Home » شیرانی رلی » چنیوٹ کی رانی ۔۔۔ عرفان شہود 

چنیوٹ کی رانی ۔۔۔ عرفان شہود 

world human rights day

جِسم کی اس پہاڑی تلے آتشیںِ کھولتے غار ہیں
میرے سینے کے تابوت میں دفن ہیں اس زمانے کے بیحس مزاجوں کے ڈھانچوں کی بوسیدگی
کارِ دنیا میں کوئی بھی حاکم نہیں
نہ ہی محکوم ھے
ایک آسیبِ زر ھے شہر کے دلوں میں دھڑکتا ھوا
ایک رفتار مایہ گری کی ھے پاو?ں پہ چِپکی ھوئی
کوئی تقدیس آنکھوں میں آدم کی باقی نہیں
زندگی تیری عصمت دری اب سعادت حسن کی طرح کوئی لکھتا نہیں
کوئی مذھب نہیں کوئی مْنصف نہیں
میں اٹھارہ برس سے بدن کے گھنے جنگلوں پہ شجر کاٹ کھاتے ھوئے ایسے شہوت بھرے وحشیوں کی بنی داشتہ
میرے پورے بدن کی رگوں میں کئی خوف پیوست ہیں
ماس پہ موئے جبری گناھوں کی فصلیں اْگیں
میں جو پاداش میں ہوں کہ اپنے مجازی خدا کی زمینوں کو بنجر کیا
بیوگی میں سْہاگن بنی روز ہی ایک شب کے لیے
ایک دنیا میری غیر موجودگی میں جواں ھو گئی
کھردرے پتھروں کی بنی غار کے اْس دہانے پہ اپنے لیے
میں نے دیکھی ھے اک اجنبیت بھری زندگی
میرے بچپن کی گلیوں میں انجان آنکھوں نے ایسے تعاقب کیا
شرمساری سے اپنا ہی داغوں بھرا آئینہ اٹ گیا
اے خْدا، دیکھ لے یہ ھے دنیا تری
یہ نہتی کی داغوں بھری ھے جبیں
دھوپ اب بھی کہیں بادلوں کے صحیفوں میں آزاد ھے
پر زمیں پہ نہیں
بے گناہ غریب عورت کو اٹھارہ سال بعد باعزت بری کیا گیا۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *