Home » شیرانی رلی » آخری ہچکی ۔۔۔ آسناتھ کنول

آخری ہچکی ۔۔۔ آسناتھ کنول

سوچوں کے گڈ مڈ ہوتے
سورج کو
تم تھکن کا لبادہ دے رہے ہو
یہاں فلسفیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں
زندگی اپنی بے حسی کی
آخری ہچکی لینے لگی ہے
رفتہ رفتہ خیالات کانٹے بننے لگے
پیروں کے تلووں میں گھنے پتھریلے ریزے
لہو پینے والے کیڑے ہیں
نہ میں رکُتا ہوں
نہ سکون کی ہریالی بکھرتی ہے
بدن کو چیرتی ہوا نے
برف کی ڈفلی اُٹھالی ہے
لہجوں میں لفظ پتھر بننے لگے تو
وہ عمرکی کُدال سے اپنا وجود کھودنے لگا
عمر آخر کیادیتی ہے
سورج نے کبھی رکاوٹ نہیں دیکھی
ہوائیں آنکھیں موندے
کسی درخت کی ٹہنی پر بیٹھی ہیں
روشنی کسی کونے میں چُھپ چکی
عمر کے گھٹتے بڑھتے خانوں میں
تاریکی مُنہ چُھپائے سسکتی ہے
وقت کی آخری ہچکی سے پہلے ، شاید!۔
روشنی کی کوئی کرن ، نااُمیدی کی ہتھیلی پر
ناچنے لگے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *