Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ ج ع منگھانی 

غزل  ۔۔۔ ج ع منگھانی 

اتنی تنہائیاں جانے یہ کدھر جاتی ہے
دل دھلتا ہے جہاں تک بھی نظر جاتی ہے

جب اداسی میں کوئی سانس بھی لیتا ہے کہیں
برچھی سی کیوں میرے سینے میں اتر جاتی ہے

گھنگھروؤں کو تو بجا کر میں کوئی شور کروں
ایسی ہی سوچ میں یہ عمر گذر جاتی ہے

خود کو محصور کروں آنکھ کو محدود کروں
جانے کیوں سوچ بھٹک کر بھی ادھر جاتی ہے

رنگ و خوشبو سے میں جیون کو سجالوں لیکن
تیرگی ایک سیاہ رنگ ہی بھر جاتی ہے

اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں”کنولؔ “کیسے چلوں
روشنی کھینچ کے پاؤں سے گذر جاتی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *