Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ آسناتھ کنولؔ 

غزل  ۔۔۔ آسناتھ کنولؔ 

واقعہ تھا تو حادثہ بھی تھا
دل کہیں پر کبھی جھکا بھی تھا

مدتوں بعد یاد آیا ہے
اُس سے نسبت تھی سلسلہ بھی تھا

آس کی رہ گزار پر چُپ چاپ
آرزو کا کوئی دیا بھی تھا

ایک حسرت رہی فنا کے ساتھ
ایک ماہوم سا گلہ بھی تھا

تو نے گھبرا کے ساتھ چھوڑ دیا
میں ترا درد آشنا بھی تھا

وقت کٹتا نہیں بہانوں سے
تو حقیقت کا آئنہ بھی تھا

آسؔ کچھ دیر اُس کو سوچتے ہیں
وہی منزل تھی راستہ بھی تھا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *