روشنی گر نہ دی ستاروں نے تیری خاطر میں چھین لاﺅں گا
یاد تیری کبھی جو آئی تو اپنی دنیا کو بھول جاﺅں گا
بن تیرے پھول بھی نہیں کھلتے خوشبو ملتی نہیں ہے گلشن کو
تیری جھولی میں خوشیاں بھرنے کو اپنی خوشیوں کو میں لٹاﺅں گا
تجھ سے ملنا تھا اپنی قسمت میں ورنہ کتنی بڑی ہے یہ دنیا
اپنا احساس تجھ کو دے کر میں تیری خوشیوں کو یوں چراﺅں گا
جانے کب تک رہے گا ساتھ تیرا اور کتنا سفر ا بھی باقی
ختم کرکے یہ ساری بے رحمی ایک لمبے سفر کو پاﺅ ں گا
کتنی مدت یہاں رہا جیتا کچھ نہ پایا سوائے نفرت کے
آج پہنچا ہے حکم تنہائی آج خالق کو کیا دکھاﺅں گا