Home » شیرانی رلی » غنی پہوال

غنی پہوال

چیونٹیاں

میں جب بھی کوئی خواب دیکھتا ہوں
تو صبح وہ میری دائیں آنکھ سے
کالا کیکڑا بن کرنکل جاتا ہے
میرے گھر کی دیوا ریں او ردیگر اشیا
اب ان سے مانوس ہوچکے ہیں
شمسہ کو اگرکیکڑوں سے الرجی نہیں ہوتی
تو شایداب تک ہم شادی کرچکے ہوتے
آج شام حسبِ عادت
میں کیکڑوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا
تو دیوار پر لگی بل گیٹس کی تصویر کے ہونٹوں پر
طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی
تو میں نے خفگی چھپانے کیلئے
فورا نظریں تصویر سے پھیر کر
ٹی وی کی طرف کر لیں
اور صوفے پر بیٹھ گیا
اسکرین پر کوکر بنانے والی ایک کمپنی کا
نیااور متاثر کن اشتہار چل رہاتھا
میں جیسے ہی اشتہار دیکھنے میں مگن ہوا
اشتہار سے ایک چیونٹی برآمد ہوئی
اوراسکرین سے باہر کود پڑی
کودتے ہی وہ خود بخود بکری جتنی بڑی ہوگئی
پھر وہ کسی روبوٹ کی طرح چل کر
میرے پُرانے ماڈل کے کوکر کو منہ میں دبا کر باہر نکل گئی
میں ابھی سنبھلا نہیں تھا کہ
واشینگ مشین بنانے والوں کے اشتہار سے
ایک اور چیونٹی برآمد ہوئی جس کی جسامت گائے جتنی تھی
سب کیکڑے خوف زدہ ہوکر
میرے اوپر چڑھ کر میرے جسم سے چمٹ گئے
میں کیکڑوں کو سنبھالنے میں لگا تھا
کہ فریج بنانے والوں کے اشتہار سے بھی
ایک دیو قامت چیونٹی نمودار ہوئی
میرے پسینے چھوٹنے لگے
میں شمسہ کو پکارنا چاہ رہا تھا
مگر میری گویائی جواب دے گئی تھی
ڈر کے مارے میں نے آنکھیں میچ لیں
اور جب آنکھیں کھولیں تووہ چیونٹی فریج لے جا چکی تھی
میں نے پھرتی سے ٹی وی بند کردیا
تھوڑی دیر بعد کیکڑے بھی رینگتے ہوئے نیچے اُتر گئے
ایک لمبا سانس لیتے ہوئے
میں نے پسینے پونچ لئے
اور ٹیبل پر پڑا اخبار اُٹھا کر دیکھنے لگا
اخبار میں چھپے نئے فیشن کی ملبوسات والوں کے اشتہار سے
ہزاروں چھوٹی چیونٹیاں نکل کر
ٹڈی دل کی طرح مجھ سے چمٹ گئیں
میں بے حس و حرکت دیکھتا رہا
تھوڑی دیر بعد چیونٹیاں مرے جسم سے الگ ہوکر
بڑی تیزی سے باہر نکل گئیں
میں حواس باختہ ہوکر بھاگتا ہوا دروازے پہ گیا
پورا شہر اور شاہراہیں مختلف اقسام اور جسامت کی
چیونٹیوں سے بھری پڑیں تھیں
اور ہر چیونٹی کے منہ میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور تھی
جنہیں وہ اپنی بلوں میں لے جارہی تھیں
اور شہر کے سارے لوگ برہنہ کھڑے
گھروں کے دروازوں پر دیکھ رہے تھے

جنگل 

میں اِس شہر کو بسا کر
اسمیں یوں گُم ہو گیا ہوں
کہ میری تلاش کے سب رستے
اُس جنگل کی طرف نکلتے ہیں
جِس کی دہشت نے
میرے گِرد یہ شہر بُنا تھا
آج اسی شہر کے پھیلتے ہوئے خوف سے
میرا جنگل بھی حیرت زدہ ہے
اور سہم کر میرے اندر چُھپنا چاہتا ہے
اس سے پہلے کہ
میرے سب حوالے مِٹ جائیں
میں اسی جنگل میں لوٹنا چاہتا ہوں
جو میرے اندر پناہ لے چُکا ہے

رفتار

زینہِ وقت پر
کچھوے کی مانندرینگتے ہوئے
میرے اجدادہمیشہ
حریص بوڑھی عورتوں کی طرح
زندگی کی گھٹڑی میں
اپنا آج کل کے لئے چھپا کر رکھتے تھے
مگر میں کسی اور کے دن جینا نہیں چاہتا
نہ کسی اورکی موت مرنا چاہتا ہوں
میرا آج جو کسی کہکشاں میں
روشنی کی رفتار سے سیر کر رہا ہوگا
اُسے پانے کیلئے
وقت کی رفتار سے بھی آگے
مجھے نکل جانا پڑے گا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *