Home » پوھوزانت » مزاحمت یا انحراف ۔۔۔ پروفیسر(ر)کرامت علی

مزاحمت یا انحراف ۔۔۔ پروفیسر(ر)کرامت علی

دانشوروں،شاعروں اور ادیبوں کے نام کھلا خط

تخلیق بنی نوع انسان سے موجودہ دور تک انسانی معاشرہ مختلف مراحل اورتبدیلیوں سے گزرا ہے۔ انسانی معاشرہ کی تبدیلی کے عمل، محرکات اوراس کی موجودہ شکل اورآئندہ کی صورت کے بارے میں بہت سے نظریات موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ موثرنظریہ کارل مارکس نے پیش کیا۔اُس کی نظریات کی بنیاد پر یہ دنیا دو طبقوں میں تقسیم ہوگئی۔ ظالم ومظلوم، استحصال کرنے والے اوراستحصال ہونے والے، حاکم ومحکوم اوران کے درمیان ہمیشہ کے لیے کشمکش اور جاری طبقاتی جنگ جاری رہی۔جاری ہے اورجاری رہے گی۔ تبدیلی کے محرکات، عوامل اورطریقہ کار کے بارے میں جتنے بھی مختلف نظریات موجود ہوں ایک ابدی حقیقت جو موجود تھی، ہے اوررہے گی وہ یہ کہ تبدیلی معاشرہ کا ایک لازمی جزو ہے۔موسموں کی تبدیلی ہو۔ دن رات کا بدلنا ہو۔ دھوپ اورچھاؤں کی صورت میں اختلاف موجود ہو یا بادلوں کا برسنا اورسورج کا بادلوں کی اوٹ سے نکلنے کی کوشش۔ انسان ان سب تبدیلیوں کو دیکھتا ہے اوران سے گزرتا ہے اورلطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک عجیب حقیقت ہے کہ انسان صرف ایک تبدیلی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اوراُس کے لیے ایک طبقہ دوسرے طبقہ سے باقاعدہ نہ صرف نظریاتی طورپرنبردآزما رہتا ہے بلکہ ایک دوسرے کو تباہ وبرباد کرنے کے لیے ہرقسم کا اسلحہ، ہتھیاراورطریقہ کار استعمال کرتا ہے جوکہ اُس کے بس میں ہوتا ہے ۔اور وہ ہے’’معاشرہ میں محکوم و مظلوم طبقہ کی بالا دستی تبدیلی‘‘ دراصل انسان کی Survival Instinct کے بعد سب سے بڑی جوجبلی خصوصیت ہے وہ یہ کہ لوگ اُس کی’’حاکمیت‘‘ کو تسلیم کریں اور یہ جبلی خصوصیت دانشوروں، مفکرین، نظریات کے پرچارکرنے اورمبلغین میں بہت پختگی اورراسق طریقہ سے موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ انسان کے جسم پر حاکمیت قائم رکھنا نہیں چاہتے بلکہ انسانوں کے ذہنوں کو فتح کرنے اورمحکوم بنانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں بلکہ اپنے نظریات کو انسانوں پر لاگو کرنے کے لیے وہ بین الاقوامی جنگوں کے ذریعہ سے اپنے ان نظریات کو لاگوکراتے ہیں۔ یہ بادشاہ، صدر، وزیراوردنیا کے حکمران تو اُن کے نظریات کے تابع ہوتے ہیں یہ تو صرف اسلحہ کے زورپرBattle لڑسکتے ہیں اورلڑتے ہیں۔ اصل جنگیں تو نظریات کی جنگیں ہیں ،تہذیب وتمدن کا ٹکراؤ ہے، مذاہب کی برتری کی کشمکش ہے اوراصل’’حاکمیت‘‘ اور’’محکومیت‘‘ کی یہ جنگ موجودہ دور میں بہت زیادہ خطرناک شکل اختیارکرگئی ہے۔دراصل اب Arms/Ammunition کی جنگ کی جگہ انفارمیشن ٹکنالوجی نے برق رفتاری سے دنیا کی بساط الٹ دی ہے۔ اب یہ جنگ اس ٹکنالوجی کے ذریعہ ہمارے گھروں میں گھس گئی ہے۔ ہمارے بیڈروم میں ہورہی ہے، ہم سوتے جاگتے ہوئے اس جنگ کا حصہ ہیں اورحاکموں نے محکموں کے ذہنوں کو شل کردیا ہے۔ موجودہ دور میں جس میں انفارمیشن کے انقلاب سے پچھلے50برس میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں حیران کن ہیں۔ آمریت، جمہوریت، آئین، دستور، لبرل، دانشور، معاشرہ، فیملی، تہذیب وتمدن، سیاست، کلچر، مذہب، فنون لطیفہ، ادب اورشاعری تمام شعبہ ہائے زندگی انفارمیشن ٹکنالوجی کی وجہ سے تبدیلیوں سے آشکار ہوگیا ہے۔ اب کتاب کی جگہ E-Book اورعلم کے حصول یا شاعری سے لطف اندوز ہونے کی بجائے انٹرنیٹ کے ذریعے تمام معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ لوگوں کو اطلاعات اتنی تیزرفتاری سے اوراتنا زیادہ اطلاعاتی مواد میسر ہیں کہ اُن کے لیے اس کو تمام علم سمجھتے ہیں اوراس کے علم کے ذریعہ تجزیہ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ شاعری بھی ایک ایسا Communicationکا ذریعہ ہے جس سے شاعر معاشرہ اوربین الاقوامی حالات کو اپنی ذہنی کیفیت کے ذریعے بیان کرتا ہے لیکن اُس کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذہنی کیفیت(جسے شاعر دل کی کیفیت کا نام دیتے ہیں) کو الفاظ کے اس پیرائے میں بیان کریں کہ سننے والا اُس کے سحر سے آزاد نہ ہوسکے۔
ناصرکاظمی کا یہ شعر
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ناصر نے اس میں اپنی ذہنی کیفیت کو اس طرح بیان کرکے وہ تمام لوگ جوکہ تمام گہماگہمی اوردنیا کی مصروفیات کے باوجود’’اداس‘‘ رہنے کی ذہنی کیفیت سے دوچاررہتے ہیں اس شعر کے سحر نے اس طرح جکڑ دیا ہے کہ وہ سب اسے گنگناتے ہیں اورشاعرانہ تخیل اورشاعرانہ ترتیب اورالفاظ کے چناؤ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شاعر شعر کے ذریعے جتنا شعر سنتے اورشعر پڑھنے والے پر غالب ہوجاتا ہے۔ اتنا ہی اُس شاعری کو بلند درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہم شاعری کے سحر سے اگر آزاد نہیں ہوتے تو ہم اس میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہم مغلوب ہوکر بھی اُس شخصیت کو جو کہ ہم پر غالب ہوگئی ہے پسند کرتے ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ غالب ہونے والا ہماری وہ تمام ذہنی کیفیتوں کو بیان کرتا ہے جوکہ ہم خود بیان نہیں کرسکتے۔ ہم شاعری اورادب کی تاریخ کو سمجھے بغیر بھی شاعری سے لطف اندوز اُس طرح نہیں ہوسکتے جس طرح اُس کے معنی سمجھے بغیر نہیں ہوسکتے۔ ہر شاعری کا نہ صرف معاشرتی سماجی Context ہوتا ہے بلکہ اُس کا ایک تاریخی اور بین الاقوامی منظر بھی ہوتا ہے۔اگر ہم اس منظرنامہ کو نہ سمجھتے ہوں تو پھر 1960ء کی دہائی میں حبیب جالب کے اس شعر سے کیسے لطف اندوز ہوسکتے ہیں کہ’’20روپے ہے من آٹا۔ اوراس پر بھی ہے سناٹا۔۔۔۔صدرایوب زندہ باد، صدرایوب زندہ باد‘‘ ۔یا 1975کی دہائی میں حبیب جالب کا یہ شعربغیر context کوسمجھے کیسے زبان زد عام ہوسکتا ہے”ایسے دستور کو صبح بے نور کو۔ میں نہیں مانتا۔ میں نہیں جانتا‘‘۔ یا 1980کی دہائی میں یہ شعرحبیب جالب کی پہچان بن جاتا ہے”ایک نہتی لڑکی سے۔۔ ڈرتے ہیں ہتھیاروں والے‘‘۔ آج یہ شعر اشرافیہ جلسوں میں پڑھتا ہے تو contextنہ ہونے کی وجہ سے عجیب مضحکہ خیز لگتا ہے اور حبیب جالب شاعر انقلاب کی روح کو تڑپادیتا ہے۔
شاعر۔ دانشور۔ ادیب۔ کالم نگار۔ مضمون نویس اورموجودہ دور میں ان سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرنے والے وہ اینکرپرسن اورتجزیہ نگارجو روزانہ 7بجے سے رات11بجے تک عوام الناس کو اپنے نظریات اورخیالات سے ’’متاثر‘‘ کرتے ہیں نے پہلے ہی ’’متاثرزدہ‘‘ عوام کو مزید بے بس اوراُن کی سوچ کے مطابق سوچنے پر مجبورکردیا ہے ۔بیچاری محکوم، مغلوب اورمظلوم عوام تو پہلے ہی کبھی ’’زلزلہ متاثرین‘‘، کبھی سیلاب متاثرین، کبھی قحط سالی متاثرین، کبھی بارش متاثرین، کبھی جنگ متاثرین کے حوالوں سے بقول ہمارے علماء کے اشرافیہ کے گناہوں کا کفارہ ان عذابوں کے جھیلنے سے کررہے تھے کہ اب ان کو دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، اینکرپرسن اورتجزیہ نگاروں کے متاثرین کا بوجھ بھی اٹھانا پڑرہا ہے۔
موجودہ دور کے یہ اطلاعاتی انقلاب عوام کی زندگی میں ایسی تبدیلی جو اُن کی حاکمیت۔ مسائل کے حل، فلاح بہبود اوربہتری کی طرف لے جاتی ہے اس دنیا میں Digital Divide اور سوچنے کی قوت سے محروم کرنے والوں اورسوچ سے محروم ہونے والوں میں تفاوت کو نہ صرف معاشی طورپربڑھا دیا ہے بلکہ بین الاقوامی طورپرغریب ممالک کے عوام کو اس بات پر مجبورکردیا ہے کہ اس نے کیا کھانا ہے، کیا کپڑے پہننا، کونسا جوتا خریدنا، کونسی ٹائی لگانی، شادی بیاہ پر کیا رسومات ادا کرنی ہیں، کس طرح سے لوگوں کے درمیان تعلقات ہوں گے اور ایک دوسرے کو دیکھے، ملے اورجانے بغیر کیسے دوستی کرنی ہے بلکہ شادی بھی کرنی ہے کا فیصلہ وہ طبقات کریں گے جوکہ انفارمیشن ٹیک کو اپنے مفادات میں استعمال کرنا جانتے ہیں۔ اب تو امریکہ جیسی سپرپاور کے عوام کو بھی اس ٹکنالوجی کے ذریعہ اُن کو ان کے صدر کے انتخاب سے محروم کیا جاسکتا ہے۔دنیا کے لوگوں کو اس طرح متاثر، مغلوب اورمحکوم کیا جاسکتا ہے کہ اُن کی تمام برائے نام آزادی کو بھی اپنے مفادات کے تابع بنایا جاسکتا ہے۔
اِن طبقات کے لیے دنیا بقول غالب:۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے
پاکستان کے شاعر، ادیب، دانشور، مضمون نگار، کالم نگار، اینکرپرسن اورتجزیہ نگار بھی جوکہ عوام کے’’عاشق‘‘ہیں اوراُن کے غم میں مبتلا ہیں پر غالب کا یہ شعر بالکل خوبصورتی سے مناسب ہے کہ
’’عاشق ہوں یہ محبوب فریبی ہے میرا کام
مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ میرے آگے‘‘
پاکستانی عوام کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ نام نہاددانشور، لبرل اوربائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شاعر ادیب، سیاستدان، کالم نگار، تجزیہ نگاراورمحقق جوکہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ ہم سٹیٹس کوکے حامی نہیں۔ ہم موجودہ نظام میں تبدیلی کے خواہاں اور اپنے ان نظریات کو سوسائٹی میں تبدیلی لانے اورمعاشی، سماجی، معاشرتی، سیاسی انقلاب کے لیے اہم سمجھتے اورخود کو سوشلزم اورلبرل کا علمبردار سمجھتے ہیں کو شاید یہ بھی علم نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو بندگلی جس کا کارل مارکس نے ذکر کیا تھا سے نکالنے والا اورسرمایہ دارانہ نظام کو زیادہ تیزرفتاری سے ترقی دینے والا اوراُسے بین الاقوامی سطح پر لاگو کرنے کے لیے نظریہ دینے والا معاشیات دان’’جوزف شیمپٹر‘‘ انسانی علم میں سب سے نمایاں تبدیلی کا خواہاں اورسٹیٹس کو کو رد کرنے والا ہے۔جوزف شیمپٹر اپنی کتاب Democracy, Socialism and Capitalism میں اپنے نظریہ کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام کو پھلنے پھولنے اورمعاشرہ میں ترقی کے لیے سب سے اہم وہ لوگ ہیں جوکہ سٹیٹس کو کے خلاف ہیں اورسٹیٹس کو سے انحراف کرتے ہیں اوراُسے ماننے سے انکارکرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جوکہ تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں اورتبدیلی کے خواہاں لوگ ہی اپنے نظریات اور خیالات سے معاشرہ میں ترقی اورسرمایہ دارانہ نظام کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ تبدیلی لانے والے ان لوگوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سٹیٹس کو سے انحراف کریں کیونکہ سٹیٹس کوسے انکاروانحراف کیے بغیر تبدیلی کا کوئی طریقہ ہی نہیں۔ جوزف شیمپٹر کے مطابق سوسائٹی کے موجودہ اورفرسودہ نظام کو رد کرنے اوراپنے نظریات کے ذریعے تبدیلی کے خواہاں لوگ ہی معاشرہ کی ترقی اورسرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل ہیں۔ ان لوگوں کو سوسائٹی جتنی زیادہ آزادی دے گی کہ وہ پھلے پھولے اوراپنے رد کرنے کے رویہ اورتبدیلی لانے کے ارادے کو آزادی سے پھیلائیں اتنا ہی معاشرہ ترقی کرے گا اورسرمایہ دارانہ نظام پھلے پھولے گا۔ اُس کے مطابق ایجاداور سرمایہ داراِن آزاد خیال موجودہ نظام کو رد کرنے اورتبدیلی کے خواہاں لوگوں کے لیے ایک Component تو ہوسکتے ہیں لیکن وہ آزادی کے ذریعہ سے پھل پھول سکتے ہیں۔ٹکنالوجی اُن کے ذہنی اختراع کی ممنون ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار اوردنیا کی منڈیوں پر قابض ہونے کے طریقے بنانا اوراپنے خیالات کے ذریعے لوگوں کو اشیاء خریدنے پر اُن کے ذہن کو محکوم بنانا یہ سب ان لوگوں کا کام ہے جوکہ سٹیٹس کورد کردیتے ہیں۔ اورتبدیلی لانے کے لیے اپنے نظریات پیش کرتے ہیں لہٰذا بقول شیمپٹر ان Deviants کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع دو اورایک ایسیSocial Climate ہو جس میں کہ یہ آزادی سے اورخوشی سے زندگی گزاریں۔سٹیٹس کو سے Defyکرنا اورسٹیٹس کوسے Deviateکرنے والے دونوں ہی موجودہ نظام کو رد کرتے ہیں اورتبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان کے اکثردانشور، شاعر، ادیب، لبرل اوربائیں بازو کے خیالات رکھنے والے سیاستدان اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ Deviationہی Defianceہے۔ مزاحمتی ادب، مزاحمتی شاعری اورمزاحمت کے نام پر کتابیں لکھنے والوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ Defianceصرف سٹیٹس کو کو رد کرنے اورتبدیلی کی خواہش کا نام نہیں کیونکہ یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کے پھلنے پھولنے، عوام الناس کا استحصال کرنے، بین الاقوامی منڈیوں اوروسائل پر قابض کرنے والے بھی نہ صرف اس پر یقین رکھتے بلکہ اُن لوگوں کو اپنا سردارمانتے ہیں اوراُس کے لیے تمام حربے استعمال کرتے ہیں۔ موجودہ نظام کے Defianceکا مطلب یہ ہے کہ ہم عوام الناس کی موجودہ محکومیت کو ختم کرنے کے لیے انہیں جدوجہد کرنے کا نہ صرف راستہ دکھائیں بلکہ اُن کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ آپ باغیانہ شاعری، ادب، کتابیں، مضمون لکھ کر آپ Deviationکرکے کس نظام اورنظریہ کو مضبوط کریں گے۔
شاہد مبشر کا یہ شعر’’ نیا بنے نہ بنے اور بنے تو کیسا ہو۔۔۔مگرستم کا پرانا جہاں مٹا دے گا‘‘ میں شاعر کی یہ خواہش تو ہم سب کی دل کی آواز ہے کہ ستم کا پرانا جہاں مٹ جائے۔ مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ نیا جو بنے وہ پہلے سے زیادہ ستم گر ہو کہ جیسے اب Capitalismکی جگہOne-World Imperialism، Globalizationاورinformation Ageنے لے لی ہے۔ اور اب نہ صرف جسموں کو محکوم بنا دیا گیا بلکہ ذہنوں،احساسات، خواہشات، تمناؤں، آرزوؤں اور خوابوں کو بھی انہوں نے بقول شعرا ء’’اپنی خوبصورت زلفوں کا اسیر بنا لیا ہے‘‘۔بقول میر تقی میر
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
ایسا نہ ہو کہ ’’نیا‘‘جو بنے وہ بھی بقول میر ہمیں اُن کی زلفوں کا اسیر نہ بنالے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *