Home » شیرانی رلی » نسیم سید کی نظمیں

نسیم سید کی نظمیں

تو یارمستاں۔۔۔ میں نظم لکھوں تو کیے لکھوں

نہ جانے کب سے
بیا ض پر میں
ادا س لفظوں کو
بے دلی سے ادھرِ،ادْھر کررہی ہوں
بے ربط سے خیالوں کو
بے یقینی کی شا خساروں پہ دھر رہی ہوں
ملول سوچوں کی کائی سی
تہہ بہ تہہ لہومیں اتر رہی ہے
وہ بے یقینی
وہ بے دلی ہے
کہ زندگی ہاتھ مل رہی ہے
وہ شاد ماں راستے جو
اپنی مراد منزل کی دھن میں دھت تھے
ٹھٹھک کے ، ایک موڑ پرکھڑے ہیں
جوباد باں دل میں کھْل رہے تھے
سوال بن کے وہ موجہِ خوں سے
لمحہ لمحہ الجھ رہے ہیں
میں دا ئیں دیکھوں تو
ایک لشکر!۔
عمامہ وجبہ وقبا میں
ہماری سوچوں، ہمارے لفظوں، ہمارے ہونٹوں پہ
اپنے فتووں کی ننگی تلوارسونت کے
ریوڑوں کی صورت میں
غول درغول سارے خوابوں کو ہانکتا
قبل تاریخ کے حوالوں کی اندھی غاروں
میں دھکے دیتا، دھکیلتا
آ گے بڑھ رہا ہے
میں بائیں دیکھوں تو
استعماروں کی دلد لیں ہیں
جوپوری دنیا سمیٹ لینے کے
فیصلوں سے ابل رہی ہیں
زمیں کا نقشہ نگل رہی ہیں
تویارمستاں !!۔
یہ دو جو چکی کے پاٹ ہیں
ان میں پستی سوچوں سے
وہ جوتاکید ہے تمہا ری کہ کوئی
سرسبز نظم لکھو
تو کیسے لکھوں ؟

Slum Dogs

( ایوارڈ کا تما شہ دیکھتے ہوئے ایک نظم )

یہ جو بچے ہیں
’’کتوں’’ کی اوقات کے
ان مناظرکوتصویر کرلیجئے
بھوک نے انکے معصوم خوابوں کو
کیسے چبایا ہے
دکھلا ئیے
پیٹ کی آ گ نے کس الا ؤمیں
کس کس طرح
ان کے جسموں کو بھونا ہے
بتلا ئیے
ان کے جسموں کے گندے Slum
آ پ کی کوٹھیا ں اپنا کچرہ جہاں رات کو
رات کیا، دن دھاڑے
بڑی تمکنت سے اچھال آ تی ہیں
آ پ اس کویہاں جوں کا توں رہنے دیں
صرف اتنا کریں
سرخ قالین پر
اس سلم کے مناظر سجا دیجئے
داد و تحسین کی
ان ’’سلم ڈوگز’’ کو ہڈیاں دیجئے
جشن کی شام ہے
جشن ہے جام ہے
دربدراپنے ہاتھوں میں کا سہ لئے
یہ سلم بستیاں
آ ج کی شب تو نام ان کا مت لیجئے
کیا بکا ؟
کیا خریدا گیا ؟
بے تکی بات ہے
آ ج کی شام
غارت تو مت کیجئے
آ سکر دیکھئے
تالیاں پیٹئے

شربتی اورگلا بی سمیرا

شربتی اورگلا بی سمیرا
جسے میں نے پہلے دیکھ کے
اپنی آ نکھیں ملیں
اورمبہوت ہوکے بہت دیر تک ایک ٹک
اس کوتکتی رہی
میں تفصیل سے اسکو تکتی رہی
خدایا۔۔ یہ آ نکھیں!!۔
سنہری کناروں کے بیچ آ تشی سبزچشمے
(مگرموج میں اپنی سہمے ہوئے)
گلابوں کے رس میں ڈبوئی ہوئی
جیسے بلورکی چھوٹی چھوٹی سی قاشوں سے ہونٹ
(اوران پہ سوالوں کی پپٹری سی جیسے جمی )
دمکتے ہوئے دونوں گالوں پہ بکھری ہوئی
وہ سنہری لٹیں تھیں !۔
وہ سنہری لٹیں !!۔
جیسے سورج کی کرنیں سمیٹی ہوئی ایک چوٹی کی صورت گندھی ہوں
شربتی اورگلا بی سمیرا
ضرورت کی ساری صداؤں پہ
وہ سارا دن دوڑتی
دس کے سن کی سمیرا کو
تھکنے کی عادت نہیں تھی
(کہ شاید اجازت نہیں تھی )
کبھی ڈھیرکپڑوں کی دھوتی ہوئی، استری کرتی
جوتوں کو چمکاتی، کھانے کی بھاری ٹرے ہاتھ میں تھامے زینوں کو چڑھتی ہوئی
سارا دن اک عجب سی ہنسی اس کے ہونٹوں پہ ہوتی
( ہنسی جس میں اک حزن ساتھا
کہ شاید کوئی طنز تھا ؟)
میں نے دیکھا کہ اکثر
ڈا ونچی کے شہکا رپراس کا جھاڑن ٹھہر جا تا۔۔۔۔۔۔۔ اوراس کی آنکھوکے چشموں میں
بیتاب سی لہریں اپنے کنا روں سے جیسے چھلکنے کوپلکوں کے زندان سے سرپٹکتیں۔
سمیرا۔۔۔۔۔۔ تمہیں مونا لیزا بہت اچھی لگتی ہے کیا ؟
’’شربتی ہوں میں باجی، سمیرا تو بس چھوٹی بی بی کے کہنے سے سب ہی بلا تے ہیں مجھکو’’
شربتی !۔
مونا لیزا تمہیں اچھی لگتی ہے کیا ؟
’’آ پ کواچھی لگتی ہے؟’’
ہاں۔۔۔۔۔۔ یہ ڈاونچی کا شہکارہے۔۔۔۔۔۔
میرا مطلب ہے یہ تو
بہت ہی بڑے ایک فنکارکی پینٹنگ ہے
تووہ کھلکھلا کے ہنسی
’’ میری باجی ’’ گلابی ’’ بہت خوبصورت ہے‘‘ ایسی کہ جیسے صنوبرؔ کی وہ دھن جووہ بانسری پر بجا تا جب چودھویں رات ہوچاند کی۔
شربتی کے لبوں پروہی مسکراہٹ تھی جوطنز لگتی تھی مجھ کو۔
’’باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے اورمشہورلوگوں کا کیا۔۔۔۔
جس کو
وہ حسن کہہ دیں وہی حسن ہے
اک زمانہ کہے گا۔۔
یہی حسن ہے
بس۔۔ یہی حسن ہے
میں حیران تھی
ایسی باتیں تمہیں کیسے آ تی ہیں ؟
’’اس کی نہ پوچھویہ اوقات سے بڑھ کے باتیں بنا نے کی عادی لیلاؔ ’’
( ادھرسے گزرتے ہوئے خالاجانی نے تنبیہہ کی )
اچھا بتا ؤ تمہیں مونا لیزا بہت اچھی لگتی ہے کیا ؟
’’نہیں۔۔۔ ہاں۔ مگر۔۔۔
مگربانسری کی حسیں دھن کے جیسی ’’ گلابی ؟’’
مرے گھٹنے سے لگ کے دھیرے سے بولی
’’یہ اگرایک دن اپنی تصویر سے زندہ ہوکے نکل آ ئے
اورچھوٹی بی بی کا اترن پہن لے
یہ جھاڑن مرااورگلابی کا ہاتھوں میں تھامے
توکیا پھرکسی کونظرآ ئے گی؟’’
شربتی کھلکھلا کے ہنسی
’’اس کی اوقات بھی میرے جھاڑن سی ہوجائے گی ’’
اس کے بلورسے ترشے ہونٹوں پہ وہ جوسوالوں کی پپٹری جمی تھی
چٹخ سی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورگلا بوں کے رس میں ڈبوئے ہوئے ہونٹ سے خون رسنے لگا۔

کو زہ گر !!۔

کوزہ گر
میرا اک کام کر
یہ جوپتلے ہیں دو
توڑکے ان کومتھ
عشق کے نم سے متھ کوزہ گر
دوکی مٹی کو متھ
اورپھرایک کوزہ بنا
پیاس کوپیارکی دان کر
اپنے کوزے کی سوندھی دعا۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *