Home » شیرانی رلی » The Axiom of connectivity

The Axiom of connectivity

نوشین قمبرانی

زندگی ہے روح
مزیخ اور زمیں ہم ۔روح ہیں
اپنے اپنے اُوربِٹ کے سُرکی منطق میں مِحِو
اپنی اپنی بے کرانی کی بلاوں کو لیے
گردشوں میں لاکھوں سالوں سے رہے یہ ہم سفر
وصل کی چاہت سے بالا، ہجرِ اُو سے ہے خبر

جڑواں روحوں کے کنارے مل نہ پائیں تو بھلا
اور اگر مل جائیں تو معدوم ہوجائے بقا

روند ڈالیں بے طرح اک دوسرے کی ذات کو
سُرخیاں کھاجائیں اس کُرّے میں بہتی رات کو
اور یوں ہوجائے ربط زندگی بے نشاں

اے سَحَر ۔گاہِ زماں
اے مادرِ۔ نابُودگاں
فاصلے تاریک ہیں پر فاصلوں میں ہے اماں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *