Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ تمثیل حفصہ

غزل ۔۔۔ تمثیل حفصہ

وہ رات ہے , میں رات میں موئی ہوئی
وہ نیند ہے , میں نیند میں سوئی ہوئی

کیا نیند تھی جو خواب میں آئی نہیں
وہ خواب ہے , میں خواب میں کھوئی ہوئی

کچھ خواب تھے اس آنکھ میں رکھے ہوئے
وہ آنکھ ہے، میں آنکھ میں روئی ہوئی

اک آنکھ ہے جو خاک میں لپٹی رہی
وہ خاک ہے ، میں خاک میں بوئی ہوئی

کیا خاک زندہ رہ سکے بن سانس کے
وہ سانس ہے، میں سانس میں دھوئی ہوئی

جب سانس لوں تو جسم میں جگنے لگوں
وہ جسم ہے، میں جسم میں ڈھوئی ہوئی

اک جسم ہو جو لمس سے گھلنے لگے
وہ لمس ہے، میں لمس میں لوئی ہوئی

تمثیل اس کے لمس کا اک رنگ ہے
وہ رنگ ہے، میں رنگ میں گوئی ہوئی

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *