Home » شیرانی رلی » نظم کے لئے نظم ۔۔۔ سلیم شہزاد 

نظم کے لئے نظم ۔۔۔ سلیم شہزاد 

’’ سات جنموں کی الجھی کتھا نظم ہے ‘‘

نظم کہتی ہے ’’ آ ‘‘
آجا ————– کھیلیں ذرا
میں تجھے ڈھونڈ لوں
تْو مجھے ڈھونڈتا

آئینوں میں کہیں
پتھروں کے تلے
سانولی دھوپ میں
’’ رنگ میں ‘‘ ’’ روپ میں ‘‘
ڈھونڈ ،،، دریاؤں میں
تپتے صحراؤں میں
ڈھونڈنے سے کہیں
نظم ملتی نہیں
ہاں مگر ہے ’’ یہیں ‘‘

نظم کہتی ہے یہ
تْو کبھی کچھ تو بول
خالی جیبیں ٹٹول
میں ہوں بازار میں
تاجروں میں گھری ہوں میں ، سِکوں میں
چھن ، چھن کی جھنکار میں

میں صدائے اناالحق ہوں

’’ منصور ‘‘ ہوں
ڈھونڈنے کو مجھے ، حوصلہ چاہیے
آ چلیں دار کو
’’ یعنی ‘‘
اْس پار کو !

نظم پاتال میں
ہجر کی شال میں
چْھپ کے بیٹھی نہ ہو ،
اْلجھے مصرعوں کے جالے میں اٹکی نہ ہو
نظم زخمی نہ ہو !

دیکھ اے گل قبا
یہ تو خوشبو سی ہے
سو بکھر جائے تو
دسترس میں نہیں
اپنے بس میں نہیں !

جس طرف جائے گی
پھیلتی جائے گی
کھیلتی جائے گی
خاک کے رقص میں
موجِ ہر عکس میں
دْور تک دوڑتی
جْھومتی جائے گی !

نظم پیروں سے روندا ہوا پھول ہے

میں نے ڈھونڈا بہت چاک پر
خاک میں
خس میں خاشاک میں
نظم ملتی نہیں
نظم زنداں میں ہے
رسمِ زنجیر میں
سخت پہرے میں ہے
کس اندھیرے میں ہے

جاؤ دیکھو ذرا

معنیِ نظم میں
روشنی کچھ نہیں
زندگی کچھ نہیں
دوستی کچھ نہیں

نظم رستہ بنے ’’میں‘‘ پھروں در بدر
اِس نگر ، اْس نگر
بس یہاں سے وہاں
گھومتے ، جھومتے
زندگی ، ڈھونڈتے
’’ زندگی ‘‘ سا ہی کچھ
’’ اْسکی ‘‘ آنکھوں میں ہے

اْسکی آنکھوں میں ہے
’’ اپنی آوارگی ‘‘
دلکشی ، مے کشی

شوقِ وارفتگی
اور ،،، زمان و مکاں
یہ جہاں وہ جہاں
ہم کہاں ، تم کہاں
چھوڑ سب درمیاں
نظم کو ڈھونڈ لیں !

کیکٹس پہ رکھا دل بھی اک نظم ہے

نظم آنکھوں سے ٹوٹے ستاروں میں گم
ٹشو پیپر کے ٹکڑے میں لپٹی نہ ہو
نیلگوں آسمانوں کے آنچل تلے
نظم بادل نہ ہو
ایک تصویر میں
بہتا کاجل نہ ہو
کچی مہندی کی خوشبو میں بھیگی ہوئی
سات رنگوں میں ، وعدوں میں ، لپٹی ہوئی
’’ اوڑھنی ‘‘ نظم ہے

جسکو خود سر ہوا
لے اْڑی ہے کہیں
وہ بھی تو نظم ہے

میں تو ملتا ہوں پر ، نظم ملتی نہیں
نظم تتلی کی مانند ٹکتی نہیں
آؤ بیٹھیں کہیں
دو گھڑی ، چار پل
ہم نے پیروں میں باندھے ہیں کیسے سفر

لمس کے شہر میں
رنج میں ڈوب کر
آج جی لیں ذرا
کل کی کس کو خبر ؟

اپنی سادہ سی خواہش یہاں نظم ہے

نظم خوابوں سے آگے سرابوں میں ہے
کن عذابوں میں ہے
دشت میں جو ملے آبلے نظم ہیں
سلسلے ، راستے ، فاصلے نظم ہیں
شام ہوتے ہی جب
پنچھی گھر آئیں گے
یہ بھی تھک ہار کر
دیکھ ! لوٹ آئے گی !

نظم مل جائے گی

ایک مدت ہوئی ، راہیں تکتے ہوئے
آنکھ پتھرا گئی
کیا تماشہ ہے یہ
’’ شام ہونے کو ہے ‘‘
نظم ملتی نہیں
کھڑکیاں کھول دو
سانس آتی نہیں !

حبس میں نظم ہے

چاند میں داغ ہیں
اور گْم سْم ہوا
پیڑ خاموش ہیں

جیسے ’’تْم‘‘ اور ’’میں‘‘

نظم مجذوب ہے
دل پریشان ہے
آنکھ حیران ہے
سْر ہیں بکھرے ہوئے
نظم کہتی ہے یہ
سوز دے ، ساز دے
’’ مجھکو آواز دے ‘‘
میں ترا ہی ہنر اور ترا عیب ہوں
سلسلہ غیب ہوں

’’ جانتا ہوں یہ میں ‘‘

نظم مجھ سے ملے گی
تو کھو جائے گی
میں بھی آسیب ہوں
سلسلہ غیب ہوں

سات جنموں کی الجھی کتھا نظم ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *