Home » شونگال » عورتوں کی جمہوری تحریک

عورتوں کی جمہوری تحریک

بلوچستان میں گیارہ ہزار قبل ، پتھر کا زمانہ تھا۔آبادی کے بیچ محنت کی تقسیم شروع ہورہی تھی۔ طبقاتی سماج مدہم صورت میں قائم ہوتا جارہا تھا۔ یعنی سماج بالادست اور زیر دست گروہوں تقسیم ہورہا تھا۔ مہر گڑھ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بالادستی پہلے پہل تو چھوٹے پیمانے پر ، یعنی فرد کی فرد پر بالادستی سے شروع ہوگئی تھی اور پھر یہ بالادستی مختلف شکلیں صورتیں اختیار کرتی گئی۔ مثلاً گروہ کی گروہ پر بالادستی،ایک قبیلے کی دوسرے قبیلے پر بالادستی۔۔۔اور پھر ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر بالادستی۔یہ طبقات کانسی کے زمانے میں اچھے خاصے نمایاں ہوگئے تھے۔ اور جب مہر گڑھ لوہے کے زمانے میں داخل ہوگیا اور وہاں سے قریبی’’پیرک ‘‘نامی علاقہ میں شفٹ ہوگیا تھا تو سماج میں امیری غریبی بہت واضح ہوکر سامنے آگئی تھی۔
ظاہر ہے سماج جس قدر ابتدائی اوربھونڈی حالت میں ہوگا،بالادستی کے خلاف مزاہمت کی صورت بھی خود رو، انفرادی یا چھوٹے پیمانے کی رہی ہوگی۔ اس قدر چھوٹی کہ تاریخ اُسے نوٹ ہی نہیں کرسکی ہوگی۔ اور جوں جوں سماج ارتقا کرتا گیا تو یہ مزاہمت باقاعدہ شکل و صورت اختیار کرتی گئی۔
سچی بات یہ ہے کہ انسانی معلوم تاریخ ہے ہی بالادستیوں کے خلاف جدوجہد کی تاریخ۔انسانی تاریخ اور کچھ نہیں ماسوائے بالادستی کے خلاف مزاہمت کی تاریخ کے ۔
مگر بالادستی کی اِن ساری اقسام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ نظر آتی ہیں۔اور چونکہ یہ نظر آتی ہیں اس لیے یہ سماجی طور پر عوام الناس کی طرف سے محسوس ہوتی ہیں، اورلہذا، نا پسند کی جاتی ہیں۔
مگر ایک بالادستی ایسی رہی ہے جو نظربھی کم کم آتی ہے اور محسوس تو بالکل بھی نہیں کی جاتی ۔ وہ ہے مرد کی عورت پہ بادشاہی ۔ایک ایسا نظام بنادیا گیا کہ انسان نے اس ظلم کے خلاف بہت کم بولا،بہت کم لکھا اور بہت کم فلمایا۔یوں صدیوں تک عورت پہ مرد کی بالادستی کوشدت سے محسوس ہی نہ کیا گیا۔ بلکہ اُلٹا اسے جائز سمجھا گیا۔ اُسے شعروں کے ذریعے استحکام ملتا رہا، محاوروں، ضرب المثلوں، حکایتوں اور داستانوں میں اُس کو جوازبخشا گیا۔
جاگیرداری سماج خواہ چرچ زدہ مغرب میں ہو ، یا پیروں ملاؤں اور سرداروں والے ایشیا میں ، یہ طویل ترین سماج رہا ہے۔ یہ بالخصوص عورتوں کے لیے تاریک ترین سماج بھی رہا۔ وِچ ہنٹ وہاں مروج ہوئی تو سیاہ کاری یہاں۔ چین ہو یا مشرقِ وسطی، روم ہو یا ہندوستان فیوڈلزم نے عورت پہ بدترین وحشت مسلط کیے رکھی ۔
یہ درست ہے کہ ہر عہد میں ایک آدھ مصلح، مبلغ ، مدبر اور فلاسفرپیدا ہوتے رہے جنہوں نے عورت کی پستی پسماندگی کو محسوس کیا اور اس کی مخالفت کی ۔ مگر وہ جزوی باتوں کو لے کر جزوی حل ہی پیش کرسکے تھے۔ اس لیے کہ اُس زمانے کی سماجی ترقی کی پست سطح ،مکمل تصویر پیش ہی نہیں کرتی تھی۔ یہ تو صنعتی انقلاب کے بعدجاکر ممکن ہوا کہ پورے سماجی ڈھانچے کی فرسودگی مکمل طور پر بے نقاب ہوکرسامنے آگئی۔
بلوچستان پرانڈسٹری والے انگریز کے چھا جانے سے حالات یکسر بدل گئے ۔انہوں نے جوریاستی ڈھانچہ قائم کیا وہ ہماری ریاستِ قلات کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ اداروں پر مشتمل سامراجی ریاست تھی ۔بھر پور ، ترقی یافتہ اور مکمل ریاست۔ اُس ریاست میں لوگوں کو سرکاری ضرورت کی مطابقت میں کچھ شہری حقوق ملے۔اور دوسری طرف سماج کے مظلوم حلقوں کو رفتہ رفتہ اپنے حقوق کا شعور حاصل ہوتا گیا۔ انہوں نے اپنی زیر دستی کے خلاف انجمنیں، تنظیمیں بنائیں اور چھوٹی بڑی جدوجہدیں شروع کیں۔ کہیں کہیں تو ہڑتالیں، پریس کانفرسیں اور جلسہ جلوس ہونے لگے۔ فکری محاذ پہ ہر متاثر گروہ تحریری طور پر اپنی نجات کی راہیں پیش کرتا رہا۔
عورتوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔ بہت ہی مبہم انداز میں ، اور وہ بھی قصبوں شہروں کے اندر شروعا ت ہوئیں اور یہ’’ تحریک ‘‘گرتی پڑتی آگے بڑھتی گئی۔ کبھی یہ تحریک تنہا پرواز میں رہی اور کبھی سماج کے دوسرے متاثرہ گروہوں سے مل کر چلنے کا شعور پاتی رہی۔
فیوڈل مارشل لاؤں کے باوجود ریاست رفتہ رفتہ اپنے بالائی طبقات کو آرام سے رکھنے کے لیے اپنے اداروں کو مزید منظم کرتی رہی۔بالا دستوں نے زیر دستوں کو ایک حد تک ہی اپنی آواز بلند کرنے دی ۔جمہوریت کے مختلف برانڈ قائم ہوتے رہے ۔ اور دنیا کو دکھانے کی خاطر اِن جمہوریت پوش آمریتوں میں پارلیمنٹ ، عدلیہ اور اخبارات کو محدود سہی ،اُن کے اپنے مفاد میں سہی، مگرکچھ کچھ کام کرنے کی اجازت ملی۔لیکن مقصد بہت واضح تھا: یہ کہ ’’محض رعایتیں لے لو، ذرا سی آسانیاں لے لو۔ مگر سماج کی طبقاتی ساخت کو گڑبڑ کرنے نہیں دیا جائے گا‘‘۔لہٰذاایوب ، بھٹو ، ضیا، نواز، مشرف اور بے نظیر وغیرہ کے ادوار میں پارلیمنٹ ، آئین اور عدلیہ نامی اداروں کی ہمہ وقت استری پالش جاری رکھی گئی۔ خاتون اول نامی مضحکہ خیز جملہ بھی سننے کو ملتا رہا۔ اور خادم اعلیٰ کا مزاحیہ لفظ بھی۔ اصطلاحات کی اسی سرخی پاؤڈر میں بالادست طبقات کی بالادستی کی برقراری کے لیے پولیس اور دیگر اداروں کو بہتر بتاتے رہنے کا عمل جاری رہا۔ یعنی فیوڈل ریاست کو اب جدید ریاست کی شکل دی گئی۔ ایسی ریاست جو سابقہ ساری ریاستوں سے پیچیدہ تھی۔
یہ درست ہے کہ دنیا کی حالیہ تاریخ میں کچھ ریاستیں بشر دوستوں کے ہاتھ بھی آگئیں۔ اور وہاں عورتوں کی زندگیاں حتمی طور پرآسان بھی بنادی گئیں۔ مگر ایسا تاریخ میں بہت مختصر عرصے کے لیے ہوتا رہا۔ اور مجموعی طور پر انسانی تاریخ میں ریاست ،بالادست اور مردانہ قوتوں کے ہاتھ ہی رہی۔
بلوچستان میں عورتوں کی تحریک کی اب تک کی تاریخ نامور عورتوں مردوں کی انفرادی بہادری اور سرگرمی کے حوالے سے لکھی جائے گی ۔ یہاں عورت کی تحریک کے سنگ ہائے میل کی بات کی جائے تو ہمیں سولہویں صدی میں ماہناز کی یک نفری جنگِ مزاحمت ملتی ہے۔19ویں صدی میںیوٹوپیائی سوشلسٹ توکلی مست ،سارے جگ کو سمو کے لیے گلستان بنانے کی تبلیغیں کرتا نظر آتاہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں گل بی بی انگریز کے خلاف آزادی کی جدوجہد کو کمان کر رہی تھی ۔اور اُسی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میںیوسف عزیز مگسی آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں بلوچ عورتوں کے لیے الگ قرار دادیں منظور کروارہا تھا۔ اور اب ہماری اکیسویں صدی میں عورتوں کی کئی تنظیمیں اپنے منشوروں کے مطابق جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں۔
مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی دنیا عورتوں کے بشمول سارے کمزوروں مجبوروں اور محکوموں کے لیے ایک جہنم ہے ۔یہاں ترقی پذیر دنیا تو حسبِ معمول انتہائی استبداد ی طریقوں سے نجات کی تحریکوں کا گلا گھونٹتی رہی ۔مگر جو ترقی یافتہ کپٹلسٹ ممالک ہیں وہاں پرتاریخ کا نیا اور بدترین جبر ایجاد ہوا ہے: انفارمیشن ٹکنالوجی ۔ انٹرنیٹ اور اس سے وابستہ سوشل میڈیا کے ذریعے عورتوں کی تحریک کے بشمول دیگر سارے زیر دستوں کی تحریکوں میں خوب کنفیوژن پھیلا دی گئی۔اُن تحریکوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ، فکری الجھاؤ اور لا یعنیت کے جراثیم تسلسل سے انڈیل دیے جارہے ہیں۔کیپٹلسٹ نظام کاغضب یہ ہے کہ اس نے دانشور وں کا ایک بڑا گروہ بنا لیا جس کاکام کپٹلزم کے وفادار نوکر، ایجنٹ، فنکشنری اور ترجمان کا بن چکا ہے ۔چنانچہ اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ اب نظام کو بچانے کے لیے این جی او، اور ، انٹر نیٹ دھاوا بھی آن شامل ہوا۔
اسی انفارمیشن ٹکنالوجی کے سہارے آج کی دنیا کے بالادست طبقات اپنے دانشور کے ذریعے دو اصطلاحات کے تحت عورتوں کی تحریک کو تباہ کر رہے ہیں:فیمنزم ، اور جمہوریت۔پیسے والوں کے دانشور نے جادو یہ کیا کہ ان دونوں اصطلاحات کو اکثریتی محنت کرنے والے طبقات کے ساتھ مخصوص کرنا ترک کردیا ۔اور یوں ہوتے ہوتے یہ دونوں الفاظ واصطلاحات عام انسان کے لیے دھوکہ ،فریب اور مکربن گئے ہیں۔
صورت یہ ہے کہ فیمنزم کا مطلب اب نچلے طبقے کی عورت نہیں ہے ۔ یہ نام نہاد لفظ اب تمام طبقوں کی عورتوں کی بات کرتی ہے ۔ خواہ وہ کارخانے کی مالک بیگم صاحبہ ہویا اُسی فیکٹری میں مزدور عورت ہوں۔فیمنسٹ گروہوں کومکمل طور پر بالائی طبقے کے گروہوں میں ڈھال دیا گیاہے۔ اُن کے پاس محنت کش عام عورت کے مسائل حل کرنے کا کوئی لائحہ عمل موجو دنہیں ہے ۔یہ دولتمند عورتوں کا ایسا گروہ ہے جو اس بات کے لیے وقف ہے کہ عورتوں کے مسائل ، اُن کے حقوق ، اُن کی تحریک ، اُن کی جدوجہد ، اور اُن کی کامیابیوں کے بارے میں سوچنے،اوربات کرنے کو روک دیا جائے۔ اُن کا ایجنڈہ اس لیے عوام دشمن ہے کہ اُن کا نشانہ کپٹلسٹ نظام نہیں بلکہ پدرسری ہوتا ہے ۔فیمنزم اس لیے عورت دشمن نظریہ ہے کہ وہ طبقاتی سماج کو ختم کیے بغیر صنفی مساوات کا نعرہ لگاتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ پدرسری نظام ہی ان کے فکر وعمل کا مرکزہ بنے رہے ہیں۔ فیمنسٹوں کی منزل سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں بلکہ مرد کی بالادستی کا خاتمہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ عورت کو طبقات سے ماورا سماجی وجود شمار کرنے لگتے ہیں۔فیمنسٹ کا لفظ ایک نظریاتی کنفیوژن کا لفظ بن چکا ہے ۔
جمہوریت ایک دوسرا گورکھ دھندا ہے۔اُس کے اندر حسین الفاظ ، ترانوں ، فلموں اور دلکش ڈاکومنٹریز کے ذریعے چکا چوند بھر دی گئی ہے ۔مگر جمہوریت دراصل آج کی دنیا میں کروڑ پتیوں کے مابین انتخابی مقابلہ ہے ۔جمہوریت میں لوکل باڈیز سے لے کر اسمبلیوں تک سیٹیں آبادی کے اندر موجود صنف اور پیشہ کے بنیاد پر تقسیم ہی نہیں کی گئیں۔ کسان خواہ پچاس فیصد ہیں یا پچاسی انہیں ووٹ جاگیردار کو ڈالنا پڑتاہے ۔یوں جمہوریت کے نام پر فیوڈل لوگ حاکم ہیں، اورجمہوریت ہی کے نام پر مردانہ بالادستی برقرار رکھی گئی۔
اگلی بدنیتی یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے پالیسی ساز اداروں میں عورتوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔پھر ملازمتوں کے حصول میں، تنخواہوں میں، بنیادی انسانی سہولتوں اور آزادیوں میں عورتوں کو کسی طرح کی برابری میسر نہیں ہے ۔ حتی کہ ہمارے بلوچستان میں آپ کسی سیاسی پارٹی کے منشور میں عورتوں کے بارے میں کوئی الگ گوشہ تک نہ دیکھ سکیں گے۔
اس سارے جرم میں سب سے مکروہ کردار طفیلی دانشور کارہا ہے ۔ وہ ہمہ وقت بلوچ سماج کو پسماندہ قرار دیتا رہا ہے ۔وہ جمہوریت، الیکشن اور پارلیمنٹ جیسے ترقی یافتہ صنعتی سیاسی نظام میں رہ کر بھی بلوچستان کو غیر طبقاتی سماج ہونے کا فتوا دیتا ہے۔ یوں حقدار طبقات اور گروہ سیاسی عمل سے ہی باہر رکھے گئے ہیں ۔اور اقتدار حاکم طبقات کے اندر ہی قائم دائم رہا ہے ۔
تو اب ایسی صورت میں ذمہ دار اور احساس لوگوں کو کیا کرنا ہوگا؟ ۔چونکہ بلوچستان اپنی ساری ترقی پذیری کے باجود عالمی کپٹلسٹ نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، اس لیے اُن تمام بنیادی شہری سہولتوں اور حقوق کا مطالبہ کرتے رہنا چاہیے جو دنیا کے انسانوں کو حاصل ہیں ۔ انہی مطالبات پر مشتمل تنظیمیں ، ایسوسی ایشن اور ٹریڈ یونینیں بنائی جائیں۔ اور انہی نکات کو لے کر سیاست کی جائے ۔یہ سیاست خواہ فوری نوعیت کی ہویا بالآخر پورے طبقاتی ڈھانچے کو بدلنے کی ۔
انقلاب آتے نہیں لائے جاتے ہیں۔ انقلاب لیڈر نہیں لاتے ۔ حتی کہ انقلابی پارٹیاں بھی انقلاب نہیں لاتیں ۔انقلاب صرف عوام لاتے ہیں ۔اُس وقت جب وہ انقلابی بن چکے ہوتے ہیں۔ اُن کو انقلابی بناتا کون ہے ؟ اُن کے اپنے مسائل۔انقلاب ہوا میں نہیں بلکہ ٹھوس انسانی مسائل کو بنیاد بنا کرلائے جاتے ہیں ۔اچھے لوگ اُن مسائل کو واضح کرکے عوام کو بتاتے رہتے ہیں، اُنہیں منظم ہونے میں مدد دیتے ہیں، انہیں شعور دیتے رہتے ہیں۔ چنانچہ انقلاب کے لیے طویل مدتی تحریک منظم کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں کے فوری حقوق کے لیے کام کرنا ہوگا۔ سوشلزم کے لیے جدوجہد بہ یک وقت عورتوں کے جمہوری انسانی حقوق کے لیے جدوجہد ہوتی ہے ۔ آدھی آبادی کو ساتھ لیے بغیر کوئی مہذب معاشرہ قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ہم خواہ منظم ہیں یا الگ الگ ، اِس پارٹی سے ہیں یا اُس پارٹی سے ،اِس تنظیم میں ہیں یا اُس تنظیم میں، ہمیں آدھی آبادی کو مفلوج وبے کار رہنے نہیں دینا چاہیے ۔
سماج کی طرف ذمہ داری محسوس کرنے والے لوگ اچانک اور خود روبغاوت پر انحصار نہیں کرتے ۔سیاست میں Spontaneousاور ایڈھاک رد عمل تباہ کن ہوتا ہے ۔ اسی طرح باشعور لوگ کسی فردِ واحد کی عقلمندی ، ہیروگیری یاکرامت سے انقلاب کو مشروط نہیں کرتے۔انقلابی لوگوں کے پاس سائنسی نظریہ کا ناکام نہ ہونے والا راہنما موجود ہوتا ہے ۔ اُسی نظریے میں موجود جدلیاتی حساب کتاب سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ۔اور وہ حساب کتاب یہ کہتاہے کہ محنت کش عام بلوچ عورت کو محنت کش عام مردوں کے خلاف صف آرا کرنے کو سازش قرار دیا جائے ۔ اور اس سازش کے خلاف ہمہ وقت لڑاجائے ۔محنت کش بلوچ عورت کو کپٹلزم کے خلاف جاری طبقاتی اور قومی سیاست کے اہم جزو کی حیثیت سے منظم وباشعور ہونے میں مدددی جائے۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *