Home » شیرانی رلی » سلمیٰ جیلانی 

سلمیٰ جیلانی 

بہتی آنکھوں کا خواب

میں خواب دیکھتی ہوں
یہ ست رنگی صبح کا خواب نہیں
کچھ ستے ہوئے سے چہرے ہیں
کھائیوں سے ابھرتی
دکھ کی گہری پرچھائیاں ہیں
بہت سی آنکھیں
چھم چھم نیر بہاتی ہیں
بارش بہتی رہتی ہے
کوئی دیکھتا نہیں
گائے کو سر پر بٹھائے وہ
مدقوق انسانوں کی بلی دیتے ہیں
ماں میرے چہرے پر
گائے کا مکھوٹا چڑھا دیتی ہے
شائد میں بچ جاؤں
ریپ ہونے سے
مگر میرے بھائی کے ادھ کٹے
گلے سے بہتے لہو نے
میرا راز کھول دیا ہے
بھاگتے ہوئے بند گلی میں جا نکلی
جج کی کرسی پر
انسانی کھال کے جوتے پہنے
پتھر کے قلم سے کوئی
انصاف لکھتا ہے
مگر کسی کو نظر نہیں آتا
ہجوم میرے تعاقب میں ہے
اندھے راستہ میں
نیم کے درخت پر سوئی
امن کی فاختہ
پیشاب کی بو سے گھبرا کر
اڑ گئی ہے
درخت کی چھال سے
بدن رگڑتے ہجوم نے
بیت الخلا سمجھ کر
اپنے بلیڈر ہلکے کئے
مجھے ریشمی رومال کی
گانٹھ میں بندھا
تھوڑا سا وقت مل گیا ہے
مگر
انصاف کی تلاش میں
بہتی آنکھوں نے
اندھے رستے پر پڑی
بند گھڑی کی سوئی میں
مجھے پرو دیا ہے
میں نے گھبرا کر
آنکھیں کھولنی چاہیں
پر
یہ خواب نہیں تھا

بھوک کی قاتلانہ سازش

کوڑا چننے والا لڑکا
روٹی کے ٹکڑے کی تلاش میں
کتنی دیر سے کھڑکی کے سامنے پڑے
کوڑے کے ڈھیر کو
الٹ پلٹ رہا ہے
میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے
مگر میں اس کی مدد سے قاصر ہوں
سوچتی ہوں
اگر ایک کو کھانے کو دے دیا تو
اس جیسے دس اور آ جائیں گے
اور اس طرح ملٹی پلائی ہوتے
ان کوڑا چننے والوں کو کھانا کھلاتے
ساری روٹی ختم ہو جائے گی
پھر میں کیا کھاؤں گی
کھا بھی لوں تو
ان سب کا پیٹ کیسے بھر پاؤں گی
جو میری کھڑکی کے نیچے
لائن بنائے کھڑے ہیں
اس آسرے پر
بچی کچی روٹی کے کچھ ٹکڑے
اور رات کا سالن لے کر اپنے گھر کو جائیں گے
اپنے بھوکے بچوں کو کھلائیں گے
مگر مجھے خوف ہے
ان میں کوئی لٹیرا
چھپ کر مجھ پر وار نہ کر دے
یہی سوچ کر
اپنے بستر میں چھپ کر بیٹھ گئی ہوں
لیکن بھوک کی قاتلانہ سازش
پھر بھی جاری ہے
روٹی صرف ایک ہے
لڑکا اب بھی کوڑے کو پلٹ رہا ہے
میں دکھ سے اسے دیکھتی ہوں
پلیٹ خالی ہے
میں نے ساری روٹی خود ہی کھالی ہے

 

پگڈنڈی کا سفر 

کہیں بل کھاتی اور
کہیں سیدھی
یہ پگڈنڈی کہیں دور
سفر کو جاتی ہے
دو راہی ساتھ ہو لیتے ہیں
پھر راستے بنتے جاتے ہیں
قوس و قزح میں مدغم
سارے رنگ الگ الگ پھیلتے ہیں
آنکھوں میں امید کی
جوت جگا کر
پھر سمٹ جاتے ہیں
ہمسفر منزل کو پانے کی
دھن میں
بادل کی سیڑھی پر چڑھ کر
چار سو بکھرتی دھنک کے پار
جھانکتے ہیں
پر
اس پگڈنڈی کا انت
نہیں ملتا
جانے کہاں کو جاتی ہے

سانپ اور سیڑھی کا کھیل 

سانپ اور سیڑھی کے
اس کھیل میں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
سیڑھی پر چڑھ کے اوپر آنے والے کو
سیڑھی ہی کھا جاتی ہے
اور
سانپ دیکھتا رہ جاتا ہے
اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے
اوپر چڑھنے والا
سانپ اور سیڑھی
دونوں کو کھا جاتا ہے
بساط کو تہ کر
جیب میں رکھ لیتا ہے
پھر
نئی ایک بساط بچھاتا ہے
دیکھیں اب
کون کس کا شکاری ہو
سانپ کو مات ہو
یا سیڑھی نے مر جانا ہے

بلبلے 

دل کرتا ہے
بچپن کی وادیوں میں
پھر سے چلا جاؤں
پرانی رسی کے جھولے میں جھولوں
سارے دکھ صابن میں گھولوں
بلبلے بناؤں
اور ہوا میں انہیں اڑاتا جاؤں
مگر ظالم وقت
جاتے ہوئے
بے فکر خوابوں کے رنگ ،
نلکی اور صابن کی پیالی بھی لے گیا
سچ بتاؤں تو
بوڑھے ہوتے ہوئے بچپن کو
اب بلبلے بنانے نہیں آت

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *