Home » شیرانی رلی » سحر اِمداد 

سحر اِمداد 

سناٹا

آج کل کتابوں میں
یا کہ پھر رسالوں میں
اور روزناموں میں
جو کلام چھپتا ہے
اْس کلام میں اکثر
شاعری نہیں ہوتی!۔

شاعری کی نگری کے
راستے گذرتے ہیں
وحشتوں کے سائے میں
اور لوگ جیتے ہیں
دہشتوں کے سائے میں!۔

شاعری کی نگری کے
گھر تو ہوگئے بلڈوز
اور جو بچے ہیں وہ
اجتماعی قبریں ہیں!۔

سانجھ کے سمے آتے
اپنی اپنی قبروں میں
لوگ دفن ہوتے ہیں
اور رات آتے ہی
گْونجتے ہیں سناٹے !۔

مہران

حقیقت ہے یہ افسانہ نہیں ہے
کہ میٹھے پانیوں کے ساحلوں پر
جنم لیتی ہیں تہذیبیں!۔

یہی تاریخ کے پَنّوں پہ لکھا ہے
اسی تاریخ کی دھارا پہ بہتا
گرجتا ، شور کرتا ، ناچتا اور
گْنگْناتا ، جْھومتا دریا۔
جِسے ‘‘مہران ‘‘ کہتے ہیں

کہ میٹھے پانیوں کا جو سمندر تھا
کہ سارا سال جو بدمست ہاتھی کی طرح چنگھاڑتا تھا
اسی ‘‘ مہران ‘‘ کا اب حال ایسا ہے
بڑا سْوکھا پڑا ہے اب کے دیکھو سال کیسا ہے!۔
کہ ساگر ریت کا ‘‘مہران’’ میں اب بہتا رہتا ہے
اْجاڑ آنکھوں سے ہم کو کہتا رہتا ہے :
‘‘فقط پانی کے دھاروں پر رواں رہتی ہے کشتی زندگانی کی
اور میٹھے پانیوں کے ساحلوں پر
جنم لیتی ہیں تہذیبیں !۔

حقیقت ہے یہ افسانہ نہیں ہے
کہ میٹھے پانیوں کے ساحلوں پر جنم لیتی ہیں تہذیبیں !۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے
اگر پانی نہ ہو مرتی ہیں تہذیبیں!۔
اْسی مرتی ہوئی تہذیب کے ہم اَدھ مرے باسی
فقط اک بوند پانی کو ترستے ہیں
نہ آنکھوں میں ہے ساون
اور نہ بادل ہی برستے ہیں!۔
حقیقت ہے یہ افسانہ نہیں ہے
کہ میٹھے پانیوں کے ساحلوں پر جنم لیتی ہیں تہذیبیں!۔

سمندر کی سِمفنی 

( گوادر کے ساحل پر)

‘‘وندْر کی واٹ’’ میں ، میں نے
اْنہی پیڑوں کو دیکھا
اور چْوما اپنی آنکھوں سے
کہ جن کو شاھ سائیں نے
کبھی آنکھوں سے چوما تھا!۔

صدیوں کے سفر کی دْھول کو وہ تن پہ اوڑھے
‘کھاہوڑیوں’ کے سنگ جب جب ’’ہنگلاج ‘‘ پہنچا تھا
تو مٹی میں بھَبھْوت اس من کا جوگی
کنٹھے پہنے ، مالہا تھامے ، کفنی اوڑھے
بڑے ہی چاؤ سے
‘‘نانی کے مندر’’ میں
وہ ماتھا ٹیک آیا تھا! ۔

میں کہ سسئی تھی
پنہوں کو میں نے پایا تھا
پنہوں کو میں نے کھویا تھا
انہی تپتے ہوئے سے ریگزاروں میں
پہاڑوں کی تراشیدہ سی قطاروں میں
گرم ریتیلے بگولوں میں
اور بْتوں میں ۔
جن بْتوں کو پیار سے
خاموش وادی میں
خدا نے خود تراشا تھا!۔

اسی ہنگول وادی میں
میں تنہا تھی، اکیلی تھی
مگر ویران وادی میں
کہیں ‘اْمید کی رانی’ ملی مجھ کو
ملی اک ناگہانی سی خوشی مجھ کو
‘کھاہوڑیوں’ کے سنگ وہ بھی ساتھ تھا میرے!۔
اکیلی میں کہاں تھی ؟
سمندر ساتھ میرے چل رہا تھا
گوادر تیرے ساحل پر
نئی اْمید کا سورج یوں آنکھیں مل رہا تھا
اور نینوں میں مرے
اک سپنا سہانا پل رہا تھا!۔

گوادر تیرے ساحل پر
سمندر کی سْریلی سمفنی سننے
میں کتنے دور سے آئی
اور دعائیں ساتھ میں لائی!۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *