Home » شیرانی رلی » معمول ۔۔۔ سلیم شہزاد 

معمول ۔۔۔ سلیم شہزاد 

اْس سے آواز کا سلسلہ منقطع ہی رہا
فرطِ حیرت میں گم
اْس کو چْپ چاپ تکتے رہے
وہ سنورتا رہا
جانے کتنے ہی رنگوں میں ڈھلتا رہا

مختصر ’’ وہ بدلتا رہا ‘‘

ہم بہت دیر گریہ کیے
سر بہ سجدہ ہوئے ، ضِد کیے
ایڑیاں بھی رگڑتے رہے اور اثر نہ ہوا
تِشنگی ۔۔۔. تیرا شکوہ بجا
کوئی دریا نہ ہم کو میسر ہوا
نہ کنارے لگے

دل عجب بے دلی میں گرفتہ رہے
بے سبب لاحقے روگ سارے لگے
واہمے ، آنکھ اور خواب کے درمیاں
فاصلے ہیں سو کم نہ ہوئے

نہ بدل پائے آب و ہوا
مْعاملہ اک گھٹن میں رہا
روز کی طرح معمول سے
رات اْس نے بھی
کھڑکی میں کاٹی ہے اور
میں بھی بستر پہ کروٹ پہ کروٹ بدلتا رہا ۔۔۔.!! ۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *