Home » پوھوزانت » گلوبلائزیشن کے ثقافتی مضمرات اور ہمارے عصری تقاضے ۔۔۔ حنا جمشید

گلوبلائزیشن کے ثقافتی مضمرات اور ہمارے عصری تقاضے ۔۔۔ حنا جمشید

ہر عہد اپنے وقت کے ادیبوں اور دانشوروں کے سامنے ، کچھ مخصوص سوالوں کا متحمل ہوتا ہے۔ یہ سوال نہ صرف اُس عہد کے مسائل کی پیچیدیگیوں کو نمایاں کرتے ہیں بلکہ کسی بھی ادیب کی تخلیقی کاوشوں اور کسی مفکر کی تنقیدی بصیرتوں سے، فکر و شعور کی ایک ایسی فضا تخلیق کرتے ہیں جو ایک عام آدمی کو اپنے گردوپیش سے، ایک خاص قسم کا ربط اور آگہی عطا کرتی ہے۔بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں، نمایاں ہوتی برق رفتار گلوبلائزیشن کے ادبی و ثقافتی مضمرات سے کون آگاہ نہیں۔ بیسویں صدی اپنے ساتھ صنعت و حرفت اور سائنس کی ایسی انوکھی ترقی ساتھ لائی جس نے نسلِ انسانی کو اپنی سوچ سے زیادہ نوازا، لیکن اُس کے غیر محفوظ مستقبل کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دئیے۔ سائنسی ترقی کی بدولت انسانی مستقبل سے وابستہ جو واہمے اور اندیشے پیدا ہوئے وہ بھی قطعاََ بے بنیاد نہ تھے۔ جہاں ایک طرف انسان نے بہترین سائنسی ایجادات کے بل پر کائنات کو مسخر کرنے کی ٹھانی وہیں دوسری طرف مہلک سائنسی ہتھیار وں کے اور ان کے بد ترین استعمال نے دنیا بھر کے دانشوروں کو خوف میں مبتلا کردیا۔ وسائل پر ہونے والی جنگوں نے گلوبلائزیشن کے مضمرات پر، جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ آگ ایسی بھڑکی ، کہ جس کی لپیٹ میں آ کر اب تک بہت کچھ خاکستر ہو گیا ہے۔
بیسویں صدی کی آخری تین دہائیاں اور اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشرے ہمیں موجودہ عہد میں گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے سیاسی، ثقافتی، تہذیبی اور سماجی مضمرات کی خوشنما قلعی کھولتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابتداء میں ہم گلوبلائزیشن کے ایک ایسے مفہوم سے آشنا ہوئے جومثبت معاشی جہت کا حامل تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے پسماندہ باشدوں پر یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ طاقتور ممالک کے ساتھ کئے گئے تجارتی معاہدوں کا مقصد کنزیومرزم کا فروغ ہی نہیں، بلکہ طاقتور صنعتی ممالک کے سیاسی لائحہ عمل اور اجارہ داری کا خواب بھی یہاں گلوبلائزیشن کے خوشنما اوراق میں بین السطور موجود ہے۔
ایلون ٹوفلر[۱] نے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’تھرڈ وے و‘‘ میں انسانی سماج کی تاریخ کی پہلی لہر یا پہلا دور کو قدیم زمانے میں زرعی سماج کے پس منظر میں پیش کرتا ہے جبکہ دوسری لہر یا دوسرا دور صنعتی سماج کا ہے جس میں صنعتی سماج کی لہر اور اس کے ساتھ آنے والی وہ ہمہ گیر تبدیلیاں ہیں کہ جن کی بدولت پوراانسانی معاشرہ تبدیل ہو کر رہ گیا۔سائنسی ایجادات، ترقی،خوشحالی، کارپوریٹ کلچر اور گلوبلائزیشن کا آغاز اسی دور سے ہوتا ہے جب دنیا بھر میں صنعتی سامراجیت کو اُستوار کرنے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف کمپنیوں کے قیام سے نو آبادیات اورسامراجیت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ایلون ٹافلر کے ہاں تیسری لہر میں گلوبلائزیشن کا ایک مضبوط تسلط سامنے آتا ہے۔یہ تسلط ان نو آبادیات میں اور بھی مستحکم ہوتا دکھائی دیتا ہے جو ان کمپنیوں کے لئے بیک وقت وسائل اور خام مال بھی فراہم کر رہے ہیں اور ان کا جبر بھی برداشت کر تے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کوئی نظریہ یا تحریک نہیں، اس کا براہِ راست تعلق مقتدر قوتوں اور جنگِ زرگری سے ہے۔عصرِ حاضر میں گلوبلائزیشن نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے ایک نیا رخ اختیارکیا ۔اس نے خود کواپنی نفیس خوش لباسی و خو ش گفتاری اور خاص وضع کے طرزِ زندگی کے ایک مخصوص بیانیے میں کچھ اس طرح سے ملفوف کیا کہ آج اگر دنیا میں کوئی شخص ایک مثالی طرزِ حیات کی مثال قائم کرے تو وہ بلاشبہ اس مخصوص طرز سے مشابہ ہو گی جس کی پالیسی وضع ہی اس مقصد کے لئے کی گئی ہے کہ اسے کسی بھی قیمت پہ حاصل کیا جائے۔ دنیا بھر کے بہترین اور مہنگے ترین برانڈز اس کھوکھلے اور دوغلے طرزِ زندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جس کا مقصددولت کی تشہیر اور سرمایہ کاری کے نت نئے حربوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مشرق و مغرب میں سپر پاورز کے مابین محاذ آرائی اور ایٹمی جنگ کے خطرات اب تجارت و مالیات کے پیچھے جا چھپے ہیں ۔ آج کی جنگ منافع اور مفاد کی جنگ ہے۔ اقوامِ متحدہ،عالمی مالیاتی فنڈ،عالمی بینک اور محصولات اور تجارت کے عمومی معاہدوں جیسے ادارے ذاتی عناد،منافع او رمفاد کے حصول کی ہی کڑیاں ہیں ۔ جہاں اجرت پہ کام کرنے والے دانشور ان کی من مرضی کی پالیسیاں نہ صرف وضع کرتے ہیں بلکہ ان پالیسیوں کو پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لئے بھاری سود اور منافع کی شرحوں پر قابلِ قبول بناتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ان ممالک کے باشندوں کو عدم معاشی تحفظ،طبقاتی تفاوت ،مہنگائی،صحت اور روزگار کے مسائل کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔یہی نہیں بلکہ رفتہ رفتہ یہ ادارے اور کارپوریشنز ان ممالک کے وسائل پہ اپنا تسلط ہموار کرنے لگتی ہیں اور یوں یہ گلوبلائزیشن کارپوریٹ کلچرکی شکل میں،اِس معاشرے کی رگ و پے میں سرایت کرتے ساری معیشت کو ایک آکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے۔
دنیا بھر کی اعلیٰ علمی و ادبی درسگاہوں میں ترقی پذیر سرمایہ دار دنیا کے پسماندہ باشندوں کو سر نگوں کرنے کے لیے، صنعتی سامراجی اصول اور جنگِ زرگری کو اجتماعی عقائد اور معاشی خوشحالی کے لبادوں میں ملفوف کر کے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا اسے حرفِ آخر تسلیم کرے اور اس پر کوئی سوال نہ اُٹھائے۔ یہ اس ذہنی غلامی کی ابتدائی تعلیم ہوتی ہے جس میں صنعتی سامراج کے مروجہ پیمانوں اور اصولوں کو حتمی قرار دیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دنیا کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار صرف اسی بیانیے یا انہی وضع کردہ پالیسیوں میں مضمر ہے۔جبکہ سوال کرنے والوں اور نئی کھوج لگانے والوں کی ہمت کو پسپا کیا جاتا ہے اور اُن کی آواز دبادی جاتی ہے۔
بیسویں صدی کے آخری عشروں میں جب گلوبلائزیشن نے اپنی اڑان کے لیے پر پھیلانے شروع کیے تو سب سے پہلے نو آبادیات کے باشندے اس کی بدولت بد ترین استحصال کا شکار ہوئے۔لیکن اس کے بعد صورتحال ذرا مختلف تھی ۔اب وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی حکومت قائم ہو گئی تھی جس میں جمہوریت برائے نام تھی۔کارپوریٹ کلچر کی صورت دیکھا جائے تو اس کلچرکے پس منظر میں اب اصل حکومت ان مقتدر قوتوں کی تھی جن کے آگے قانون، عدلیہ، ادارے سبھی سر جھکائے کھڑے تھے۔بقول ڈیوڈ کورٹن:
’’اصل خرابی اس ڈھانچے اور ان قوانین میں مضمر ہے جن کے تحت یہ کارپوریشنیں چلنے پر مجبور ہیں۔۔۔اس میں ہزاروں افراد کو ایک تنظیم میں یکجا کرنے اور انھیں مل کر ایک کارپوریٹ مقصد کی تکمیل کے لئے کام کرنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔جو لوگ حکم کی تعمیل میں ناکام رہتے ہیں یا بغاوت کرتے ہیں انھیں نکال دیا جاتا ہے اور انکی جگہ ایسے افراد کو لایا جاتا ہے جو زیادہ تابعدار ہوتے ہیں۔‘‘ [۲] عصرِ حاضر میں ٹیلی کمیونیکیشن، مالیات، خوراک اور اسلحے سے وابستہ صرف ۱۹۰ کمپنیاں عالمی معیشت پر قابض ہیں۔دنیا کے صرف ۸۵ افراد کے پاس ساڑھے تین ارب لوگوں سے زائد دولت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تیزی سے پھیلتا طبقاتی تضاد اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ایک طرف وہ طبقہ ہے جو طاقت اور وسائل کے بل پرسرمائے کے اہرام کھڑے کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب بھوک ، معاشی بد حالی و عدم استحکام، جہالت اور ذہنی پسماندگی جو اپنے ساتھ کئی جرائم کو بھی جنم دیتی ہے۔یہاں ایک طرف کارپوریشن کے مینیجر، انوسٹمنٹ، بینکر، مالیاتی سٹے باز، کھلاڑی اور ممتاز شخصیات ہیں جن کی سالانہ آمدن لاکھوں کروڑوں ڈالر ہے اور دوسری جانب دنیا کے وہ ایک ارب انسان ہیں جو فاقہ زدگی سے بے حال ہیں ۔جن کی خوراک اور دیگر زمینی وسائل پر صنعتوں کاراج ہے۔متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہوں کی تنخواہیں ریاست کو ادا کئے جانے الے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
جب کبھی مشرق و مغرب کے دانشور مثلاََ ایڈورڈ سعید،نوام چومسکی،ایلون ٹوفلر،ڈیوڈ کورٹن،اور ارون دھتی رائے جیسے لوگ اس صنعتی سامراجیت اور کارپوریٹ کلچر کی استعماریت کا لبادہ چاک کرتے ہیں تو کارپوریٹ کلچر کے خریدے گئے دانشور اور ادیب ان کے خلاف محاذ آرائی،زہر فشانی یا کسی اتفاقی حادثے کو پیدا کر کے عوام کی توجہ اس سچ سے کسی دوسری جانب منتقل کر دیتے ہیں۔یہ ادیب و دانشور اپنی دانست میں لوگوں کو اعدادو شمار کے حساب سے دکھاتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کی بدولت دنیا ترقی و کامیابی کی راہ پہ گامزن ہے۔وہ گلوبلائزیشن کے تاریک پہلوؤں کو بھی خوشنما بنا کے پیش کرتے ہیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لئے انھیں پڑھے لکھے مزدوروں کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔یہ پڑھے لکھے مزدور ہمارے وہ نوجوان ہوتے ہیں جویا توبے روز گاری کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں یا جن کے لئے کارپوریٹ سیکٹر کے تجارتی محل ایک خوشنما سراب ہوتے ہیں۔وہ اپنی بہترین صلاحیتیں گلوبلائزیشن کی توسیع اور اضافے کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔
عہدِ جدید میں کارپوریٹ کلچر سرمائے کی بدولت اتنا طاقتور بن گیا ہے کہ وہ تیسری دنیا کے بیشتر حکمرانوں کو بھاری رشوت کے عوض خرید لیتا ہے۔یوں ترقی پذیر سرمایہ دار ممالک بھی ان کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں ۔یہ کمپنیاں وہاں کے وسائل اور محنت سے کثیر منافع اکھٹا کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے پسماندہ عوام اور حکمران چاہ کے بھی وہاں ایک آزاد اور مستحکم معیشیت قائم نہیں کر پاتے۔یہی نہیں بلکہ کارپوریٹ سیکٹر دنیا کے کئی ممالک کے درمیان جرائم و دہشت گردی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ جنگ کا ماحول پیدا کرتا ہے اور دونوں ممالک کو اپنے مہلک ہتھیارمنہ مانگے داموں فروخت کرتا ہے۔
عالمگیر کارپوریٹ کمپنیاں جو ملٹی نیشنل کمپنیوں [۳،۴] کے خوشنما لبادے میں کارپوریٹ کلچر کو جنم دیتی ہیں ،ان کا تعلق کسی ایک ملک یا خطے سے نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے استحصال کا مرکز کوئی مخصوص ملک یا خطہ ہوتا ہے۔کسی بھی ملک میں اداروں کی نجکاری، ڈی ریگولیشن، کانٹریکٹ لیبر، دہاڑی دار مزدوری،پنشن اورہیلتھ الاؤنس کا خاتمہ،یونین سازی پر پابندی وغیرہ اس کارپوریٹ کلچر کے مضمرات ہیں جن کو یہ کمپنیاں دلکش پالیسیوں میں ملفوف کر کے پیش کرتی ہیں۔کارپوریٹ کلچر لوگوں کو بتاتا ہے کہ ایک عالیشان گھر،ایک اچھے برانڈ کی گاڑی اور اسی طرح ان کمپنیوں کے تیار کردہ کپڑے اورجوتوں کے آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے برانڈاور ان کمپنیوں کے مصنوعی آرائشوں سے سجائے وسیع کشادہ ہوٹلوں میں بیٹھ کر کھائے گئے مہنگے کھانے ایک اعلیٰ طبقے کو اپنا مثالی معیارِ زندگی ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ یوں عام آدمی کے لئے یہ سب کچھ مثالی بن جاتا ہے ۔وہ بھی اس معیارِ زندگی کی تقلید چاہتا ہے۔ اس مثالیت کی مزید تلقین مختلف ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اپنے اشتہارات کے بل پر کرتی ہیں اور ان چیزوں کو آپکی زندگی میں انتہائی ناگزیر قرار دیتی ہیں۔اپنے مخصوص بیانیے کی تلقین کا کام کارپوریٹ کلچر منہ مانگے معاوضوں پہ رکھے گئے مختلف ماہرین، ادیب اور دانشوروں سے طے کرواتا ہے۔جو پڑھے لکھے مزدوروں کو اپنی معشیت کا پہیہ بنا کر استعمال میں لانے کی پالیسیاں بھی اخذ کرتے ہیں۔نیز مصنوعی طلب پیدا کر کے رسد کا جواز بناتے ہیں اور عوام کا خون چوستے ہیں۔
گلوبلائزیشن کے ان مضمرات کے باعث ہمیں غربت، بھوک، معاشی بد حالی اور سرمایہ داری کے بحران جیسے مسائل کا سامنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں، ہمارے سماجی و معاشی مسائل میں ازِحد اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے اداروں اور راہنماؤں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔کسی بھی معاشرے میں عوام کی سب سے اہم اور بنیادی ضروریات غذائی تحفظ،معقول رہائش،لباس ، صحت اور تعلیم ہیں، جو اگر بروقت نہ ملیں تو یہ اس قوم کی حقیقی محرومی ہے۔ہمارے مقامی اداروں کا اعتماد صرف اسی صورت بحال کیا جا سکتا ہے جب مقامی وسائل و اختیارات مقامی حکومت اور عوام کے ہاتھ میں ہوں ۔ آج کے عہد میں کارپوریٹ کلچر کے نظام کو جڑ سے اکھاڑے بنا طبقاتی جدو جہد سے آزادی کا حصول ممکن نہیں۔

حوالہ جات و حواشی

۔1۔ ایلون ٹافلر،’’موجِ سوم‘‘(مترجم : توحید احمد‘ڈاکٹر محمود الرحمٰن)،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،پاکستان۔ ۱۹۹۹ء (ص۔۷۰
۔2۔ ڈیوڈ کورٹن، ’’دنیا پر کارپوریشنوں کی حکمرانی‘‘(مترجم:حمید زمان،محسن جعفری،زینت حسام)،شرکت گاہ ، کراچی۔ ۲۰۰۴ء (ص۔۸۴
۔3۔ سیّد عظیم نے دی نیو بک آف نالج میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تعریف کچھ اس انداز میں کی ہے،’’بہت سی بڑی کارپوریشنیں ایک بڑے ملک میں قائم ہوتی ہیں۔مگر یہ اپنی مصنوعات کی پیداوار اور فروخت اپنے ملک کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی کرتی ہیں۔ان کے اس کاروبار کو کو ملٹی نیشنل کارپوریشنیں کہتے ہیں۔‘‘
۔4۔ سیّد عظیم، ملٹی نیشنل کمپنیاں ،دارالشعور ،لاہور۔۲۰۰۲ء(ص۔۹۲

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *