Home » شیرانی رلی » اشرف یوسفی

اشرف یوسفی

یادوں کے ملبے میں
دبی ہوئی ایک نظم

یہ دالان تھا
اس دالان میں پھولوں کی اک بیل ہوا کرتی تھی پہلے
اس پر پھول کھلا کرتے تھے
سوکھ گئی تھی
اب وہ سنگ وخشت کے نیچے مٹی میں ہے
جب اس کی رت یاد آتی ہے
رو لیتا ہوں
پھولوں جیسا ہو لیتا ہوں

اس کھڑکی سے دھوپ آتی تھی
لیکن اب تو۔۔۔۔۔۔۔
دھوپ یہاں کچھ کم پڑتی ہے
رات گئے شبنم پڑتی ہے
تکیہ گیلا ہو جاتا ہے

اس کمرے میں ہم رہتے ہیں
میں اور میرے غم رہتے ہیں

کونے میں جو الماری ہے
اس میں بے ترتیب کتابیں
یہ جو گرد اٹے کاغذ ہیں
ان میں ادھوری نظمیں ، غزلیں

مصرعہ مصرعہ، ریزہ ریزہ خواب پڑے ہیں
خوشبو اور مہتاب پڑے ہیں
ان خوابوں کو لفظوں کے پیراہن دیتے عمر گزاری
جانے کیسی رت سے ہے خوابوں کا بندھن
سوکھ چکے اس جل سے
سرخابوں کا بندھن

الماری کے ساتھ جو ٹیبل لیمپ پڑا ہے
رات کو جب بتّی جاتی ہے
تب مجھ سے باتیں کرتا ہے

یہ جو ایک فریم پڑا ہے
اس تعمیر میں ٹوٹ گیا تھا
اس میں اک تصویر ہوا کرتی تھی شاید
تصویروں کو کب تک رکھا جا سکتا ہے
ایک نء تعمیر یا اس تعمیر سے آگے
کچھ بھی نہیں تصویر سے آگے

وہ جو سامنے وال کلاک ہے
ایک عرصہ سے اس کی دھڑکن رکی ہوء ہے
شاید اس نے وقت کو روکنا چاہا تھا

اور بھی کمرے ہیں اس گھر میں
ان کمروں میں گھر والے ہیں
سب مجھ سے اوپر والے ہیں

دشتِ دل میں فراق کے سر ہیں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *