفرنس میںیہ قرار داد پاس کروا چکا تھا:
’’تعلیم کے محکموں کو مقامی لوگوں کے چارج میں دیا جائے۔پرائمری تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے ، اور اس مقصد کے لیے دیہاتوں میں کافی تعداد میں سکول کھولے جائیں۔برٹش بلوچستان اور سٹیٹ فیڈریشن آف بلوچستان کی ہر ریاست کی ہر تحصیل میں ایک مڈل سکول کھولا جائے ۔ اور سرداروں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اس طرح کے سکول کھولیں۔ہر سکول کے ساتھ ایک بورڈنگ ہاؤس دیا جائے ۔بلوچستان کے ہر حصے میں ایک ٹیکنیکل سکول کھولا جائے جہاں مقامی اور غیر ملکی دستکاری سکھائی جائے تا کہ مقامی نوجوان روزگار پا سکیں ۔سکول اور کالج کے حالیہ وظائف کی تعداد بڑھا دی جائے اور انہیں بلوچستان کے مقامی باشندوں کے لیے مخصوص کیا جائے ۔سکول وظائف غریبوں کے بچوں کو دیے جائیں نہ کہ سرداروں کے بیٹوں کو۔سول اور مکینکل انجینئرنگ اور طب کے لیے علیحدہ وظائف دیے جائیں اور انہیں بالخصوص بلوچستان کے مقامی لوگوں کے لیے مختص کیا جائے ۔بلوچستان کو میٹرک کے امتحانوں کی یونیورسٹی بنا دیا جائے‘‘ ۔
اب اسی قرار داد کو محدود علاقے میں ہی سہی ، عملی بنانے کا موقع آگیاتھا۔
چنانچہ اس نے(پہلے قدم کے بطور)15 اکتوبر1933 کو جھل مگسی کے ایک وسیع قطعے پر’’جامعہ یوسفیہ‘‘ کے نام سے ہائی سکول کی بنیاد ڈالی۔(مگر جامعہ کا مطلب تو یونیورسٹی ہوتا ہے ناں!)۔ بلوچستان کے اس دور اندیش لیڈر نے اپنی قوم کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی خاطر غریب بچوں کے لیے ہاسٹل کا بندوبست کیا جہاں قیام و خوراک کا انتظام جامعہ کی طرف سے تھا ۔جہاں پر طلبہ کو مفت تعلیم، لباس اور خوراک مہیا کی جاتی تھی۔سواس نے قراردادوں کے ٹھیک ساڑھے نو ماہ بعد اپنی اُن کاغذی قراردادوں کا زمینی بنیاد رکھا۔
مگر یہ سب کچھ آٹو میٹک طور پر تو نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے لیے تو ان تھک محنت اور بہت گہری کمٹ منٹ چاہیے تھی۔ اور ہم نے دیکھا کہ یوسف مگسی میںیہ دونوں خصوصیات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔
مالی وسائل دوسری ضروری بات تھی۔ اس سلسلے میں ’’سردار‘‘ یوسف نے اپنی جیب سے پچاس ہزار روپے اس کام پہ جھونک دیے ۔ (اُس زمانے کے پچاس ہزار!)
دور اندیشی اور جنون دیکھنا ہو تو اِس سیاسی ورکر اور مدبر کے اس قول کو پڑھیے:’’ میرے پاس مال و متاع کی فراوانی ہے۔ اگر میں اپنی تمام دولت بھی اپنی قوم پر خرچ کردوں اور میرے پاس قوم کی تعلیم و اصلاح کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے تو یقیناً اُس وقت میں ایک ایک بلوچ گھر پر صدا لگاؤں گا کہ خدا کے لیے میری جھولی میں کچھ ڈال دو تاکہ میں اپنے عظیم بلوچ فرزندوں کو منزلوں سے آراستہ کرسکوں‘‘۔
مگر یہ پچاس ہزار ختم ہوئے تو ؟ ۔ کوئی مستقل ذریعہ چاہیے تھا رقم کی ترسیل کا ۔ چنانچہ اُس نے اپنی زرعی زمین کی کل پیداوار کا دسواں حصہ تعلیم کے لیے مخصوص کر دیا۔
دو اور چیزوں کی سخت ضرورت تھی ۔ ایک تو مصمم اور کمٹڈ ٹیم ، اور دوسرا واضح حکمتِ عملی۔ چنانچہ اس نے ایک زبردست ٹیم اکٹھی کی ۔ اور اس ٹیم کا سب سے بڑا نام مولانا عبدالکریم کا تھا جو پہلے تو ’’الاسلام ‘‘‘ اور بعد میں ’’میزان ‘‘ کوئٹہ کا ایڈیٹر تھا۔ سو وہ تو بنا جامعہ یوسفیہ کا ناظم، ’’ناظم جامعہِ یوسفیہ ‘‘‘۔ مطلب وہ پورے علاقے میں تعلیم کے الگ اور مختص شعبے کا سربراہ تھا۔ ایک اور مشہور عالم کا بھی نام ملتا ہے : حاجی کینجہ ۔ وہ ہرات افغانستان کا رہنے والا تھا۔
اب آئیے تعلیم کی حکمتِ عملی کی طرف۔ اس جامعہ کا باقاعدہ ایک دستور العمل تھا، باقاعدہ نصاب تھا اور باقاعدہ امتحانی نظام تھا۔جامعہ یوسفیہ کا نصاب جامعہ ملیہ دہلی جیسا تھا۔
اس جامعہ کا ’’ابتدائی مدارس کا نصاب تعلیم’’یا تخیل ، دستور العمل 1934میں چھپا تھا۔ پمفلٹ چوالیس صفحوں پر مشتمل ہے ۔
’’ابتدائے مدارس‘‘ کے تحت یوں لکھا ہوا تھا:
’’نصابِ تعلیم کی تجویز فنِ تعلیم کا ایک اہم اور مشکل ترین معاملہ ہے ۔ اس کی عقدہ کشائی کے لیے ۔۔۔ باوجود اختلافِ کوائف ملکی اور تبایُن (فرق ) فضائے ادبی واخلاقی جامعہِ عزیزیہ اسلامیہ کے نصاب تعلیم کی تطبیق جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے نصاب سے ہوجائے‘‘۔
’’تعلیم ‘‘ کے عنوان سے جامعہ کے اساتذہ سے خطاب کیا گیا ہے۔ ابتداء یوں ہوتی ہے: ’’تعلیم کا زبردست مدعا تربیتِ اخلاق ، اصلاحِ اعمال وعادات، تصحیح ِ عقائد،متانتِ نفس اور حسنِ عمل ہے ۔ عالمِ بے عمل کو،مثل کو رِ مشعلہ دار اسی لیے کہا گیا ہے ۔ شیخ سعدی ؒ کی اس رباعی سے انسان درسِ حکمت حاصل کرسکتا ہے:
علم چند انکہ بیشتر خوانی
چون عمل در تو نیست نادانی
نہ محقق شود نہ دانشمند
چار پاپیے بروکتابے چند
اس حصے میں استاد کے فرائض بتائے گئے ہیں، پھر یہ کہ اسے کس طرح طلبہ کی اصلاح کرنی چاہیے؟ ۔اس کے مختلف طریقے درج ہیں، مثلاً: ’’سچ کی عادت پیدا کرنے کے لیے سچ بولنے والے بچے کو انعام دیا جائے تاکہ دوسرے بچوں میں بھی سچ کی ترغیب اور رشک پیدا ہو۔ ہم مکتب اور ہم جماعت بچوں میں باہمی محبت اور ہمدردی پیدا کرنی چاہیے ۔ اس کے لیے وقتاً فوقتاً کسی بیمار بچے کی عیادت کے لیے استاد کا مع اپنی جماعت کے طلبہ کے جانا مفید نمونہ رہے گا یا میدانِ کھیل میں کسی پیاسے بچے کو خود اپنے ہاتھ سے پانی پلائے یا کسی چوٹ کھائے ہوئے بچے کو خود اٹھالے ، اپنے دامن سے ہوادے ، اس کی دل جوئی کرے۔ اس طرح بچوں میں ہمدردی اور محبت پیدا ہوگی۔
نمازکی پابندی میں بچوں کو پختہ کیا جائے ۔ نماز سے ظاہر وباطن کی صفائی حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے بڑھ کر نماز کی تعریف بچوں کے دلوں میں یہ بٹھادی جائے کہ ’’ان الصلوۃ تنہیٰ عن الفحشاء والمنکر‘‘۔
اس کام کے لیے صرف دینیات کا استاد خاص توجہ نہ کرے بلکہ تمام اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ مل کر ہر وقت اس فکر میں محو ر ہیں اور اس کی طرف خاص توجہ دے کر دینی و دنیوی سرخروئی حاصل کریں‘‘۔
نصاب جامعہ کی چند کتابیں یہ تھیں:۔
۔1۔اردو قاعدہ ’’مرتبہ محمد عبدالرحمن ضیاء۔ خاص کوشش سے جامعہ کی ابتدائی جماعت کے بچوں کے لیے تیار کیا گیا تھا جو پچاس صفحوں پر مشتمل تھا۔
۔2۔’’اردو کی پہلی کتاب درسیہ عثمانیہ ‘‘ مرتبہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) (مختلف جماعتوں میں مختلف حصے)
۔3۔’’ہمارے نبیﷺ ‘‘۔شائع کردہ جامعہ ملیہ دہلی ، بطور اردو علم ادب۔
۔4۔ ’’ مخزن حساب‘‘ (مختلف حصے مختلف جماعتوں میں) خواجہ دل محمد ایم ۔اے
۔5,6’’اتالیق‘‘ (اچھی نظموں کا مجموعہ ) اور رسالہ دینیات (سلسلہ وار) شائع کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی۔
۔7۔’’جغرافیہ عزیزیہ ‘‘مرتبہ محمد عبدالرحمن ضیاء۔
۔8۔ ’’جغرافیہ بلوچستان ‘‘ مصنفہ شیخ عبدالصمد ۔
۔9۔ ’’گلدستہ قواعد‘‘ مصنفہ محمد عبدالرحمن ضیاء۔
۔10۔ ’’پہاڑ ہ عزیزیہ ‘‘ مرتبہ ضیاء۔
۔11,12۔’’گلدستہ جغرافیہ‘‘ (مختلف حصے) ’’جغرافیہ ہندوستان‘‘، مرتبہ محمد عبدالرحمن ضیاء
۔13۔ ’’جغرافیہِ ہندودنیا‘‘ مرتبہ محمد دین بی ۔ اے۔
۔14’’چار یار‘‘مرتبہ الیاس مجیبی۔
۔15’’کمک اردو‘‘مولوی محمد اسماعیل ۔
۔16۔’’سرکار دو عالمﷺ (بطور تاریخ اسلام)۔
۔17’’ خلفائے اربعہ‘‘ (بطور اردو ادب)۔
۔18’’قرآن کریم ‘‘ کے ایک منتخب حصے کا ترجمہ، مرتبہ سعید انصاری ، شائع کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی۔
۔19۔’’اچھی باتیں‘‘ یعنی خلاصہِ حدیث ، شائع کردہ مکتبہ جامعہ ملیہ دہلی ۔
علاوہ ازیں جامعہ کے اس دستور العمل میں عمارات جامعہ ، حاضری ، دار الاقامہ ، ناظر کے فرائض ، جامعہ کا سال تعلیم اور تعطیلات ، اوقات تعلیمِ جامعہ ، فرائضِ مدرسین جامعہ، فرائضِ ناظرِ جامعہ ، بچوں کی مرکزی دکان، کھیلیں، مہتم وناظر جامعہ کے فرائض، وظائف، سالانہ جلسہ اور امیر الجامعہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔(12
سہ روزہ ’’ینگ بلوچستان‘‘ کراچی 20اکتوبر1934کی اشاعت میں مگسی صاحب کی ایک نظم ’’جامعہ عزیزیہ جھل کے طلبہ سے‘‘ چھاپی:
شعاع علم سے روشن کرو تم اپنے سینے کو
تمہیں ہے ڈھونڈنا اِک گمشدہ قومی خزینے کو
عزیزی جامعہ ہے درحقیقت دولتِ نایاب
کچھ اس کے سامنے سمجھو نہ قاروں کے خزینے کو
وہ انمول صفت ہے یہ اسے اچھی طرح سیکھو
بنانا ہے تمہیں گوہر،بلوچوں کے پسینے کو
کرو صد جانفشانی سے سبق اسلام کے ازبر
اسی توشے کو لے کر چل سکو گے تم مدینے کو
چھپا کب تک رہے گا آہ! جھل کے تنگ گوشے میں
سرِ بازار لاؤ حسنِ ’’یوسف‘‘ کے خزینے کو
یوسف عزیز بذاتِ خود جامعہ میں معائنہ کے لیے جاتا ، تعلیمی حالت کاجائزہ لیتا اور رائے بک میں عملی ترقی اور عام معیار کی بلندی کے لیے تجاویز قلم بند کرتا۔
یوسف علی خان نے جامعہ عزیز یہ میں ایک لائبریری قائم کی۔ اس کی قائم کردہ لائبریری میں مذہبی، سائنسی اور دیگر شعبوں پر مبنی کتابیں اور رسالے موجود تھے۔ وہ اکثر اس لائبریری کے وزٹ کرتا‘ رجسٹر چیک کرتا ، کتب بین طالبعلموں اور دیگر افراد کی تعداد دیکھتا‘ ان سے رابطہ کرتا ۔ پڑھی گئی کتاب کے بارے میں قاری سے سوال وجواب اور کتاب سے ا خذ معلومات شیئر کرتا ۔ اور لوگوں سے ملتا اور انہیں کتب بینی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا۔
۔28نومبر 1933کے روزنامہ ’’آزاد ‘‘کا یہ ٹکڑا ایک باقاعدہ منظر پیش کرتا ہے :’’ اُس وقت خاص جھل کے شہر میں پچاس ہزار روپیہ کی عمارت سکول وبورڈنگ ہاؤس اور مدرسیں کوارٹرز تعمیر ہورہے تھے۔ قریباً وہ تمام عمارات پایہ تکمیل کو پہنچ چکیں ۔ 15اکتوبر33 19کو مرکزی سکول کی بنیاد نواب صاحب موصوف نے اپنے ہاتھوں سے رکھی ۔وہ ہفتہ بھر صبح سویرے طلبہ کو گھروں سے جاکر بلالانے اور جمع کرنے کاکام کرتا رہا ‘‘۔
اُس کے ایک رفیق عبدالصمد اچکزئی نے اسے بتائے بغیر 1933کے اواخر میں اس کے علاقے کا دورہ کیا ۔ اور 3دسمبر 1933کے البلوچ میں یہ تاثرات لکھے۔
’’( اس نے)تعلیم لازمی نہیں البتہ مفت ضرور کردی تھی یعنی جہل کے مقامی باشندوں کے علاوہ تمام بیرونی طلبہ اور یتامی وغربا کیلئے کھانا ،لباس اور دیگر ضروریات بھی سردار صاحب مہیا کریں گے۔سردار کی خواہش تھی کہ تعلیم کے ساتھ بچوں کو دستکاری بھی سکھلائی جائے ۔۔۔اس وقت جھل کے سکول میں 60طلبا تھے‘‘۔
بعد میں اخبارالحنیف نے جامعہ کے طلبا کی قابلیت کے بارے میں یہ الفاظ لکھے:(13)
’’ جامعہ کے اُس وقت کے طلبا جن کو صرف دو تین سال اس بہتی گنگا سے استفادہ کا شرف حاصل ہوچکا تھاکی تحریریں ہمارے مشاہدہ میں آچکی ہیں ۔ اور ہم حیران ہیں کہ کیا یہ بھی ممکن ہے کہ پانچویں چھٹے درجے کا ایک طالب علم اس قدر روانی سے اپنے مفہوم کو بہترین الفاظ میں ادا کرسکتا ہے؟‘‘ ۔
یوسف یہیں نہیں رکا۔بلکہ اس نے دیگر دیہاتوں میں بھی پرائمری سکول قائم کیے ۔اس نے پنجک اور کوٹ یوسف علی میں پرائمری سکول جاری کیے۔
یہاں ہم جامعہ عزیزیہ میں اُس تعلیم کے آخری درجے یعنی امتحانات اور امتحانی پرچوں کے مندرجات دیکھ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ اس ساری محنت اور اخراجات کا حاصل کیا ہوا ۔ یہاں ہمارا سورس ہفت روزہ ’’ بلوچستان جدید ‘‘ کراچی کا
۔16جون 1934کا شمارہ ہے :
’’۔۔۔ یہ واضح رہے کہ نواب محمد یوسف علی خان نے جامعہ کی بنیاد 5اکتوبر1933 کو اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی تھی جب وہ سردار ہو کر جھل آئے تھے۔ 5اکتوبر1933سے 15اپریل1934تک کے عرصہ میں جامعہ کے اندر جو تعلیم ہوئی ہے یہ پرچہ اس تعلیمی کورس یا نصاب میں سے مرتب ہوئے ہیں ۔۔۔

’’پرچہ’’ تاریخ‘‘ ۔ وقت 2گھنٹے
جماعت ابتدا سوم۔ نمبر 50
۔1۔اصحاب فیل کا واقعہ بیان کرو؟ کب ہوا، کہاں ہوا۔قرآن شریف سے اس واقعہ کا استنباط کرو؟
۔2۔اپنے مذہب کے بانی کا مختصر حال بیان کرو؟ نیز یہ بھی بیان کرو کہ آپ کے والد اور والدہ کا انتقال کب ہوا؟ والدین کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش کس نے کی؟
۔3بی بی خدیجہ الکبریٰ کا نکاح ہمارے بنی (ﷺ) سے کیونکر ہوا؟ یا کیسے ہوا؟
۔4۔ تاریخ کسے کہتے ہیں۔ تاریخ سے کیا فائدے ہیں۔ ثبوت دے کر بیان کرو؟
لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس کا مطلب ایسی آسان عبارت میں لکھوکہ ایک معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ جائے ؟ نیز یہ بھی بیان کرو کہ ہمارے نبی ﷺ نے دنیامیں رہ کر کیا کیا کام کیے؟
۔5نبیﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا قصہ قرآن شریف سے ثابت کرو۔نیز آپ کے خاتم النبیین ہونے کے ثبوت میں قرآنی آیات پیش کرو؟

’’پرچہ ’’تاریخ‘‘۔ وقت دو گھنٹے
جماعت پنچم۔ نمبر 50
حضرت محمد ﷺکی پیدائش کا حال مفصل بیان کرو؟اور صحیح تاریخ پیدائش کا حوالہ دو۔حضرت محمد ﷺ نے تجارت کب شروع کی ۔ کیونکر شروع کی۔ تجارت سے آپ کو کون سا ایسا فائدہ ہوا جس کو اگر تاریخی فائدہ کہا جائے تو بجاہے۔ آپ کی تجارت سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟
انجمن طلف الفضول(؟؟) کا مقصدکیا تھا؟ ۔ انجمن کہاں بنائی گئی۔ اس انجمن کے مقاصدمفصل طور پر بیان کرو؟
خانہ کعبہ کی دیواروں کی تعمیر پر کون سا تاریخی واقعہ وقوع میں آیا؟ حجراسود کو کونے میں کس نے لگایا۔ اس کے متعلق مفصل بیان کرو؟
آپ کو پہلا الہام کس وقت ہوا اور کہاں ہوا؟ اس کا آپ پر کیا اثر ہوا ؟ اور پہلا الہام کیا تھا؟
بی بی خدیجہ الکبریٰ کون تھی ۔ پہلے الہام کے وقت بی بی صاحبہ نے حضرت رسول مقبول ﷺ سے کیا بیان کیا؟
ورقہ بن نوفل کون تھے ؟ ۔الہام اول پر اس نے حضرت رسول مقبولﷺ کو کیسے تسلی کرائی۔ مفصل بیان کرو؟
******
’’بلوچستانِ جدید ‘‘ کراچی کے 16 مئی1934کا ایک اور ٹکڑا ملا حظہ کریں:
تیسری جماعت اور تاریخ کا پہلا پرچہ بلا مبالغہ نواب صاحب کے اس دعوٰے پر مہر توثیق ثبت کر رہا ہے ۔
’’ کہ آپ کی دس سالہ تعلیم کو یہاں انشاء اللہ چھ سال میں ختم کیا جائے گا ‘‘۔اخبار آگے لکھتا ہے :’’ہم بھی مدرس رہے ہیں ۔ہمیں بلوچستان کے رائجہ تعلیمی معیار کا خوب علم ہے ۔ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں کہیں بھی اس شان وشوکت کامدرسہ نہیں۔اس قسم کے پرجوں کو ہائی کلاس کے طلباء بھی حل نہیں کرسکتے ۔ بلکہ اکثرمدرس بھی ،وہ جوبی اے کی سند رکھتے ہیں اس کے پر چوں کو حل کرنے سے یکسر معذور ہیں۔ اس تعلیم اور پھر اسلامی تعلیم سے ملک وقوم کے بچوں کو آراستہ کیا جارہا ہے۔ بڑوں کے لیے نواب صاحب نے احکامات جاری کر کے شراب، بھنگ ، چرس وغیرہ وغیرہ منشیات تحریمی کو ممنوع قرار دیا ۔قوم و ملک کی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لیے نوا ب صاحب نے ایک ایسے پروگرام کی عملاً ابتداء کی کہ جس سے آمدنی میں ایک لاکھ روپے کا سالانہ اضافہ ہورہا تھا۔ لیکن ایک ایسے سردار کے متعلق ’’قلات کو نسل ‘‘یہ فیصلہ صادر کرتاہے کہ وہ سرداری کے اہل نہیں جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ وہ سردار جو اپنی قوم میں تعلیم پھیلاتا ہے ۔ جو اپنی اسلامی ریاست میں اسلام کی نشر واشاعت کرتا ہے ۔ جو ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی سعی کرتاہے جو اپنی مسلمان قوم میں مذہبی ممنوعات کو ممنوع ٹھہراتا ہے ،سرداری کے قابل نہیں۔
بریں عقل ودانش بیاید گریست
(ادارہ)‘‘
۔4اکتوبر1934میں سہ روزہ ینگ بلوچستان کا اداریہ بعنوان ’’جامعہ اسلامیہ عزیزیہ اور جھل کا شاندار مستقبل ‘‘ ملاحظہ ہو:
عرشیاں را صبحِ عیدآں ساعتے
چوں شود بیدار چشمِ ملتے
عرب کے زمانہِ جاہلیت کی یاد تازہ کرنے والا جھل ، نہ صرف جہل بلکہ صحیح معنوں میں جھلِ مرکب تھا۔ جہاں کے باشندے شراب ،بھنگ ، افیوم اورچرس جیسی نجس وناپاک منشیات کے علاوہ دنیا جہاں کی برائیوں میں مبتلا تھے۔ لیکن قدرت کے نہ بدلنے والے قانون نے ان کو تحت الثر ائے تک پہنچنے سے پہلے چونکا دیا۔ علاقے کا بچہ اپنی کھوئی ہوئی اورزنگ آلود قوتوں کو صیقل کرنے کے لیے میدانِ عمل میں کو د پڑا۔ بھلا قدرت کا اس سے بڑھ کر ان پر اور کیا احسان ہوسکتا تھاکہ ان کو نواب محمد یوسف علی خان جیسے مرد مجاہد کی قیادت نصیب ہوئی۔ اور جنہوں نے سرشمس جیسے انسان کی وزارت کو جس کے رگ وریشے میں جو رواستبداد رچ چکا تھا ۔ اور جس کی بے پناہ مظالم سے ریاست کلات کے بچے بچے پر سکرات کا عالم طاری تھا ۔ ایک ہی اولو العزمانہ عملی اقدام سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔ اب اسی مگسی قبیلے کا فرد ذلت وتباہی کی آخیری منزل تک پہنچ چکا تھا ۔ ہر نیاقدم عزت وعظمت کی طرف اٹھ رہا ہے ۔قوم کے بیدار مغز اور نوجوان سردار نے اِن تمام خلافِ شرع رسموں کو جنہوں نے قوم کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا تھا ۔ اِس احتیاط کے ہاتھ پیوندِ خاک کردیا ہے کہ وہ آنے والی قیامت تک سرنہ اٹھا سکیں گی۔ آپ نے اپنی قوم کو مہذب اور شائستہ بنانے کے لیے نصف لاکھ کے ذاتی مصرف سے جامعہ عزیزیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی ہے ۔ جہاں قوم کے بچے دینی اور دنیا وی تعلیم کے علاوہ علومِ جدید سے بھی خاطر خواہ طور پربہرمند ہورہے ہیں۔ جامعہ کی عنانِ نظامت مولوی عبدالکریم جیسے خلیق اور پختہ کار معلم کے ہاتھوں میں ہے جن کی طفیل وہ اپنی فلاح کی خوش آئند مراحل کمال خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ طے کررہا ہے ۔ اس وقت جامعہ کا دستورالعمل اور نصابِ تعلیم ہمارے سامنے ہے ۔ برٹش بلوچستان اور کلات کے افسرانِ تعلیم آئیں اور تھوڑی دیر کے لیے اپنے افلاطونی دعووں کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں کہ ایسی ہی تعلیم سے ایک قوم کے مستقبل کو امید افزا بنایا جاسکتا ہے‘‘۔( 14)
جامعہ عزیزیہ یوسف آباد کی شاخیں بڑھتی گئیں ۔ چنانچہ16 نومبر 1934 تک سنجیک کمبر، اور کھیر تر وغیرہ میں شاخیں کھل چکی تھیں(15) ۔ برانچ کھیر تر میں امید کی جاتی ہے کہ تعداد طلبا ا خیر نو مبر تک 200تک پہنچ جائے گی۔(16)
حد تو یہ ہے کہ جب اُسے جبراً لندن جلا وطن کیا گیا تب بھی اسے اپنے جامعہ عزیز یہ کادرد چین سے رہنے نہیں دیتا تھا ۔ مگسی صاحب نے اُس جلا وطنی کی حالت میں بھی جامعہ کے ناظم کو خط میں یوں گڑ گڑا کر اس تعلیمی ادارے کے دوام کی اپیل کی تھی :
’’۔۔۔ میرا رواں رواں، میراذرہ ذرہ آپ کامشکور ہے ۔ با ایں ہمہ آپ اپنے فرض سے اب تک آزاد نہیں ہوئے ، جب تک جھل میں تعلیمی معیار کو اس بلندی پر نہ پہنچائیں جہاں آپ کا پیارا یوسف۔۔۔ہاں اپنی افتادِ طبیعت اور نرالی فطرت کی بدولت جلا وطن، در بدر یوسف۔۔۔ اسے لانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ خدانخواستہ ، خدانخواستہ اگر یہ سکیم برباد ہو گئی، رفتار کو گل محمدکے عہدِجہالت کی حالت پر لایا گیا تومحبوب کو کہہ دو کہ یوسف ، باوجود والد کی بے انتہا محبت کے انبار سینے میں چھپائے ہونے کے، اور باوجود اور حالات کے ، خونِ جگر پی کر صبر اختیار کرے گا مگر جاہل ، بزدل جھل میں کبھی نہیں آئے گا ‘‘۔(17)
اس نے انگلینڈ کے تعلیمی او رسماجی اداروں کے مطالعہ کے پیش نظر اپنے قیام کے دوران وہاں بلوچوں کے لیے ایک دارالاقامت بنانے کی تجویز کی تاکہ جب بلوچ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے باہر جائیں تو اس ہاسٹل میں قیام پذیر ہوسکیں۔ہاسٹل کے اخراجات اس نے خود برداشت کرنے کافیصلہ کیا تھا ۔

۔10۔ فیوڈلزم کے خاتمے کی جدوجہد

یوسف علی خان جہاں جدید اسلامی تعلیم کا حامی اور بلوچستان کی آزادی کا دلدادہ تھا وہاں وہ اس امر سے بھی واقف تھاکہ غیر طبقاتی نظریات پر مبنی اسلامی ڈھانچہِ تعلیم سرداریت کے خاتمے کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی لیے تو وہ ریاستی بلوچستان میں سرداروں کے اختیار ات کم کرنے اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے کوشاں رہتاتھا۔
چنانچہ یوسف کا ایک اور بڑا کام جھل مگسی کے علاقہ سے باہر کے بلوچوں (یعنی ریاست قلات) کی عمومی سیاسی معاشی حالات میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے محنت تھی ۔
ہم جانتے ہیں کہ ستمبر 1933 کو ایک سال دس ماہ کی مختصر مدت تخت پر بیٹھنے کے بعد محمد اعظم کا انتقال ہو گیاتو20نومبر1933 میں مگسی صاحب نے بحیثیت مگسی سردار کے ،شہزادہ میر احمدیار خان کی دستار بندی میں حصہ لیا۔یوں انجن اتحاد بلوچستان کے فکر سے متاثر ایک آدمی اقتدار پر فائز ہوا۔ واضح رہے کہ اس شہزادے کے بلوچ کانفرنس یا انجمن اتحاد بلوچستان کے قائدین سے اچھے تعلقات تھے۔ یوسف عزیز انجمن کی طرف سے سٹیٹ کونسل کا ممبر بھی تھا ۔ اس نے اپنے نظریے کی مطابق ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ قلات میں عوام کے سامنے جوابدہ حکومت قائم کی جائے۔ سٹیٹ کونسل کے اختیارات بڑھائے جائیں۔۔۔(ملاحظہ ہو اُس کا وہ خط جو اس نے اس بارے میں 14اگست 1933کو قلات سے لکھا ۔۔خط نمبر 19صفحہ 45)۔

ایسا ہے طبقاتی نظام ،ایسا ہے سرداری نظام۔دل کرتا ہے گل خان نصیر کی اس بارے میں کی ہوئی ساری شاعری یہاں نقل کردوں ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *